امریکہ وہ جگہ ہے جہاں شوق نشونما پاتے ہیں اور آرزوئیں مچلتی ہیں جہاں شباب اور جوانی اپنی قدر و منزلت سے بیگانہ نہیں ہونے پاتے مگر نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق جرمنی کے ماہر دماغی امراض ڈاکٹر آر بی شیلے نے جو تجزیاتی دورے پر امریکہ آئے ہوئے تھے بیان دیا کہ 70فی صدی امریکی نوجوان کسی نہ کسی حد تک نفسیاتی الجھن کا شکار ہیں اور امریکہ ویورپ میں پچھلی دہائی میں جسمانی اور ذہنی بیماریوں کی شرح قابل لحاظ حد تک بڑھی ہے۔
صاحب ، موجودہ صدی کے گوناگوں مسائل اور پیچیدہ حالات نے ذہنوں کو ماؤف کردیا ہے۔ اکثر نوجوان تو یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ انہیں کیا بات یاد رکھنا ہے اور کیا بھولنا ہے۔ ہم خود کبھی بھولے سے کانوں سے دیکھنے اور آنکھوں سے سننے لگتے ہیں۔ ہمیں تو اپنے دوست مرزا یاد آگئے۔ اگرچہ انکی عمر زیادہ نہیں تھی مگر بیماری کی وجہ سے ان کی جوانی بوڑھی ہوگئی تھی۔ منہ کے اندر دانت حاضر کم اور غائب زیادہ تھے۔لاپرواہی اور بد پرہیزی سے مرزا نے خود اپنے مرض کو بلکہ امراض کو بگاڑا ہوا تھا۔ ظاہر ہے اگر آپ مرض کو بے لگام کرو گے تو موت آکر آپ کو سلام کرے گی۔ بیماری سے تنگ آکر کہنے لگے تھے کہ کاش میرا باپ لاولد ہوتا۔ کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ کب انکے منہ سے قے کا فوارہ نکل پڑے۔ وہ سدا کے روگی تھے اور معلوم ہوتا تھا ولادت کے ساتھ ہی ان کی علالت شروع ہوگئی تھی۔ ہر سال گرہ پر ایک نئی بیماری میں مبتلا ہوجاتے تھے۔ امریکہ آتے وقت ملاقات کے لئے انکے گھر گیا تو ایک ہڈی توڑانگڑائی لی اور بولے :
’’ تم آجاتے ہو تو معلوم ہوتا ہے بیمار نہیں ہوں‘‘
میری تو ان سے جب بھی ملاقات ہوئی انہیں کم و بیش اس حالت میں دیکھا کہ ایک ہاتھ میں تازہ اور خوشبو دار پھلوں کی ٹوکری ہے اور دوسرے ہاتھ میں شربت انار کی ایک خوب صورت بوتل۔ کالے مرغ کی یخنی اور اس کے لوازمات میز پر سجے ہیں۔ چنانچہ ان کی بیماری سے بھی ایک شان ٹپکتی تھی۔ وہ دواؤں سے زیادہ غذاؤں پر یقین رکھتے تھے اور غذاؤں کے استعمال میں ہی بد پر ہیزی کرتے تھے۔
مرزا کے ایک ہم زلف کا پاکستان سے فون آیا کہ مرزا کا دل کم زور ہوگیا ہے۔ پچھلے ہفتے اخبار پڑھتے پڑھتے اچانک بے ہوش ہوگئے۔ اس کے بعد سے انہیں اخبارات سے بچایا جانے لگا، ہاں انکے کمرے میں پڑھنے کے لئے کچھ فلمی رسالے رکھ دئے جاتے تھے مگر جب سے رسالے میں ایک حسینہ کا وضو توڑ فوٹو دیکھتے ہوئے دل کے دورے میں مبتلا ہوئے اس دن سے انہیں فلمی رسالوں سے بھی بچایا جانے لگا۔
ہم تو جب بھی ڈاکٹر کے پاس گئے ڈاکٹر نے بقدر توفیق ہمارے مرض کی توہین کی۔ ہم نے اصول بنالیا ہے کہ از خود کبھی ڈاکٹر کے پاس مت جاؤ۔ ہاں اگر بیماری کی شدت سے بے ہوش ہوجائیں اور لواحقین ہمیں ڈاکٹر کے پاس لے جائیں تو الگ بات ہے۔ اس صورت میں بل کی ادائیگی کی ذمہ داری بھی لواحقین پر عائد ہوتی ہے۔
چینی کہاوت ہے کہ ہر وہ کتاب اچھی جو ابھی چھپی نہ ہو، ہر وہ افسانہ اچھا جو ابھی لکھا نہ گیا ہو اور ہر وہ مرض اچھا جس کا ابھی علاج نہ کرایا گیا ہو۔ ہم نے اکثر سمجھ دار لوگوں کو سیب کھاتے دیکھا ہے۔ سیب کھانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ ڈاکٹر سے بچو۔ جی ہاں سیب کی قیمت ڈاکٹر کی فیس سے بہر حال کم ہے۔
ہم ایک ایسے ڈاکٹر کو جانتے ہیں جو دوا خلق خدا کو مفت دیتے صرف مشورے کی فیس لیتے اور مشورے کے بغیر کوئی دوا نہیں دیتے۔کلینک پر انہوں نے بورڈ لگا رکھا ہے :
’’ہمارے کلینک میں آئیے اطمینان بخش علاج کرائیے۔ ہم آپ کے ٹھیس کو اعتماد نہیں پہنچائیں گے‘‘
ایسا مالدار مریض جو حسن اتفاق سے سدا کا روگی ہو ڈاکٹر کے لئے ایک بیش بہا نعمت ہے۔ بعض ڈاکٹر اپنے فن سے مرض کو دائمی اور مریض کو مستقل بنادیتے ہیں گویا مرض کا اتنا تکلیف دہ علاج کرتے ہیں کہ مریض چیخ اٹھتا ہے کہ اس سے تو بہتر مرض ہی تھا۔
دنیا کا سب سے آسان کام نصیحت کرنا اور سب سے مشکل کام اس نصیحت پر خود عمل کرنا ہے۔ہم اپنے دوستوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ کم خوراک کھاؤ ورنہ زیادہ خوراک آپ کو کھا جائے گی۔ ہم خوش خوراکی کو بد خوراکی کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ بعض لوگ اتنے زود خور ہوتے ہیں صبح کا ناشتہ اس وقت ختم کرتے ہیں جب دوپہر کے کھانے کا وقت آجاتا ہے اور دوپہر کا کھانا اس وقت ختم کرتے ہیں جب شام کے کھانے کا وقت آجاتا ہے۔ ایسے ہی ایک صاحب کو ہم جانتے ہیں جن کی تناول طعام کی رفتار سبحان اللہ۔ ادھر قورمے کی پلیٹ آئی ادھر ختم۔ کئی ڈشیں مسمار کرچکتے ہیں مگر پیٹ پھر بھی خالی۔ اللہ بخشے ہمیں اپنی دادی یاد آگئیں جنہوں نے ڈائٹنگ (Dieting) کا ہمیشہ خیال رکھا اور نوے سال کی عمر میں بھی وہ نوے پونڈ کی تھیں۔
حفظان صحت کے لئے صفائی بہت ضروری ہے اور پاکستان میں صفائی کا انتظام دن بدن خراب ہوتا جارہا ہے۔ خاص طور پر چھوٹے قصبوں اور پسماندہ علاقوں کی حالت بہت ابتر ہے۔ پچھلے سال ایسے ہی ایک علاقے میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں گندگی اور غلاظت کا نا قابل ختم سلسلہ تھا اور دائیں جانب نالے میں گاڑھا ، بد بو دار اور سیاہ پانی۔ اس کی سطح پر بننے والے بلبلے ایسے دکھائی دیتے تھے جیسے کسی مریض کے جسم پر آتشک کے چھالے۔ سامنے ایک چھاٹا سا زچہ خانہ تھا جہاں اس وقت ڈیلیوری کا ایک کیس ہورہا تھا۔ کوئی لیڈی ڈاکٹر نہیں تھی۔ نرسیں یہ کام سر انجام دے رہی تھیں اور دائیاں دوائیاں دے رہی تھیں۔معلوم ہوا زچہ مرگئی بچہ رہ گیا یعنی ازدواجی زندگی ختم ہوتے اپنا ثمر چھوڑ گئی۔
وقت وقت کی بات ہے۔ غزل گائیکی کے بے تاج بادشاہ مہدی حسن مرحوم علاج کے لئے امریکہ آئے تھے تو ان کی صحت گری ہوئی تھی، زبان میں لکنت اور نظر کمزور۔ ہماری نانی کے بھی اس عمر میں حواس خمسہ بوڑھے ہوچکے تھے البتہ چھٹی حس جوان تھی۔ پاکستان میں موسیقی کی کیسی کیسی ترنم آفریں محفلیں مہدی حسن سجاتے تھے۔ لتا منگیشکر نے انکے بارے کہا تھا کہ مہدی حسن کے گلے میں بھگوان ہے۔ اب تو لتا بھی گانے کے قابل نہیں رہیں۔ ریٹائرڈ زندگی گزار رہی ہیں۔ اور تو اور ملکہ ترنم کو بھی موت سے قبل اپنی درازی عمر کا عرفان ہوگیا تھا۔
شراب بھی انسان کے جسم و عقل پر غیر صحت مندانہ رجحانات پیدا کرنے میں اہم کردار انجام دیتی ہے اور عادی شرابی عمر بھر اپنی زندگی کے خلاف تگ و دو کرتا رہتا ہے۔ شرابی اگر شراب نہیں پئے تو وہ سامنے والے کی باتوں کو ہضم نہیں کرسکتا اور اسی کا نام ہے ۔۔۔ ذ ہنی بد ہضمی