کھیل میں سیاست کو نہیں لانا چاہئے لیکن یہ بات صرف کہنے کی ہے کرنے کی بالکل نہیں رہی۔ ہم نے تو کھیل کے میدان میں ’’گو نواز گو‘‘ اور ’’رو عمران رو‘‘ کے نعرے بھی سنے ہیں۔ کرکٹ میچ کو کفر اور اسلام کی جنگ بنتے بھی دیکھا ہے یہاں تک کہ ایشیا کپ میں پاکستان اور افغانستان کے کرکٹ میچ میں تماشائیوں کو انتہائی جذباتی انداز میں نعرہ تکبیر بلند کرتے بھی دیکھا ہے۔ ہمارے دوست اسکندر بخت نے پچھلے دنوں یو اے ای میں پاکستان اور افغانستان کے کرکٹ میچ کے دوران کچھ افغانیوں کی زبانی ایسی ایسی باتیں سنیں کہ اسکندر بخت کے پسینے چھوٹ گئے حالانکہ اسکندر بخت کے ساتھ کئی سال تک کرکٹ کھیلنے والے عمران خان نے پچھلے دنوں کراچی میں کہا تھا کہ جن افغان مہاجرین کے بچوں نے پاکستان میں جنم لیا ہے انہیں پاکستان کی شہریت ملنی چاہئے۔ عمران خان کے اس بیان کے بعد افغان اشرافیہ کے لہجوں میں تبدیلی آنی چاہئے تھی لیکن اسکندر بخت کو ایسی کوئی تبدیلی محسوس نہ ہوئی۔ بھلا ہو شعیب ملک کا جنہوں نے افغانستان کو شکست دینے کے بعد ایک روتے بلکتے افغان کھلاڑی آفتاب عالم کو دلاسا دیا اور اپنی اسپورٹس مین اسپرٹ سے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہارجیت کھیل کا حصہ ہوتی ہے اس ہارجیت کو قومی غیرت و حمیت کی لڑائی نہیں بنانا چاہئے ابھی آفتاب عالم کے آنسو خشک نہیں ہوئے تھے کہ افغان کرکٹ ٹیم نے بھارتیوں کو رلادیا۔ بھارت کی ٹیم پاکستان کو شکست دینے کے بعد فتح کے نشے میں چور تھی اور افغانستان کو بھی کمزور سمجھ رہی تھی لیکن افغانستان نے بھارت کے ساتھ میچ برابر کیا تو کئی بھارتی ٹی وی چینلز پر ایسی آہ وبکا شروع ہوئی کہ اشرف غنی کے بھی ہوش ٹھکانے آ گئے۔ وہ بھارت جو افغانستان کے راستے سے وارداتوں کے ذریعہ پاکستان کو رلانے کی کوشش کرتا رہتا ہے اسے ایشیا کپ میں افغانستان نے رلا دیا۔ معذرت خواہ ہوں کہ کرکٹ پر بات کرتے کرتے سیاست بیچ میں آ رہی ہے لیکن کیا کریں ساری دنیا میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ پاکستان اور بھارت آپس میں کرکٹ میچ کھیل سکتے ہیں لیکن دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کی سائڈ لائنز پر ایک دوسرے سے ملاقات کیوں نہیں کر سکتے؟ہمارے پالیسی ساز یاد رکھیں کہ بھارتی آرمی چیف کی طرف سے پاکستان کو بار بار دی جانے والی دھمکیوں کا تعلق صرف رافائل اسکینڈل اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال سے نہیں بلکہ افغانستان سے بھی بنتا نظر آرہا ہے۔
افغانستان کے حالات میں تیزی کے ساتھ کچھ ایسی تبدیلیاں آ رہی ہیں جن کو واشنگٹن اور اسلام آباد سمجھنے سے قاصر نظر آ رہے ہیں۔ واشنگٹن کو افغانستان میں امن چاہئے وہ یہ امن اسلام آباد سے مانگ رہا ہے۔ اسلام آباد کے پاس دینے کو کچھ نہیں لیکن وہ صاف ناں بھی نہیں کرتا اور واشنگٹن کو طفل تسلیاں دے رہا ہے۔ یہ طفل تسلیاں آنے والے دنوں میں امریکہ کے رویے میں جارحیت پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہیں اور پھر واشنگٹن کی خاموش اشیرباد سے بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف کوئی ایسا ایڈونچر کیا جا سکتا ہے جو نریندر مودی کی تمام سیاسی مشکلات کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے دو سال میں پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کیلئے ایسے ایسے اقدامات کر دکھائے جن کی توقع نہیں کی جا رہی تھی لیکن انہی غیر متوقع اقدامات نے افغان طالبان پر پاکستان کا اثرورسوخ کم کر دیا۔ پاکستان نے افغان طالبان کی قیادت اور ان کے خاندانوں سے گزارش کی کہ وہ پاکستان میں بیٹھ کر افغانستان میں مداخلت نہ کریں یا پھر پاکستان چھوڑ دیں۔ افغان طالبان کی قیادت پہلے ہی ناراض تھی وہ مزید ناراض ہوگئی۔ اب وہ پاکستان کی بجائے ایران کے زیادہ قریب ہیں کیونکہ دونوں کے مشترکہ دشمن داعش کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ اسے امریکہ کی غیرعلانیہ مدد حاصل ہے۔ کچھ عرصہ قبل شمالی افغانستان کے صوبہ جوزجان میں طالبان اور داعش کے درمیان شدید جنگ ہوئی۔ افغان طالبان کا دعویٰ ہے کہ اس جنگ کے دوران امریکی فضائیہ داعش کو بچانے کیلئے طالبان پر بمباری کرتی رہی اور جب داعش کا ایک مقامی کمانڈر مولوی حبیب اللہ طالبان کے گھیرے میں آیا تو اسے ہیلی کاپٹر بھیج کر بچالیا گیا اور بعد میں دعویٰ کیا گیا کہ اس نے کابل انتظامیہ کے سامنے سرنڈر کر دیا۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی کی حکومت نے لویہ جرگہ کے ذریعہ افغان طالبان کے خلاف فتویٰ صادر کرانے کے بعد علماء کی ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ملا محمد عمر کے ساتھی اور پاکستان میں طالبان حکومت کے سابق سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو بھی مدعو کیا گیا۔ کچھ علماء نے اس کانفرنس میں سرکاری موقف کے حامیوں کی اکثریت دیکھ کر بائیکاٹ کر دیا لیکن ملا عبدالسلام ضعیف نے اس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کانفرنس کے ایجنڈے پر تنقید کی۔ بعدازاں افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس علماء کانفرنس کی طرف سے جاری کئے گئے اعلان کو مسترد کر دیا۔ ایسی ہی ایک کانفرنس انڈونیشیا اور پھر سعودی عرب میں بھی کرائی گئی۔ افغان طالبان نے ان کانفرنسوں کے اعلامیے کو بھی مسترد کر دیا۔ افغان طالبان سعودی عرب کے علماء کی بات نہیں سن رہے تو وہ پاکستان کے نئے وزیراعظم عمران خان کی بات کیسے سن سکتے ہیں؟ عمران خان نے افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دینے کی حمایت کرکے افغانیوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن انہوں نے اپنے لئے کچھ مسائل بھی کھڑے کر لئے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے کچھ اتحادیوں کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ عمران خان کو پتاہونا چاہئے کہ صرف پاکستان اور سعودی عرب مل کر افغان طالبان سے کوئی بات نہیں منوا سکتے۔ ایران کو بھی اس معاملے میں شامل کرنا پڑے گا۔ یہ ایک مشکل راستہ ہے لیکن اگر افغانستان میں بھارت کی مشکوک سرگرمیوں کو ختم کرنا ہے تو یہ ایران کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں چین اور ترکی کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اگر سعودی عرب اور ایران مل کر افغانستان میں قیام امن کیلئے کوششوں کا آغاز کریں گے تو اس کے اثرات پورے مشرق وسطیٰ پر مرتب ہونگے۔ اب خود ہی سوچیں اور اپنے دل سے پوچھیں کہ سعودی عرب اور ایران میں مفاہمت کے راستے کی رکاوٹ کون بنے گا؟مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں اپنے خلاف ہونے و الی سازشوں کی سب خبر ہے لیکن ہم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بے خبری کا ڈھونگ رچائے بیٹھے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ایسی لڑائیوں میں مصروف ہیں جن کا نقصان صرف اور صرف ہمیں ہے۔ کیا عمران خان آپس کی ان لڑائیوں کو چھوڑ کر پاکستان کے خلاف جاری سازشوں کے خلاف قوم کو متحد کرنے کی کوئی کوشش کریں گے؟بھارتی آرمی چیف آئے دن ہمیں دھمکیاں دے رہا ہے اور ہم ایک دوسرے کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ کیا ہمیں اپنے انجام کی خبر ہے؟