اُسے اقتدار تو مل گیا لیکن اختیار نہ ملا۔ عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والا یہ لیڈر اختیار حاصل کرنا چاہتا تھا تاکہ عوام سے کئے گئے وعدے پورے کر سکے۔ اُس نے پارلیمنٹ کے ذریعہ اختیار حاصل کرنے کی کوشش کی تو فوجی جرنیل اور اعلیٰ عدلیہ کے کچھ جج ناراض ہو گئے۔ سیاسی مخالفین پہلے سے ناراض تھے لہٰذا وہ سڑکوں پر آ گئے اور اُنہوں نے "نا اہل" حکومت کی برطرفی کا مطالبہ شروع کر دیا۔ عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والے لیڈر کے حامی بھی سڑکوں پر نکل آئے اور اُنہوں نے اپنے لیڈر کے حق میں مظاہرے شروع کر دیئے۔ کچھ سیاستدانوں نے فوج سے مداخلت کا مطالبہ کر دیا اور پھر فوج نے ملک کے منتخب حکمران کو الٹی میٹم دیا کہ وہ اڑتالیس گھنٹوں میں اقتدار چھوڑ دے تو اُسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ نہ جیل میں ڈالا جائے گا، نہ کوئی مقدمہ چلایا جائے گا بس اُسے یہ یقین دہانی کرانا تھی کہ وہ سیاست سے کنارہ کش ہو جائے گا۔ اُس نے انکار کر دیا۔ پھر پیغام دیا گیا کہ آپ بیرون ملک چلے جائیں اور کچھ سال تک خاموشی اختیار کریں لیکن یہ پیشکش بھی مسترد ہو گئی تو فوج نے منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ایک منتخب حکمران کو جیل میں ڈال کر قاتل، چور، ڈاکو اور ملک دشمن قرار دیدیا گیا۔ بیک وقت کئی مقدمات شروع ہو گئے اور سزائیں سنانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ گرفتار لیڈر کی مقبولیت میں کوئی کمی نہ آئی تو اُس پر جاسوسی کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اُس کے اعصاب توڑنے کے لئے اُسے قیدِ تنہائی میں رکھا گیا، ڈاکٹر اور وکلاء سے ملاقاتیں بند کر دی گئیں، اہل خانہ سے ملاقاتیں کم ہو گئیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے آواز اٹھائی کہ ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے مرض میں مبتلا شخص کو ڈاکٹر سے دور قیدِ تنہائی میں رکھنا ٹارچر کے زمرے میں آتا ہے اور یہ ٹارچر قیدی کے لئے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ پھر 17 جون 2019 کو یہ قیدی شیشے کے ایک پنجرے میں بند کر کے عدالت میں لایا گیا۔ دورانِ سماعت بلٹ پروف شیشے کے پنجرے میں بند یہ قیدی گر گیا۔ اسے اسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ وہ مر چکا ہے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے مرنے والا شخص مصر کا پہلا منتخب صدر محمد مُرسی تھا جو مرنے کے بعد مصر کے ڈرپوک فوجی جرنیلوں اور ججوں کے لئے ایک ڈرائونا خواب بن چکا ہے۔ مصر کے فوجی صدر جنرل عبدالفتح السیسی مردہ محمد مرسی سے اتنے خوفزدہ تھے کہ اُن کا جسدِ خاکی اہلِ خانہ کے حوالے نہ کیا کہ کہیں جنازے میں بہت زیادہ لوگ نہ آ جائیں۔ رات کے اندھیرے میں چند لوگوں کی موجودگی میں محمد مرسی کو قبر میں اتار کر جنرل عبدالفتح السیسی نے اپنا اقتدار تو بچا لیا لیکن جب صبح کا سورج طلوع ہوا تو مردہ محمد مُرسی دنیا بھر کے انصاف پسندوں کے لئے روشنی کا ایک مینار اور جنرل عبدالفتح السیسی ایک گالی بن چکا تھا۔ وہ تادمِ مرگ گالی بن کر زندہ رہے گا، مرنے کے بعد بھی گالی رہے گا۔
محمد مرسی کی موت کو ترکی کے صدر طیب اردوان نے شہادت قرار دیا ہے۔ امیرِ قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی اور ایرانی دفترِ خارجہ نے محمد مرسی کی موت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ ملائشیا کے وزیر خارجہ سیف الدین عبداللہ نے بھی مصر کے پہلے منتخب صدر کی موت پر تعزیتی بیان جاری کرنے کی گستاخی کر ڈالی لیکن اکثر مسلم ممالک کے غیرت مند حکمران خاموش رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ محمد مرسی کی موت پر اظہار تعزیت سے ڈونلڈ ٹرمپ کی پیشانی پر بل پڑ سکتے ہیں۔ کچھ کرم فرما یہ سوچ رہے ہوں گے کہ محمد مرسی کی موت پر میں اتنا دکھی کیوں ہوں؟ میں واقعی بہت دکھ محسوس کر رہا ہوں۔
مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ محمد مرسی کی کہانی میں آپ کو پہلی دفعہ نہیں سنا رہا۔ یہ کہانی میں پہلے بھی آپ کو سنا چکا ہوں۔ یہ پہلی دفعہ نہیں کہ کسی منتخب لیڈر کو گرفتار کر کے پنجرے میں عدالت لایا گیا۔ یہ پہلی دفعہ نہیں کہ مردہ مرسی زندہ مرسی سے زیادہ خطرناک بن گیا اور اُس کا جسدِ خاکی رات کے اندھیرے میں دفنایا گیا۔ یہ سب پہلے بھی ہو چکا ہے۔ شاید آئندہ بھی ہوتا رہے لیکن کچھ لوگوں نے تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ہم اپنے لیڈروں کو غدار اور ملک دشمن قرار دے کر خود اپنی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہیں۔ غور کیجئے جس دن محمد مرسی عدالت میں غش کھا کر گرے اُس دن اُنہیں کس الزام کا سامنا تھا؟ الزام یہ تھا کہ انہوں نے مصر کے قومی راز حماس پر افشا کر دیئے۔ حماس کون ہے؟ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم ایک تنظیم جس کا سب سے بڑا دشمن اسرائیل ہے۔ آج مصر کی حکومت اسرائیل کے دشمنوں کو اپنا دشمن اور اسرائیل کے دوستوں کو اپنا دوست سمجھتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ برطانوی جریدے "دی اکانومسٹ" نے بڑے فخر سے جنرل عبدالفتح السیسی کو مصر کی تاریخ کا سب سے بڑا اسرائیل نواز حکمران قرار دیا۔ بہت سے اسلامی ممالک میں یہ روایت موجود ہے کہ جب کسی سیاستدان یا صحافی کے کردار پر حملہ کرنے کے لئے آپ کے پاس کچھ نہ ہو تو اُسے امریکہ، اسرائیل یا بھارت کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ جنرل عبدالفتح السیسی کے اخلاقی دیوالیہ پن کا اندازہ اس الزام سے لگائیں کہ موصوف نے محمد مرسی کو حماس کا ایجنٹ قرار دیا۔ اسرائیل اور امریکہ حماس کو دہشت گرد سمجھتے ہیں لہٰذا جنرل عبدالفتح السیسی بھی حماس کو دہشت گرد اور حماس کے لئے ہمدردی رکھنے والوں کو بھی دہشت گرد سمجھتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ محمد مرسی بندوق کی طاقت سے نہیں ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آئے تھے۔ امریکہ اور اُس کے کاسہ لیسوں نے ایک منتخب صدر کو فوج کی مدد سے پہلے جیل میں ڈالا، پھر قبر میں اتار دیا اور دنیا کو بتا دیا کہ اُس کی جمہوریت پسندی کے دعوے محض ایک فریب ہیں۔ محمد مرسی کی موت سے مسلم دنیا میں جمہوریت پسندوں کا بیانیہ کمزور اور عسکریت پسندوں کا بیانیہ مضبوط ہو گا۔ اگر مرسی بھی حسنی مبارک اور جنرل عبدالفتح السیسی کی طرح اسرائیل سے دوستی کر لیتے اور فلسطینیوں کو دھوکہ دے دیتے تو آج وہ بدستور اقتدار میں ہوتے لیکن انہوں نے فلسطینیوں کو دھوکہ دینے سے انکار کیا اور موت کو گلے لگایا۔ محمد مرسی کے ساتھ وہی ہوا جو ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہوا۔ اُنہیں بھی لاہور ہائیکورٹ میں پنجرے میں لایا جاتا تھا۔ جنرل عبدالفتح السیسی کے ساتھ وہی ہو گا جو بھٹو کے قاتلوں کے ساتھ ہوا۔ شکر ہے کہ 19 جون کی صبح پاکستان کی قومی اسمبلی میں مولانا عبدالاکبر چترالی نے محمد مرسی کے لئے دعائے مغفرت کرائی تو حکومت اور اپوزیشن کے ارکان نے اپنے اپنے ہاتھ اٹھا کر یہ پیغام دیا کہ ابھی مسلمانوں میں کچھ حمیت باقی ہے۔ محمد مرسی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اللہ کے شیروں کو گھیر گھیر کر مت مارو کہیں، ایسا نہ ہو کہ دشمنوں کے کتے تمہیں ادھیڑ کھائیں۔ محمد مرسی کے ان الفاظ پر ہمیں غور کرنا ہے اور فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں شیروں کی طرح زندہ رہنا ہے یا پھر دشمن کے کتوں کی خوراک بننا ہے۔ تاریخ میں محمد مرسی کو ایک شیر اور اُن کے قاتلوں کو غدار کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔