1. ہوم
  2. کالمز
  3. محمد عامر حسینی
  4. سبط حسن اور روشن خیالی

سبط حسن اور روشن خیالی

میں نے سبط حسن کی پہلی کتاب "نوید فکر" پڑھی۔ یہ کتاب میں نے "کلاسیک لاہور سے"، "موسی سے مارکس تک"، "ماضی کے مزار "، "پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء"، "ماضی کے مزار " کے ساتھ خرید کی تھی۔ پھر ان کے پاکستان ٹائمز اور ڈیلی ڈان میں چھپنے والے انگریزی مضامین کا مجموعہ "دا بیٹل آف آئیڈیاز ان پاکستان۔۔ پاکستان میں نظریات کا ٹکراؤ/ پاکستان میں جدلیات افکار" پڑھی۔ ان ہی دنوں میں نے کراچی سے شایع ہونے والے پاکستان فورم میں شاہ عبداللطیف بھٹائی پر ان لکھا ایک تحقیقی مقالہ پڑھا۔

بلاشبہ یہ کتابیں میرے فکری ارتقاء میں تشکیل افکار کے ابتدائی دور میں بہت اہم کردار ادا کرنے والی کتابیں ثابت ہوئیں۔ میں نے بلاشبہ سینکڑوں نوجوان لڑکے لڑکیوں کو یہ کتابیں مستعار پڑھنے کو دیں۔ بہت ساروں کو انھیں خرید کر پڑھنے کی سفارش بھی کی۔

مجھے یہ اعتراف بھی ہے کہ کم و بیش 20 سال تک میں نے ان کتابوں کو کبھی بھی تنقیدی فہم اور حسیت کے ساتھ دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ نہ ہی میرے سینئر دانشور ساتھیوں میں سے کوئی ایسا تھا جس نے ان کتابوں میں موجود تصورات پر کوئی ایک بھی تنقیدی جملہ کہا ہو۔ سب کے سب ان کے سحر میں گرفتار تھے اور سب انھیں ناقابل تردید اور ناقابل تنقید مواد کی حامل کتابیں سمجھا کرتے تھے۔

جب میں نے کراچی یونیورسٹی میں ایم اے فلسفہ میں داخلہ لیا اور باقاعدگی سے منظم طریقے سے فلسفے کو پڑھنا شروع کیا اور میرا پہلی بار واسطہ مارکسی فلسفہ کی مختلف تعبیرات اور ان پر استوار ہونے والے فلسفیانہ مکاتب فکر سے پڑا اور خاص طور پر میں کالونیلزم اور پوسٹ کالونیلزم سے متعلق فلسفیانہ، تاریخی اور سیاسی مباحث پڑھنا شروع کیے تو پہلی بار مجھے سبط حسن کی کتابوں میں روشن خیالی، تاریخ کے مادی جدلیاتی تصور اور تاریخ کے مادی ارتقاء کے تصورات پر تنقیدی سوجھ بوجھ آنے لگی۔

مجھے یہ احساس ہوا کہ انھوں نے ہندوستانی سماج میں روشن خیالی، نیشن سٹیٹ، سیکولر نیشنل ازم سے جڑے تصورات اور ان سے جڑی تحریکوں کے تصورات پر کہیں کوئی تنقیدی روشنی نہیں ڈالی۔ ان کتابوں میں ہندوستانی سماج کے اندر ماقبل نوآبادیاتی طریق پیداوار اور پھر نوآبادیاتی طور میں رائج ہونے والے طریق پیداوار میں سرمائے کی پیدائش اور اس کے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک سے ہٹ کر مخصوص صورت میں ارتقاء پر بھی کوئی خاص ناقدانہ نظر نہیں تھی بلکہ ہندوستانی سماج کے ارتقاء کو بھی انھوں نے نوآبادیاتی دور میں ویسے ہی یک خطی کرکے دکھایا جیسے یہ ارتقاء یورپ میں ہوا تھا یعنی جاگیرداری سے سرمایہ داری کی طرف سفر۔

نوید فکر میں انھوں نے ہندوستان میں نوآبادیاتی روشن خیالی کو صرف تعریفی نظر سے دیکھا۔ اس پر ان کی جانب سے کوئی تنقیدی جائزہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ انھوں نے سرسید، موہن رائے جیسے نوآبادیاتی دور کے مفکرین اور ان کے قائم کردہ تعلیمی اداروں اور ان کے نظریات سے مسلمانوں اور ہندوں میں روشن خیال اصلاح پسند تحریکوں کا نہ تو کوئی تنقیدی جائزہ مرتب کیا۔ نہ ان کی انگریزی سامراج کے ساتھ اور اس کے قائم کردہ نوآبادیاتی ریاستی ڈھانچے سے مطابقت پذیری کا کوئی تنقیدی جائزہ مرتب کیا۔ انھوں نے اس روشن خیالی، عقلیت پسندی سے میکانکی انداز میں ترقی پسند تحریک کو نکلتا دکھایا۔ نہ ہی ان کی کتابوں میں ان تحریکوں کی سماجی طبقاتی بنیادوں کا کوئی تنقیدی جائزہ تھا۔ انھوں نے اسے

روشن خیالی /عقلیت پسندی بمقابلہ مذھبی پیشوائیت /تھیاکریسی کی بائنری میں دیکھا اور انھوں نے سرسید یا موہن رائے کے نظریاتی اپریٹس کی ہندوستانی نوآبادیاتی ڈھانچے کی طرف رویے اور سوچ کا کوئی طبقاتی تنقیدی جائزہ مرتب کیا۔ آخر ایک لبرل بورژوازی روشن خیالی /عقلیت پسندی اور مارکس واد تاریخی جدلیاتی مادیت پرستی پر استوار روشن خیالی میں کیا چیز ایسی تھی جو اشتراکی روشن خیالی کو لبرل بورژوازی نوآبادیاتی روشن خیالی یا عقلیت پسندی سے الگ کرتی تھی اس کا سراغ ہمیں ان کی کتابوں میں نہیں ملتا۔ حالانکہ جب ہم کارل مارکس کے فکری ارتقاء پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں فوری پتا چل جاتا ہے کہ کارل مارکس کی تاریخی مادی جدلیات کیسے ہیگل کی مثالیت پسند جدلیات سے الگ تھی اور اس نے کیسے خود کو لبرل بورژوازی روشن خیالی، عقلیت پسندی سے خود کو الگ کیا تھا۔

کارل مارکس کی فیوروباخ، برونو بائر کی مذھب پر تنقید پر کیا تنقید تھی اور اینگلز نے اینٹی ڈھورنگ میں جرمن، انگلش اور فرانسیسی بورژوازی کی روشن خیالی اور اس کے مذھب کی طرف رویے اور موقف کو کس بنیاد پر چیلنج کیا تھا اور اس سے خود کو الگ کیا تھا، اس کا سوراخ بھی ہمیں سبط حسن کی روشن خیالی اور عقلیت پسندی سے جڑی تحریروں میں نہیں ملتا۔ ایک بورژوازی جمہوری سیکولر ریاست اور سماج پر کارل مارکس اور اینگلز کا انتقاد کیسے انھیں لبرل بورژوازی سیکولر نیشنلزم سے الگ کرتا تھا اس بارے بھی سبط حسن کی کتابیں خاموش نظر آتی ہے۔ اس نے لاشعوری طور پر سبط حسن کی کتابوں سے روشن خیال بننے والے ان اشتراکیت پسندوں کے ہاں بھی لبرل روشن خیالی اور عقلیت پسندی کو پروان چڑھایا اور ان کی مذھب پر تنقید میں مارکس واد انتقاد کا پہلو نظریاتی طور پر کمزور ہی رہا۔ بلکہ ہم جیسے مبتدیوں کو تو سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ اشتراکی روشن خیالی اور عقلیت پسندی کہاں پر لبرل بورژوازی و پیٹی بورژوازی روشن خیالی اور مذھب کی طرف انتقاد میں ایک واضح فرق اور تضاد کے ساتھ کھڑی ہے۔

سبط حسن کے جو انگریزی مضامین ہندوستان کی تقسیم، سرسید، جناح، اقبال کے مطالبہ پاکستان، مسلم قومیت، ہندوستانی سیکولر نیشنلزم، مسلم نیشنلسٹ clergy سے بحث کرتے ہیں وہ بھی بڑے گہرے تضاد کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ مسلم قومیت، مطالبہ پاکستان کی ایک لبرل روشن خیال سیکولر ازم پر ہی زور دیتے نظر آتے ہیں۔ وہ جناح اور اقبال کو ترقی پسند ثابت کرنے پر زیادہ زور دیتے ہیں جو ایک سیکولر مسلم قومیت کی تشکیل اور سیکولر جدید ریاست کے قیام کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں جسے دائیں بازو کی رجعت پرستی، مذھب پرستی اور مذھبی پیشوائیت نے ناکام بنایا جو مذھبی پیشوائیت کی علمبردار تھی۔ انھوں نے مسلم کمزور بورژوازی اور پیٹی بورژوازی کی جوابی جڑیں سرمایہ داری میں پوسٹ دکھائیں۔ حالانکہ جو مسلم بورژوازی اور پیٹی بورژوازی کی نام نہاد لبرل پرت تھیں ان کے رویے اور رجحان بھی ان کی طبقاتی جڑوں میں پیوست تھے اور وہ ریاست کی سرمایہ دارانہ بنیادوں اور نوآبادیاتی ڈھانچے کو ہی مضبوط بنانے میں لگے ہوئے تھے۔

سبط حسن کے ہاں رجعت پرستی اور مذھبی پیشوائیت کا جو جواب تھا وہ سرسید، جناح اور اقبال کی ترقی پسندی تھی اور لبرل انتقاد مذھب تھا۔ مجھے اسی لیے بعد میں سمجھ آیا کہ پاکستان کے لبرل ماڈرنسٹ /لبرل جدیدیت پرست اور پوسٹ ماڈرنسٹ / نیولبرل مابعد جدیدیت پرست کیوں سبط حسن کے مداح رہے اور آج بھی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سبط حسن کی روشن خیالی اور عقلیت پسندی دونوں کسی جگہ بھی لبرل و نیولبرل روشن خیالی اور عقلیت پسندی کو چیلنج نہیں کرتیں۔ یہ نوآبادیاتی معاشروں اور ریاستوں سے مل کر بننے والی نوآبادیاتی بورژوازی، پیٹی بورژوازی کے لبرل رجحانات کو آخری تجزیے میں سرمایہ داری کے ان کلاسیکل فرائض کو پورا کرنے والے رجحانات کے طور پر دیکھتی ہے کہ اس سے ریاست خود بخود سیکولر ماڈرن بورژوازی اوصاف کی حامل ہوجائے گی جو یورپی لبرل بورژوازی و پیٹی بورژوازی کی طرح معاشرے میں صنعتی انقلاب لیکر آئے گی اور ایک بورژوازی قومی جمہوری انقلاب برپا ہوگا اور ریاست و مذھب میں علیحدگی ہوجائے گی۔ اس عمل کو اگر کوئی روکے ہوئے تھا اور ہے تو وہ محض مذھبی پیشوائیت ہے۔ یہ نتیجہ عالمی سرمایہ دارانہ سامراجیت اور مقامی بورژوازی و پیٹی بورژوازی کے ساتھ ان کے جملہ رشتوں کو دھندلا دیتا ہے۔

سرسید کی کتاب موسی سے مارکس تک، ماضی کے مزار اور پاکستان میں تہذیب کا ارتقا پاکستان کے سماج کو صعنتی انقلاب سے گزر کر سوشلسٹ سماج بننے کے عمل کو ناگزیر اور خودبخود اشتراکی سماج اور اشتراکی ریاست میں بدلنے کے عمل کو میکانکی مادی حرکت پذیری بناکر پیش کرتی ہے۔ اس میں ہیومن ایجنسی کا کردار یعنی پرولتاریہ کا بطور ایک طبقے کے منظم ہونا، اس سے پرولتاری پارٹی کی تشکیل اور قیادت بھی میکانکی عمل ہی لگتے ہیں۔ یہ ناگزیر ہے اور ہوکر رہے گا۔ ان کتابوں کے زیر اثر ہمیں لگتا تھا کہ پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب اور پاکستانی سماج کا سوشلسٹ بننا اور ریاست کا سوشلسٹ ری پبلک میں بدلنا ناگزیر اور ضروری ہے چاہے کوئی اس کے لیے کوشش کرے یا نہ کرے۔

پاکستان میں سوشلسٹ تحریک اپنی ادارہ جاتی بنیادیں کیوں مضبوط نہ کرسکی؟ اس سماج میں روشن خیالی اور عقلیت پسندی محنت کشوں، کسانوں، شہری اور دیہی غریبوں میں اپنی جڑیں مضبوط کیوں نہ بناسکی اور یہ بورژوازی و پیٹی بورژوازی کی بالائی اربن شہری طبقات کی ایک چھوٹی سی اقلیت میں آج پوسٹ ماڈرنسٹ نیولبرل رجحان کے طور پر ہی کیوں باقی رہ گئی ہے؟ جبکہ باقی سماج کی بھاری اکثریت مذھبی رجعت پسندی، بنیاد پرستی، فرقہ پرستی، مذھبی انتہاپسندی کے چنگل میں کیوں پھنسی ہوئی ہے؟ آخر نوآبادیاتی دور اور مابعد نوآبادیاتی دور کا ترقی پسند اشتراکی لٹریچر اتنی جلدی اپنا اثر کیوں کھو بیٹھا؟

یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب آج کے مارکس واد سماجی دانشور طبقے کی طرف سے آنے چاہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ جسے ہم بائیں بازو کے نظریات کے غلبے کا دور کہتے ہیں اس دور میں بھی ہم پاکستان کے اندر لبرل بورژوازی روشن خیالی اور عقلیت پسندی کے پرچار سے آگے ہی نہیں بڑھ پائے تھے؟ جیسے آج پاکستان میں قوم پرستانہ رجحانات غالب رجحانات ہیں جو بورژوازی اور۔ پیٹی بورژوازی سیکشنز کے زیر اثر ہیں اور ان میں مارکس واد سماجی مادی ترقی پسندی سب سے کمزور اور ایک محدود سی پیٹی بورژوازی انٹلیکچوئل رجحان کے طور پر موجود ہے جس کی آوٹ ریچ /رسائی پاکستان کے اندر رہنے والی اقوام کے محنت کش طبقے، کسان پرتوں، شہری اور دیہی غریبوں میں نہ ہونے کے برابر ہے؟

اس تنقید کا مقصد نہ تو کمیونسٹ تحریک کی اہمیت کو کم کرنا ہے، نہ سبط حسن کے مقام و مرتبے اور اثر کا مثبت سمت میں انکار کرنا ہے۔ میں آج بھی سبط حسن کی کتابوں سے ملنے والی علم کی روشنی اور بصیرت کے زیر بار ہوں۔ یہ کتابیں اگر مجھے اپنے تشکیلی دور میں میسر نہ آتیں تو میں زیادہ سے زیادہ یا تو سرسید کی ہندوستانی اعتزال پسند مسلم عقلیت پسندی کا پیرو ہوتا یا پھر میں سید مودودی کی تحریک کا پیرو ہوتا یا اس سے آگے جاکر میں غلام احمد پرویز کی فکر کا اسیر ہوتا میں کبھی کارل مارکس، اینگلز، لینن اور دیگر مارکسی استادوں کے علم سے بہرہ ور ہوکر عالمی مزدور تحریک سے نہ جڑتا اور محنت کش پرولتاری بین الاقوامیت کا پرچارک نہ بن پاتا۔ سبط حسن کی علمی و فکری جدوجہد کو سرخ سلام۔