وہ پچھلے چار سال سے غائب ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ زندہ ہے یا نہیں۔ اس کی بیوی سے کہا جاتا ہے کہ اپنے خاوند کو بھول جائو لیکن یہ بیوی اپنے خاوند کو بھولنے کیلئے تیار نہیں۔ وہ کہہ رہی تھی کہ جب تک میں زندہ ہوں خاموش نہیں رہوں گی، میں آپ کو یاد دلاتی رہوں گی کہ میرا خاوند چار سال سے لاپتہ ہے اسے مت بھولنا۔ اپنے خاوند کی گمشدگی پر احتجاج کرنے والی اس بہادر عورت کا نام شوئی نِگ ہے۔ اس کے خاوند سومباتھ سوم فون کو 2012ء میں لائوس میں مقامی پولیس نے اپنی چیک پوسٹ پر روکا اور گرفتار کر لیا۔ سومباتھ کی گرفتاری کی ویڈیو فلم موجود ہے لیکن لائوس کی حکومت یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ سومباتھ سرکاری حراست میں ہے۔
29 ستمبر کو بلجیم کے شہر گینٹ میں ایشیا یورپ پیپلز فورم کے 12 ویں اجلاس میں 44 ممالک کے ساڑھے تین سو سےزائد مندوبین کے سامنے شوئی نِگ اپنی ریاست کے جھوٹ کا پردہ چاک کر رہی تھی تو مجھے ایسے لگا کہ یہ کہانی میں پہلے بھی کئی بار سن چکا ہوں۔ ایسی ہی ایک کہانی 2003ء میں مجھے عمران خان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جبری گمشدگی کے بارے میں سنائی تھی اور پاکستان کے ریاستی ادارے کئی سال تک عافیہ صدیقی کی گرفتاری سے انکار کرتے رہے۔ اس سے ملتی جلتی کہانی میں نے آمنہ مسعود جنجوعہ کی زبانی بھی سنی جن کے خاوند مسعود جنجوعہ کو 2005ء میں جبری غائب کیا گیا۔
میری آنکھوں کے سامنے اختر مینگل کا چہرہ بھی گھوم رہا تھا کہ جن کی پارٹی بی این پی نے حال ہی میں تحریک انصاف کے ساتھ ایک چھ نکاتی معاہدے پر دستخط کرکے عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دیا۔ ان چھ نکات میں سب سے پہلا نکتہ جبری طور پر گمشدہ افراد کی واپسی سے متعلق تھا۔ بی این پی کی طرف سے حکومت کو جن گمشدہ افراد کی فہرست دی گئی ان میں سے دو سو کے قریب افراد خاموشی سے اپنے گھروں کو واپس آ چکے ہیں لیکن اختر مینگل کہتے ہیں کہ پچھلے چند ہفتوں میں بلوچستان سے مزید پچاس لوگ غائب ہو چکے ہیں۔ ان سب کی کہانیاں سومباتھ کی کہانی سے ملتی جلتی ہیں۔ سومباتھ کوئی سیاسی کارکن نہیں تھا بلکہ ایک سماجی کارکن تھا اور اس نے ایشیا یورپ پیپلز فورم کے ساتھ مل کر 2012ء میں لائوس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ یہ فورم ایشیا اور یورپ کی ترقی پسند سیاسی و سماجی کارکنوں کی آواز ہے۔ ترقی پسندوں کی طرف سے لائوس کی کمیونسٹ حکومت پر تنقید برداشت نہ کی گئی اور سومباتھ کو غائب کر دیا گیا۔ سومباتھ کی اہلیہ شوئی نِگ کی گفتگو سننے والے حاضرین میں میرے علاوہ سینیٹرمشاہد حسین سید بھی تھے جنہیں فاروق طارق نے اے ای پی ایف کی اس کانفرنس میں مدعو کرکے بین الاقوامی باغیوں کی فہرست میں شامل کرا دیا تھا۔ شوئی نِگ کی تقریر کے دوران بار بار تالیاں بجانے والوں میں شہلا رشید بھی نمایاں تھی۔ اب ذرا شہلا کے بارے میں بھی سن لیجئے۔
شہلا رشید کا تعلق سرینگر سے ہے وہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی کی اسٹوڈنٹس یونین کی سابقہ نائب صدر ہے اور آج کل پی ایچ ڈی کر رہی ہے۔ اے ای پی ایف کی اس کانفرنس میں اس نے بڑے فخر سے اپنا تعارف ایک ایسی کشمیری مسلمان عورت کے طور پر کرایا جسے بی جے پی کے حامیوں نے غدار قرار دیا کیونکہ شہلا نے کشمیری حریت پسند افضل گرو کی پھانسی کے خلاف اپنی یونیورسٹی میں احتجاجی مظاہرے منظم کئے تھے۔ شہلا نے اس کانفرنس میں صاف صاف کہا کہ افضل گرو پر دہشت گردی کا کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا تھا افضل گرو کو پھانسی پر لٹکانا سراسر ناانصافی تھی لہٰذا ہم نے ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ لائوس کے سماجی کارکن سومباتھ کی جبری گمشدگی کی کہانی شہلا رشید کیلئے بھی نئی نہیں تھی کیونکہ کشمیر میں ایسی ایک نہیں ہزاروں کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ جبشوئی نِگ اپنے خاوند کے بارے میں گفتگو کر رہی تھی تو کانفرنس کے اسٹیج پر ایک کرسی خالی رکھی گئی تھی۔ یہ خالی کرسی ہمیں سومباتھ کی یاد دلا رہی تھی۔ شوئی نِگ نے خالی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ آج اس کرسی پر موجود نہیں لیکن آپ کو اسے یاد رکھنا ہے اور دنیا کو بتانا ہے کہ سومباتھ جیسے لوگوں کو اکثر اوقات ریاست اغواء کرتی ہے کیونکہ کسی کو طویل عرصہ تک غائب رکھنا صرف ریاست کے بس کا کام ہے۔ اپنے لوگوں کو غائب کرکے ریاست اپنی طاقت کا نہیں بلکہ کمزوری کا اعتراف کرتی ہے کیونکہ جو ریاست عدالت میں کسی کا جرم ثابت نہ کر سکے وہ نااہل ہوتی ہے اور نااہل لوگوں کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا بہت شوق ہوتا ہے کیونکہ وہ اندر سے عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں۔ شوئی نِگ نے اپنی تقریر ختم کی تو گینٹ یونیورسٹی کے کنونشن سنٹر میں موجود سینکڑوں شرکاء نے کئی منٹ تک کھڑے ہو کر ان کیلئے تالیاں بجائیں۔
تقریر ختم کرکے شوئی نِگ میرے پاس آئیں اور پوچھا کہ کیا تم آمنہ مسعود جنجوعہ کو جانتے ہو؟میں نے جواب میں کہا کہ آپ کی تقریر سنتے ہوئےمیں آمنہ مسعود جنجوعہ کو یاد کر رہا تھا ہم اپنی اس مظلوم بہن کی کہانی کئی سال سے بار بار سنتے ہیں لیکن اسے انصاف نہیں دلاسکتے۔ شوئی نِگ نے بڑے فخر سے کہا کہ میں آمنہ کو مل چکی ہوں وہ میری بہن ہے اور میں جہاں بھی جاتی ہوں آمنہ کو ضرور یاد کرتی ہوں۔ شوئی نِگ نے بڑے پرعزم لہجے میں کہا کہ آمنہ میری طاقت ہے اور میں اسکی طاقت ہوں۔ کانفرنس کے ٹی بریک کے دوران مجھے پتہ چلا کہ فلپائن، کمبوڈیا، تھائی لینڈ اور شام سے لیکر ترکی تک سے آئے ہوئے اکثر مندوبین آمنہ مسعود جنجوعہ کے نام سے واقف تھے۔ پاکستانی ریاست کو سوچنا چاہئے کہ آمنہ مسعود جنجوعہ کی یہ مقبولیت ریاست کی عزت میں اضافہ ہے یا کمی ؟پاکستان کی عدلیہ کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ جس ملک میں جبری گمشدگیوں کے واقعات مسلسل جاری رہیں وہاں قانون کی بالادستی قائم کرنے کے دعوئوں پر کون یقین کرے گا؟
سومباتھ کی جبری گمشدگی پر ایک ڈاکومنٹری فلم بنائی جا چکی ہے جس کو چند ماہ قبل بھارت کے شہر پونا میں بہترین ڈاکومنٹری فلم کا ایوارڈ مل چکا ہے۔ اے ای پی ایف کی اس کانفرنس میں انسانی حقوق کی ایک عالمی تنظیم کے نمائندے نے میری ملاقات ایک برطانوی خاتون سے کرائی جو بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور پاکستان میں جبری گمشدگیوں پر دستاویزی فلم بنانا چاہتی ہے۔ اس خاتون نے مجھے پوچھا کہ اس معاملے پر پاکستان میں آمنہ مسعود جنجوعہ کے علاوہ کسی سے انٹرویو کرنا چاہئے ؟
میں نے فوراً ڈاکٹر شیریں مزاری کا نام لیا اور بتایا کہ وہ انسانی حقوق کی وزیر ہیں اور انہوں نے حال ہی میں آمنہ مسعود جنجوعہ سے وعدہ کیا ہے کہ جبری گمشدگیوں کو روکنے کیلئے باقاعدہ قانون سازی کی جائے گی۔ اس خاتون نے مجھ سے ڈاکٹر شیریں مزاری کا فون نمبر مانگا۔ میں نے نمبر دے دیا پھر اس نے ایک لمبی آہ بھر کر کہا شاید مجھے پاکستان کا ویزہ نہ ملے۔ میں کچھ دیر خاموش رہا اور پھر بولا آپ کو ویزہ ملے یا نہ ملے لیکن ڈاکٹر شیریں مزاری کو اب یہ مسئلہ حل کرنا ہے کیونکہ آمنہ مسعود جنجوعہ جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک عالمی آواز بن چکی ہے اور وہ اپنے خاوند سمیت کسی گمشدہ کو کبھی نہ بھولے گی۔