بجا! ریلی کو کچھ کنٹینروں نے روک رکھا ہے
مگر ہم شاعروں کو بیویوں نے روک رکھا ہے
چلے آتے وطن والے حکومت کے شارے پر
مگر ان سب کو بجلوں کے بلوں نے روک رکھا ہے
نہ مہنگائی سستاتی ہے جنہیں نا ٹیکس لگتا ہے
وہ کیوں آئیں انہیں عیاشیوں نے روک رکھا ہے
بہادر بن کے آ تو جاوں میں سڑکوں پہ بُھولے سے
مگر مجھ کو کسی کے چِھتروں نے روک رکھا ہے
وگرنہ کب کا آ جاتا وہ لیڈر جیل سے باہر
اسے خود انقلابی ساتھیوں نے روک رکھا ہے
سنا ہے لوٹ کر آئی نہیں جلسے سے گھر واپس
بہت سی مکھیوں کو مچھروں نے روک رکھا ہے
مِرا بچہ کہیں کچلا نہ جائے پاٶں کے نیچے
سنا ہے راستے کو ہاتھیوں نے روک رکھا ہے