1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. فرحت عباس شاہ/
  4. مشاعروں کی برباد نگری اور ہماری ذمہ داری

مشاعروں کی برباد نگری اور ہماری ذمہ داری

تاریخ گواہ ہے کہ مشاعرہ جہاں عمدہ شعراء کے لیے ایک مستند زریعہء پیشکش اور میدان تقابل رہا ہے وہاں نے لیکن جاندار شعراء کے تعارف کاباعث اور شعر کے اعلٰی ذوق سامعین و ناظرین کے ذوق سلیم کی تسکین کا براہ راست وسیلہ بھی بنتا آیا ہے۔ اردو ادب کی اس روایت نے شاعری کے فروغ اور اسے مقبول عام بنانے کے ساتھ ساتھ حاضرین کی جمالیات کی تربیت میں بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

چند برس پہلے تک تو یہی ہوتا آیا تھا کہ مشاعروں کے آرگنائزرز مشاعروں میں مدعو کرنے کیلئے نہ صرف بہترین شعراء کا انتخاب کرتے بلکہ ہمیشہ نے اور عمدہ شعراء کی تلاش میں رہتے اور انہیں خود ڈھونڈ کر نہایت عزت و احترام سے مدعو کرتے اور بہترین تعارف کے ساتھ انہیں سامعین کے سامنے لاتے۔ یہاں تک کہ ایسے بڑے اور مشکل پسند شعراء کو بھی موقع دیا جاتا جنہیں بظاہر ان کے گہرے فکری اظہار اور مشکل پیرایہ شعر کے باعث مشاعرے کے لیے زیادہ سوٹیبل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ نظم گو شعراء کو بھی مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت کے طور بلایا جاتا رہا ہے۔ جوش، فیض اور منیر نیازی کی مثال اس ضمن میں بے دھڑک دی جاسکتی ہے جن سے سامعین فرمائش کرکے نظمیں سنتے تھے۔

اس روایت کو خراب کرنے کا عمل کوئی زیادہ پرانا نہیں بلکہ تین سے چاردہائیاں پہلے جب اخبارات کے ادبی صفحات کے نگرانوں، اخباری کالموں کے زریعے دباؤ کی طاقت حاصل کرنے والے نام نہاد ادیبوں اور ٹی وی ڈرامے لکھنے والے کمتر درجے کے شاعروں نے مشاعروں کو باقاعدہ منافع بخش دھندہ سمجھ کر پوری پلاننگ کے ساتھ ٹھیکیداری شروع کی تو اس روایت کے زوال کا آغاز ہوگیا۔

ماضی قریب میں کچھ ایسے شعراء اور آرگنائزر بھی دیکھنے میں آئے جنہوں نے مشاعروں کو بزنس کے طور پر اپنایا۔ انہوں نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ پبلک ریلشنگ کی، بیگمات کے زریعے تعلقات بنائے اور فطری ہم مزاجیت سے مشاعرہ جاتی رشتے مضبوط کیے۔ سرکاری افسران سے روابط اور سرکاری افسر شاعروں کے اثر و رسوخ کے استعمال کو سرکاری مشاعروں پر قبضہ کرنے کا ٹول بنایا اور بااثر افراد سے مدد لی۔

ہر طرح کا طریقہ آزمایا اور دنیا بھر میں مشاعروں پر اجارہ داری قائم کی۔ جسکے نتیجے میں اچھی شاعری سے حظ اٹھانے کے مقصد پر تماشبینی کی نفسیات غالب آتی گئی اور آرگنائزروں کے دھڑے وجود میں آتے گئے۔ مشاعرے آلودہ ہوتے گئے لیکن فیک شاعروں کا دھندا چمکتا گیا۔ ان کمتر درجے کے مصنوعی شعراء نے پلاننگ کے تحت اچھے شعراء کا پتہ صاف کرنا شروع کردیا اور انہیں مزید فیک شعراء سے ریپلیس کیا جانے لگا۔

اچھے شاعروں کے نام کٹوانے اور چیلوں چماٹوں کے نام شامل کروانے جیسے گھناونے فعل نے مشاعروں کی تاثیر اور برکت کو بری طرح متاثر کیا اور اچھے شاعروں کی مشاعروں سے مسلسل غیرحاضری اور عدم شرکت کے باعث اچھے سامعین کی تعداد کم ہوتی ہوگئی اور ان کی جگہ محض وقت گزاری والے سامعین حاضرین بن گئے۔ حتٰی کہ کالج اور یونیورسٹیز کی ادبی سوسائٹیز کے عہدیداران طلباء و طالبات سے مراثم بڑھانے اور ان کی معصومیت بھری ادب دوستی سے فائدہ اٹھاتے ہوے تعلیمی اداروں کے مشاعروں پر قبضے کے واقعات بھی سامنے آنے لگے۔ ٹھیکیداری سے اجارہ داری تک کے بعد حال ہی میں جو فنامینا دیکھنے میں آرہا ہے وہ اس سے بھی زیادہ خطرناک اور گھناونا ہے۔

پچھلے کچھ سالوں سے غیر ملکی فنڈنگ سے چلنے والی بین الاقوامی این جی اوز کے زریعے ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت شعروادب، ادیب اور مشاعروں کی روایت کو ایک اور طرح کی منظم حکمت عملی کے تحت برباد کرکے انسانوں کو انکی سچی اور گہری معاشرتی جڑوں سے کاٹنے کا عمل شروع کیا جا چکا ہے۔ یہ این جی اوز مختلف تنظیموں اور ویب پورٹلز کے ذریعے ادب کی تروج کا لیبل لگاکر مشاعرے اور سیمینارز کرواتی ہیں۔

وہاں ایک طرف تو فیسٹیولز اور سیمینارز میں نا آموز نوجوانوں کے مادرپدر آزاد اور خام خیالات کو بے وزن اور بے ہنگم انداز میں پیش کیے جانے کو شاعری قرار دیا جاتا ہے تو دوسری طرف غیر شائستہ یک پرتی شاعری کو پروموٹ کیا جاتا ہے۔ یا پھر مصنوعی مشاعروں کا انعقاد کرکے ان میں ولگر اور سستی منظوم فقرے بازی کو شاعری بناکر پیش کرنے والے متشاعروں کو مدعو کیا جاتا ہے اور پھر سوشل میڈیا کے زریعے کروڑوں روپے کی پروموشن کروا کے انہیں پاپولر بنایا جاتا ہے۔ ایسے ہی مشاعروں میں کرائے کے دادیے بھی مدعو کیے جاتے ہیں جنہیں ہا ہو ہا ہو کے نعروں والی داد کا باقاعدہ معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔

ان مشاعروں کے باقاعدہ ایس او پیز بنائے گئے ہیں جو مشاعرے سے پہلے ہر شاعر کے گوش گزار کیے جاتے ہیں تاکہ وہ ان کے دائرہ مقصد سے باہر نہ نکلیں۔ شاعروں کو بتایا جاتا ہے کہ ان کو مشاعرے میں حمد و نعت، منقبت یا تصوف کے موضوعات پر مبنی شعر سنانے کی اجازت نہیں قومی یا انسانی فکر پر مبنی اشعار سے گریز کرنا ہوگا اور سنجیدہ معاشرتی معاشی یا اخلاقی موضوعات پر پابندی کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔

ان مشاعروں میں درج بالا ضابطے کی تعمیل کرنے والے شعراء کو بھاری معاوضہ ادا کیا جاتا ہے اور بہت زیادہ پروموٹ کرکے شعری ٹرینڈ سیٹ کیے جاتے ہیں تاکہ سامعین خصوصاً نوجوان نسل کی جمالیات کو متاثر کرکے انکے احساسات کو سطحی حسیت تک محدود کردیا جائے۔ یقیناً آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ سوشل میڈیا پہ آپ کو چیپ اور تھرڈ کلاس شعر تیزی سے وائرل ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ اس تمام واردات کے اثر میں آنے والے کچے اذہان کے حامل نوآموز شعراء اس سے ملتی جلتی شاعری کرتے نظر آتے ہیں بلکہ بعض پختہ اور پرانے شعراء بھی شعوری یا لاشعوری تقلید کے شکار دکھائی دیتے ہیں۔ جس کے نتیجے کے طور پر راتوں رات سستی شہرت اور عارضی پذیرائی حاصل کرنے کے شوقین اپنی ادبی پیدائش سے قبل ہی تخلیقی موت کو گلے لگا رہے ہیں جبکہ اس سے پہلے صرف وہی شعر زبان زد عام ہوا کرتا تھا جو گہرے انسانی جذبات و احساسات اور اعلی فکر کی خوبصورت اور شاندار عکاسی کرتا تھا۔

شاعری کا تعلق چونکہ براہ راست انسانی نفسیات کی تہذیب کرنے سے ہے یہی وجہ ہے کہ ان سماج دشمن تھنک ٹینکس کا مشن اس میں بگاڑ پیدا کرکے لوگوں کے مذاق جمیل پر ضرب کاری لگا کر سماج کی بے ترتیبی میں اضافہ کرنا ہے۔ فنون لطیفہ کی بے معنی اور سستی کمرشلائزیشن کے اس رجحان نے آج ہمارے کریٹو آرٹس خصوصاً شاعری کو بے مقصدیت اور بے معنویت کے جس سستے ٹریک پر لاکھڑا کیا ہے اگر اس کا سدباب نہ کیا گیا تو انسانی پستی اور سماجی بے ترتیبی میں مزید سے مزید اضافہ ہوتا جائے گا کیونکہ اس تمام سازش کے ڈانڈے سرمایہ داراری نظام کے گھناونے منصوبوں سے ہی جا کے ملتے دکھائی دیتے ہیں جن کے زریعے انسانوں کو تشخص اور تجزیاتی فکر سے محروم کرنے کے لیے ہر طریقہ آزمایا جا رہا ہے۔ ادبی اور تعلیمی اداروں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اس شاندار تعمیری تہذیبی روایت کی حفاظت کرنا ہوگی۔