ہم نے تقدیر کو پابندِ سلاسل باندھا
جانے کیا سوچ کہ اس دل سے ترا دل باندھا
پھر شبِ ہجر کریں، گلیوں میں شب بھر گھومیں
ایک آواز کے ہمراہ جو سائل باندھا
کیا وہ جانے کہ لگن، شوق کسے کہتے ہیں
ہے وہ گستاخ تجھے گل کے مقابل باندھا
لوگ اب پوچھتے ہیں کارِ جنوں کا حاصل
جزبہء شوق تجھے زیست کا حاصل باندھا
دل نوازی کی کوئی رسم ادھوری نہ رہے
خانہء دل کو ترے واسطے محفل باندھا
تھی طلب ہم کو کہ طوفان سے الجھ جائیں گے
ہائے افسوس مرے پاؤں نے ساحل باندھا
تو رہے شاد ہمیں کوئی گلہ تجھ سے نہیں
تھی یہ قسمت کہ رگِ جان سے قاتل باندھا
دیکھ لیتی ہے مری آنکھ کہ جو ہونا ہے
کیسے اندیشہء الہام مقابل باندھا