بے نظیر کی شہادت سے کچھ عرصہ پہلے ہم نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا ’’خدا خدا کرکے ہمارے دو لیڈر نواز شریف اور بے نظیر بھٹو واپس پاکستان لوٹ آئے۔ اب الطاف حسین کی واپسی کا انتظار ہے۔ دونوں لیڈروں کی آمد انتخابات کی گہماگہمی بھی اپنے ساتھ لائی‘‘۔
ووٹ کسی کو بھی دیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ تمام سیاسی پارٹیوں کا منشور ایک ہی ہے کہ۔ ۔ ۔ آؤ مل کر ملک کو لوٹیں۔ ہمارے خیال سے تو الیکشن میں امیدواروں کی کامیابی کی دو ہی وجوہات ہوتی ہیں۔ عوام کا غلط انتخاب اور ووٹ کا غلط استعمال۔ بعض لوگوں کی اہمیت ان کی شہرت سے زیادہ ہوتی ہے اور بعض لوگوں کی شہرت ان کی اہمیت سے زیادہ۔ کسی شخصیت کے منفی یا مثبت ہونے کا فیصلہ وقتِ حاضر نہیں کرتا، آئندہ کی تاریخ کرتی ہے۔ ممکن ہے موجودہ فرشتہ مستقبل کا ابلیس ٹھہرے یا موجودہ یزید آئندہ کا حسینؓ بن جائے۔ مجھے ان لوگوں پر ہنسی آتی ہے جو کہتے ہیں ہم نے اتنے لاکھ ووٹ حاصل کرلئے یا ہم عوام میں بہت زیادہ پاپولر ہیں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں۔ عوام نے اکثر خراب لوگوں کا ساتھ دیااور اچھے لوگوں کو مسترد کیا۔ ’’عوام کا فیصلہ ہمیشہ صحیح ہوتا ہے‘‘ یہ ایک غلط مقولہ ہے۔ صحیح مقولہ یہ ہونا چاہئیے کہ ’’عوام کا فیصلہ اکثر غلط ہوتا ہے‘‘ جرمنی کا ہٹلر اپنے زمانے میں انتہائی مقبول شخص تھا۔ لوگ قمیض کے بٹنوں پر اس کی تصویر لگاتے۔ اس کی نازی پارٹی نے نوے فی صد سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ لیکن بعد میں تاریخ نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک کرپٹ، ظالم، مغرور، خونی اور خود سر آمر تھا۔ اگر یزید اور امام حسین کے زمانے میں بھی وہی جمہوری سسٹم رائج ہوتا جو آج ہے یعنی ’’ایک شخص ایک ووٹ‘‘تو حسین ہار جاتے یزید جیت جاتا۔ ۔ ۔ میں آج آپ کو پاکستانی الیکشن کی تاریخ کے چیدہ چیدہ واقعات سناتا ہوں:
کراچی کے انتخابی حلقے میں ایک امیدوار تقریر کررہے تھے۔ پنڈال کے پیچھے سے ایک گدھے نے زور زور سے رینکنا شروع کردیا۔ سامعین میں سے کسی نے آواز لگائی’’ایک وقت میں ایک ہی گدھا بولے‘‘
1990ء کے الیکشن کا زمانہ تھا۔ ایک ہی دن ایک ہی حلقے کے دو مخالف امیدواروں کا جلسہ ہورہا تھا۔ ایک طرف ایک پنڈال دس گلی چھوڑ کے دوسرا پنڈال۔ دونوں طرف گالیوں کی لمبی بوچھاڑ جیسے دشنام طرازی کا انعامی مقابلہ ہورہا ہو۔ کبھی تو اِس طرف کی گالیاں اُس طرف کی گالیوں سے ہم آہنگ ہوجاتیں۔
1988ء کے انتخابات ہورہے تھے۔ ایک امیدوار نے اپنے علاقے کے ووٹرز کو کھانے کی ’’دعوتِ آم‘‘ دی۔ ایک صاحب آئے مگر آموں کو ہاتھ نہیں لگایا۔ امیدوار نے کہا ’’آپ بھی کھائیں نا‘‘ وہ صاحب بولے ’’پیٹ تو بھرا ہوا ہے۔ مگر تھوڑا بہت کھالیتا ہوں تاکہ آپ کا نمک خوار ہوجاؤں۔ امیدوار نے کہا ’’ہم کوئی نمکین چیز نہیں کھلارہے، صرف میٹھی چیز کھلارہے ہیں، وہ بھی میٹھے آم۔ آپ نمک خوار نہیں ہوں گے صرف خوار ہی خوار ہوں گے‘‘
بعض امیدوار سوچتے آہستہ آہستہ ہیں بولتے تیز تیز ہیں اس لئے الفاظ گڈ مڈ ہوجاتے ہیں اور مافی الضمیر پیچھے رہ جاتا ہے۔ سیاست دانوں کے نزدیک عوام ایک کھونٹی ہے جس پر وہ مہنگائی، جلسوں اور ہڑتالوں کا بوجھ ٹانگتے رہتے ہیں۔
یہ پہلی مرتبہ ہے کہ الیکشن ایسے حالات میں ہورہے ہیں کہ ملک میں ایمرجنسی نافذ ہے، جج صاحبان گرفتار ہیں اور ٹی وی چینل بند ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دہشت گردی اپنے عروج پر ہے۔ آپ کو پتہ ہے دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ امریکہ میں ظہور پذیر ہوا۔ لوگوں میں کھلبلی مچی، پھر بھگڈر اور آخر میں افراتفری۔ ایسی افراتفری کبھی دیکھی نہ سنی۔
ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے حادثے میں ایک نوجوان امریکی بلڈنگ کے ملبے میں پھنس گیا تھا۔ اس کے بازو سے خون کا فوارہ جاری تھا۔ اس نے سیل فون جیب سے نکال کر اپنی بیوی کو فون کیا ’’ڈارلنگ میں شدید زخمی حالت ہوں۔ موت کے قریب ہوں۔ آگ کے شعلے میرے نزدیک پہنچنے ہی والے ہیں‘‘
’’میں دس منٹ میں تمہارے پاس آرہی ہوں۔ دیکھو دس منٹ سے پہلے نہ مرنا‘‘
’’اچھا، میں دس منٹ تک زندہ رہنے کی بھرپور کوشش کروں گا‘‘
ہمارے پرانے قومی لیڈر کتنے بے باک، مخلص اور دیانت دار تھے۔ کچھ بھی ہوجائے مگر ان کے حلق سے اناالحق ہی نکلتا تھا۔ ان کے کارنامے پڑھ کر دل اندر سے کہتا کہ یہ عزت و احترام کے مستحق تھے۔ وہ تکالیف و مصائب سے گھبرانے والے نہیں تھے۔ قید و بند کے عادی ہوچکے تھے۔ اپنے گھر جاتے تو بطور مہمان پھر واپس جیل آجاتے۔ کوئی ان سے پوچھتا ’’کیا آپ بھی کسی چھوٹے بڑے بنگلے یا کسی فیکٹری کے مالک ہیں‘‘ جواب دیتے ’’جی نہیں، میں اچھی شہرت کا مالک ہوں‘‘
اور آج کل کی سیاست اللہ کی پناہ۔ بس یہ جانئیے کہ پارلیمنٹ غنڈوں اور بد معاشوں کا اکھاڑہ بن چکی ہے جہاں تمام شیطانی طاقتیں یکجا ہوجاتی ہیں۔ عوام برسوں سے اس قسم کے وعدے سننے اور سن کر سنی ان سنی کردیتے کے عادی ہوچکے ہیں:۔
* میری زندگی عوام کی خدمت کے لئے وقف ہے۔ میں آپ کے حقوق دلانے اور آپ کے مسائل حل کر نے کی ان تھک جدوجہد کروں گا۔
* ہمارا منشور وطن کی بھلائی، خوشحالی اور ترقی
* مجرم قانون کی گرفت سے بچ کر نہیں جاسکتا، اسے جلد از جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔
اور یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ ان وعدوں کا ’’جلد از جلد‘‘ کتنا ’’طویل‘‘ ہوتا ہے۔
سیل (sale)میں چیزیں سستی ہوجاتی ہیں چنانچہ ہمارا مشورہ ہے کہ کبھی کبھی سیاسی بیانات یا سیاسی وعدوں کی سیل لگادیا کریں تو ممکن ہے عوام کو کچھ قومی فائدے حاصل ہوسکیں۔ امریکہ میں سیل کو صنعتی مقام حاصل ہے۔ کوئی دوکان نہیں چلتی جب تک اس میں سیل نہ لگائی جائے۔ جوتوں کی سیل۔ بنیانوں کی سیل۔ ٹرافیوں کی سیل۔ انعامات کی سیل۔ حسینوں کی سیل۔ آپریشن کی سیل (یعنی سرجری کرالو 50 فی صدی رعایت۔ گردے بدلوالو 25 فی صد رعایت)چرچوں کی سیل۔ پتہ نہیں ’’چرچوں‘‘ کا ماخذ لفظ چرچہ ہے یا چرچ۔ ہمارے خیال سے چرچہ ہی ہوگا کیونکہ امریکہ میں آج کل ایمرجنسی اور پاکستانی الیکشن کا بہت چرچہ ہے۔
پچھلے دنوں ہم نے اخبار میں عمران خان کا ایک فوٹو دیکھا جس میں وہ بالکل وزیر اعظم کی طرح بیٹھے دکھائی دئیے۔ ہم نے یہ فوٹو اپنی بیگم کو دکھایا۔ انہوں نے بھی اسے پرائم منسٹر پوز قرار دیا۔ دو اہل قلم حضرات پہلے ہی اپنے کالموں میں عمران کے وزیر اعظم بننے کی پیش گوئی کرچکے ہیں
بناکر ’’وزیروں‘‘ کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہل ’’قلم‘‘ دیکھتے ہیں