1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ڈاکٹر ابرار ماجد/
  4. یہ وطن تمھارا ہے تم ہو پاسباں اس کے

یہ وطن تمھارا ہے تم ہو پاسباں اس کے

یہ چمن تمھارا ہے تم ہو تغمہ خواں اس کے

جب ہم تمام اس وطن کے شہری ہیں اور بحثیت شہری ہماری کچھ ذمہ داریا ں اور حقوق بھی ہیں۔ اور بحثیت شہری ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنے زاتی مفادات پس پشت ڈالتے ہوے اپنے اجتماعی مفادات اور اقدار: آزادی، محبت، بھائی چارہ اور مساوات کو ترجیح دیں۔ ہم سب انسان ہیں اور یہی ہمارا سب سے بڑا رشتہ ہے اور انسان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بھی دوسرے انسانوں کی اصلاح اور خدمت ہے۔

اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام بنیادی حقوق میں برابر حصہ دار ہیں مگر ذمہ داریوں مختلف ہو سکتی ہیں ایک عام شہری کی ذمہ داریاں صدر پاکستان سے مختلف تو ہو سکتی ہیں مگر ذمہ داریوں سے مبراء نیہں ہو سکتا۔ ہم اپنی ذمہ داریو ں کو بھول کر صرف اور صرف تنقید کے در پے رہتے ہیں جو کہ مسائل کا حل نیہں ہے بلکہ مسائل کا حل مل جل کر، بیٹھ کر سوچو بچار کرنا ہے۔ ہر مسئلے کا کوئی نہ کو ئی حل ضرور ہوتا ہے ضرورت اس کو سنجیدگی سے لینے کی ہے۔ اور انسان کی یہ فطرت ہے کہ یہ سنجیدگی سے صرف اس چیز کو لیتا ہے جہاں اس کو کوئی اہمیت، قررو قیمت اور تعلق کا عنصر نظر آے تو لہذا ہمیں پہلے اپنے اندر اس ملک کی املاک اور ترقی کے ساتھ وہ تعلق محسوس کرنا ہوگا تاکہ ہم عملی طور پر ترقی کے عمل میں حصہ لینے کی ضرورت محسوس کریں۔

آج ہمارے تمام مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہماری انفرادی سوچ ہےاگر ہم اپنے اندر اجتماعی سوچ پیدا کر لیں تو ہمارے مسائل ختم ہو سکتے ہیں۔ انسان کی دوسری مخلوقات پر برتری کی وجہ اس کا شعور اور سو چنے کی صلاحیت ہے کہ یہ اچھے اور برے میں تمیز کر سکتا ہے۔ انسان کی سوچ ہی ہے جو اسے عظیم بھی بناتی ہے اور ذلیل بھی کرواتی ہے۔ ہمیں اپنی سوچ کے انداذ اور زاویے بلنے کرنے ہونگے۔ ہمیں تفرقہ بازی، تعصبات، ذات پات اور غلامانہ سوچوں وغیرہ کے حصار سے نکلنا ہوگا اور ہماری بڑائی اور برتری کا معیار کردار اور تقویٰ کو بنانا ہوگا۔

آج ہماری قوم کی تمام تر صلاحیتیں بے مقصد کاموں میں صرف ہو رہی ہیں۔ ہم ایسی فضول سماجی برائیوں میں الجھے ہوئے ہیں کہ ہماری ترقی کی طرف سوچ ہی نہیں جاتی۔ سامراجی سوچ کی وجہ سے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے ہر جائز و نا جائز کام کرنے کے لیے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ اس سب کچھہ سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں سادگی اور قناعت پسندی کی اقدار کو اپنانا ہوگا۔

ہمیں مادیت کی سوچ کو بدلنا ہوگا تب ہماری ڈائریکشنز ٹھیک ہو سکتی ہیں۔ تعلیم کا مقصد واقعات اور محض تسخیرات کا نام نہیں بلکہ اصل تبدیلی تو دل کی روشنی سے ہوتی ہے اور وہ کردار سازی اور سوچنے کی صلاحیتیں پیدا کرنے والی تربیت کا نام ہے تاکہ ہم اس قابل ہو سکیں کہ ہم مل جل کر اپنی مشکلات کا حل نکال سکیں اور دوسرے کے درد کو اپنا درد سمجھ سکیں اقبال نے کہا تھا

تسخیر مہر و ماہ مبارک تجھے مگر
دل میں نہیں تو کہیں روشنی نہیں