1. ہوم/
  2. مہمان کالم/
  3. حامد میر/
  4. بھارت کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟

بھارت کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو پچھلے چھ ماہ کے دوران غلط انٹیلی جنس رپورٹوں کے باعث دوسری مرتبہ ایک بڑی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ پہلی مرتبہ فروری 2019 میں مودی نے آزاد کشمیر سے ملحقہ خیبر پختونخوا کے علاقے بالا کوٹ میں بمباری کی اور ایک ٹریننگ کیمپ تباہ کرنے کا دعویٰ کیا لیکن یہ دعویٰ جھوٹ نکلا۔ اس جھوٹ کے باعث پاکستان اور بھارت میں جو کشیدگی پیدا ہوئی اُس کے نتیجے میں دو بھارتی طیارے تباہ ہوئے اور ایک بھارتی پائلٹ اپنے تباہ شدہ طیارے سے چھلانگ لگا کر آزاد کشمیر میں گرفتار ہو گیا۔ دوسری مرتبہ بھارتی انٹیلی جنس نے اگست کے پہلے ہفتے میں وزیراعظم مودی کو یہ رپورٹ دی کہ قطر میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پا چکا ہے اور اس معاہدے کا اعلان ہوتے ہی دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر کی طرف مبذول ہو جائے گی۔ مودی کو یہ بھی کہا گیا کہ 1989 میں افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا کے بعد کشمیر میں آزادی کی تحریک تیز ہو گئی تھی اور خطرہ ہے کہ 2019 میں افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کے بعد ایک دفعہ پھر کشمیر کا معاملہ دنیا کی توجہ حاصل کرے گا۔ اس انٹیلی جنس رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت کو کشمیر پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ امریکہ اور افغان طالبان میں امن معاہدے کے متوقع اثرات کا مقابلہ کیا جا سکے، لہٰذا مودی نے فوری طور پر مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں مارشل لاء نافذ کر دیا اور آئین کی دفعہ 370 اور 35 اے کے تحت ریاست کی خصوصی حیثیت بھی ختم کر دی۔ فروری میں بالاکوٹ حملے سے بھی دنیا میں مسئلہ کشمیر اُجاگر ہوا اور اگست میں مقبوضہ علاقے میں مارشل لاء لگانے کا نتیجہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کی صورت میں نکلا۔ پچاس سال بعد سلامتی کونسل کے اجلاس میں کشمیر پر دوبارہ بات ہوئی۔ کمرہ بند اجلاس کے بعد کوئی اعلامیہ جاری نہ ہوا جسے بھارت نے اپنی کامیابی قرار دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس اجلاس نے ایک دفعہ پھر دنیا کو مسئلہ کشمیر کی سنگینی سے آگاہ کیا اور بھارت مسئلہ کشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ اب بھارتی میڈیا میں بھی یہ اطلاعات شائع ہو رہی ہیں کہ مودی حکومت نے 5؍اگست کو بہت جلد بازی میں ریاست جموں و کشمیر پر جو مارشل لاء مسلط کیا اُس کے پیچھے انٹیلی جنس رپورٹ تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کچھ دنوں میں امریکہ اور افغان طالبان میں امن معاہدہ خطے میں بھارت کے مفادات کو بُری طرح متاثر کرے گا لہٰذا بھارت کو کچھ فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

14 اگست 2019 کو بھارتی اخبار "دی ہند" میں سوہاسنی حیدر نے لکھا ہے کہ 5؍اگست کو مودی کے کشمیر ایڈونچر کے پیچھے بھارتی انٹیلی جنس کی یہ رپورٹ تھی کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان متوقع معاہدہ بھارت کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہو گا کیونکہ ایسی صورت میں 28 ستمبر 2019 کو افغانستان میں صدارتی الیکشن ملتوی ہو جائے گا۔ بھارتی حکومت اس الیکشن میں بیک وقت اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سمیت کم از کم 17 ایسے امیدواروں کی مدد کر رہی ہے جو بھارت کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہیں۔ صدارتی الیکشن ملتوی ہونے سے کابل میں افغان طالبان کا اثر و رسوخ قائم ہو جائے گا جو پاکستان کے زیادہ قریب ہیں۔ جس وقت مودی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مارشل لاء نافذ کرنے کا فیصلہ کیا تو قطر میں امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات کا آٹھواں رائونڈ جاری تھا۔ مذاکرات کا یہ رائونڈ 12 اگست کی شام بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا کیونکہ عیدالاضحی آ گئی تھی۔ ان مذاکرات میں شریک امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے بہت کوشش کی کہ عیدالاضحی کے دن مذاکرات کو نتیجہ خیز بنا کر کوئی خوشخبری دی جائے لیکن افغان طالبان نے کچھ اہم معاملات پر اپنی قیادت سے مشورے کے بغیر آمادگی سے معذوری ظاہر کی اور یوں بھارتی انٹیلی جنس کی یہ رپورٹ غلط نکلی کہ 3اگست کو قطر میں شروع ہونے والے مذاکرات کا آٹھواں رائونڈ نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔ بھارتی انٹیلی جنس کی رپورٹ دراصل زلمے خلیل زاد کے اندازے پر مبنی تھی جو بھارتی حکومت کے سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول کے ساتھ رابطے میں رہتا ہے۔ امریکہ اور افغان طالبان میں مذاکرات ناکام نہیں ہوئے بلکہ کچھ تعطل کا شکار ہیں۔ افغان طالبان نے ایک بیان میں یہ واضح کیا کہ افغان مفاہمتی عمل کو کشمیر کی صورتحال سے نہ جوڑا جائے لیکن کیا کریں کہ بھارتی انٹیلی جنس نے افغان امن مذاکرات میں اپنی ناکامیاں تلاش کرکے مودی حکومت کو ایسے فیصلوں پر مجبور کر دیا جن پر دنیا بھر میں تنقید ہو رہی ہے۔ اب بادل نخواستہ مودی حکومت کو مقبوضہ علاقے میں کرفیو نرم کرنا پڑے گا۔ سرکاری دفاتر اور تعلیمی ادارے کھولنا پڑیں گے اور جب وہاں جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوگا تو مودی حکومت دبائو میں آئے گی۔ اس دبائو سے نکلنے کے لئے وہ لائن آف کنٹرول پر جارحیت میں اضافہ کرے گی۔ بھارتی جارحیت کے نتیجے میں ایک طرف مقبوضہ علاقے میں کشمیریوں کا خون بہایا جا رہا ہے دوسری طرف لائن آف کنٹرول پر پاکستانی فوج کے جوان اور سویلین آبادی بھی شہید ہو رہی ہے۔ یہ صورتحال تقاضا کر رہی تھی کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی متحد ہو کر کشمیریوں کے لئے آواز اُٹھاتی کیونکہ کشمیریوں کا واحد جرم پاکستان سے محبت ہے لیکن افسوس کہ پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن نے کشمیریوں کے ساتھ محض نمائشی اظہارِ یکجہتی کیا اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر بلائے جانے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی ایک دوسرے کے خلاف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی گئی۔ کوئی مانے یا نہ مانے اس وقت ہم معاشی عدم استحکام کا شکار ہیں اور اس کی ایک وجہ سیاسی عدم استحکام بھی ہے۔

پاکستان کے ارباب اختیار چاہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان کا میڈیا کشمیر کی جنگ لڑے۔ جب پاکستان کا میڈیا مقبوضہ کشمیر کے سیاستدانوں کی گرفتاری پر سوال اٹھاتا ہے تو بھارتی میڈیا کہتا ہے تم اپنی خیر منائو، تمہارے دو سابق وزرائے اعظم، ایک سابق صدر اور کئی سابق وزراء بھی جیل میں ہیں۔ یہ وہ کمزوریاں ہیں جن کا بھارت کی طرف سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔ بھارتی حکومت نے بڑے غیر محسوس انداز میں حریت کانفرنس کی قیادت کو میڈیا سے غائب کر دیا ہے۔ مغربی میڈیا یہاں تک کہ پاکستانی میڈیا پر بھی ایک نو آموز کشمیری سیاستدان شاہ فیصل کا ذکر ہو رہا ہے۔ بھارتی حکومت آنے والے دنوں میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات کرائے گی جس میں نئی قیادت سامنے لاکر اسی قیادت کے ذریعہ کشمیریوں کو کچھ نام نہاد ریلیف دیا جائے گا لیکن اگر مقبوضہ علاقے میں پُرتشدد واقعات شروع ہو گئے تو پھر بھارت ان واقعات سے توجہ ہٹانے کے لئے محدود جنگ کے ذریعہ آزاد کشمیر کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ بھارتی انٹیلی جنس پر اس وقت انتہاء پسند ہندوئوں کا کنٹرول ہے جو ہوش کے بجائے جوش میں فیصلے کرتے ہیں اس لئے پاکستان جنگ سے گریز ضرور کرے لیکن جنگ کے لئے ہر وقت تیار رہے اور یہ تیاری ملک میں سیاسی استحکام لائے بغیر نہیں کی جا سکتی۔ سیاسی عدم استحکام ختم نہ کرنے کا مطلب دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف ہو گا۔