آفتاب کی چھپن چھپائی کا سلسلہ جب اختتام پذیر ہوا اور اس نے اپنے اوپر سے چادر اٹھائی اور جوں ہی سورج کی پہلی کرن سمندروں، دریاوؤں، نہروں کی بوند بوند اور قطرے قطرے پر پڑی تو یوں محسوس ہوا جیسے کہکشاں گیت گا رہی ہو۔ بارش کے سبب بوندوؤں کی جمجماہٹ بھی محسوس ہوتی تو دوسری طرف معطر ہواؤں کی خشبو بھی، سبزہ بھی نمایاں تھا۔ لوگوں کے دلوں کا حال بھی ایسے نمایاں تھاجیسےکوئی کھلی کتاب۔ یوں محسوس ہوا جیسے آج میں نے تنہا آنکھ نہیں کھولی بلکہ میرے ہمراہ غوروفکر نے بھی آنکھ کھولی۔ ایک جانب نظر دوڑائی تو کچھ عقل کے سوتے مظلوموں، یتیموں، بے بس اور لاچار لوگوں کو گاڑیوں تلے کچلتے نظر آے، جھوٹ بولتے، غیبت کرتے، دھوکا دیتے اور ماں باپ سے بدتمیزی کرتے نظر آے۔
جبکہ دوسری جانب نظر دوڑائی تو یوں لگا کسی نئی دنیا میں قدم رکھا ہو، ارے اس دنیا کا حال کیا بیان کروں اس دنیا سے تو یوں جانو مجھے عشق ہی ہو گیا ہو۔ اس جانب لوگ مجھے لوگ اپنے لیے نہیں بلکہ لوگون کے لیے جیتے دکھائی دیے، دوسروں کی عزتوں کی حفاظت کرتے، سچ بولتے اور حلال کی تلاش میں فاقے کرتے دکھائی دیے۔ اس لمحے مجھے بدی و اچھائی نے یوں گھیرا ہوا تھا جیسے کوئی کشتی سمندر میں اپنی منزل کھو بیٹھی ہو۔ اگر غوروفکر کے یہ دو رخ اگر دو دنیا ہوتی تو شاید ایک کا انتخاب آسان ہوتا۔
زندگی کا کوئی پہلو یکساں نہیں نا ہی ہر طرف اچھائی کامظہر پایا جا سکتا ہے اور نا ہی برائی کا۔ یہ انتخاب آپ کا ہے بظاہر یہ انتخاب مشکل ہے مگر اس انتخاب پر آپکی پوری زندگی منحصر ہے یا تو اچھائی کا راستہ اختیار کر کے ترقی اور کامیابی کی رسی تھام کر فلک نشین ہو جایا جاے یا بدی کا انتخاب کرکے تمام صلاحیتوں کے باوجود زمین بوس ہو جائیں۔