برٹش لائبریری لندن میں تقسیم ہند کے متعلق اصل حقائق کا وہ خزانہ موجود ہے جو ہمیں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کی نصابی کتب میں نہیں ملتا۔ یہ ناچیز کئی سال سے برٹش لائبریری کا ممبر ہے اور جب بھی لندن جانا ہو تو پہلی فرصت میں برٹش لائبریری کے انڈیا آفس ریکارڈز سیکشن میں جا بیٹھتا ہوں کیونکہ تلاش کرنے پر یہاں بہت کچھ مل جاتا ہے۔ کچھ دن پہلے برٹش لائبریری جانے کا موقع ملا تو ٹرانسفر آف پاور کے عنوان سے مرتب کی گئی دستاویزات میں مجھے متحدہ ہندوستان کے سابق وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن کے کچھ خفیہ خطوط نے متوجہ کیا۔ ایک خط خفیہ نہیں تھا۔ یہ 12 جولائی 1947ء کو مہاتما گاندھی کو لکھا گیا تھا اور انہیں کہا گیا تھا کہ آپ کشمیر جانے کی زحمت نہ کریں کیونکہ مہاراجہ ہری سنگھ نے مسلم لیگی قیادت کو بھی وہاں آنے سے روک دیا ہے اگر آپ مہاراجہ کو کوئی پیغام بھجوانا چاہتے ہیں تو میرے ذریعہ بھجوا سکتے ہیں۔ کچھ دن بعد مائونٹ بیٹن نے سرینگر میں اپنے نمائندے کو ایک خفیہ ٹیلی گرام بھیجا۔ 28 جولائی 1947ء کو بھجوائے جانے والے خفیہ ٹیلی گرام میں پیغام دیا گیا کہ ریاست جموں و کشمیر کے وزیراعظم رام چندرا کاک کو بتایا جائے کہ میں گاندھی یا نہرو کوکشمیر بھیج رہا ہوں جو بھی آئے اس کی مہاراجہ سے ملاقات کرا دی جائے۔ یہ خفیہ ٹیلی گرام پڑھ کر میرے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ مائونٹ بیٹن نے قائداعظمؒ کو سرینگر نہیں جانے دیا لیکن کانگریسی قیادت کو وہاں کیوں بھجوایا؟ یکم اگست 1947ء کو گاندھی سرینگر پہنچے اور انہوں نے مہاراجہ ہری سنگھ پر دبائو ڈالا کہ وہ بھارت سے الحاق کا اعلان کریں۔ وزیراعظم رام چندرا کاک الحاق کی بجائے ریاست جموں و کشمیر کو خودمختار رکھنے کا حامی تھا اس کا خیال تھا کہ مسلم اکثریتی ریاست کے بھارت سے الحاق کے نتیجے میں فسادات شروع ہوسکتے ہیں۔ چند ہی دنوں میں مہاراجہ نے اپنے وزیراعظم کو برطرف کردیا اور اس کی جگہ مہر چند مہاجن کووزیراعظم مقرر کیا۔ اس نے آتے ہی ریاست کا چیف سیکرٹری، آئی جی اور ڈوگرہ فوج کا سربراہ تبدیل کردیا اورآر ایس ایس کی کھلم کھلا سرپرستی شروع کردی اور پھر وہ سب ہوا جس کا خدشہ رام چندرا کاک نے ظاہر کیا تھا۔ مائونٹ بیٹن، گاندھی اور مہاراجہ ہری سنگھ کی ملی بھگت سے جموں میں مسلمانوں کے ساتھ وہ کچھ ہوا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
برٹش لائبریری لندن میں موجود تاریخی دستاویزات یہ بتاتی ہیں کہ اکتوبر 1947ء میں ریاست جموں و کشمیر پر پختونخوا قبائلیوں کے حملے کی دو تین بڑی وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ سرہند شریف میں حضرت مجدد الف ثانیؒ کی درگاہ کی بے حرمتی کی گئی اور گیارہ اکتوبر 1947ء کو کابل میں برطانوی سفارتخانے کے ملٹری اتاشی نے لندن کو اطلاع دی کہ حضرت صاحب شور بازار کے صاحبزادے نے غزنی اور لوگر کا دورہ کیا ہے اور سرہند شریف میں درگاہ کی بے حرمتی کے خلاف ہندوئوں اور سکھوں کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ پونچھ کے علاقے میں سدھن قبیلے کے ریٹائرڈ فوجی افسران نے ڈوگرہ حکومت کے خلاف بغاوت کردی۔ ان سدھنوں کے سدوزئیوں سے روابط تھے کیونکہ دونوں پٹھان ہیں۔ ریاست کے نئے وزیراعظم مہرچند مہاجن نے جموں کے علاقے میں مسلمانوں کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا اور آر ایس ایس کے تربیت یافتہ جنگجوئوں کو فوج کی وردیاں فراہم کیں۔ انہوں نے مسلمان پولیس افسروں کو قتل کرنا شروع کیا جس کے بعد فسادات شروع ہوئے اور پھر ردعمل میں قبائلی لشکر نے کشمیر پر حملہ کیا۔
آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار محمد ابراہیم خان نے اپنی کتاب "دی کشمیر ساگا" میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کے قتل عام کا منصوبہ جولائی 1947ء میں بنا لیا گیا تھا۔ پونچھ اور گلگت بلتستان میں بغاوت کے بعد آر ایس ایس کو وردیاں اور اسلحہ دیکر مسلمانوں پر چھوڑ دیا گیا۔ آر ایس ایس نے ڈوگرہ فوج کے ساتھ مل کر 20 اکتوبر 1947ء سے 6 نومبر 1947ء کے دوران جموں میں سوا دو لاکھ سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا اور ان مسلمانوں کی یاد میں 6 نومبر کو یوم شہدائے جموں منایا جاتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مشرقی پنجاب سے آنے والے مہاجرین پر بھی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے لیکن جو کچھ جموں کے مسلمانوں اور ان کی عورتوں کےساتھ ہوا اسے انسانی عقل تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتی۔ میں گڑے مردے اکھاڑنے پر یقین نہیں رکھتا لیکن نئی نسل کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ہمارا پاکستان اللہ کی ایک نعمت ہے اور اس پاکستان کو حاصل کرنے کیلئے ہمارے بزرگ نہ صرف کٹ مرے بلکہ ہماری عورتوں نے اپنی عصمتیں بھی قربان کیں۔ آج کے پاکستان میں جب ہم ایک دوسرے کا خون بہاتے ہیں اور ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں تو ہمیں ان شہدا کو نہیں بھولنا چاہئے جنہوں نے اپنی آئندہ نسلوں کیلئے سب کچھ قربان کردیا۔
آزاد کشمیر کے ایک سابق جج محمد یوسف صراف نے "کشمیریز فائٹ فارفریڈم" کے نام سے دو جلدوں میں تحریک آزادی کشمیر کی داستان قلم بند کی۔ اس کی جلد دوم میں انہوں نے جموں میں ہونے والے ظلم و ستم کے واقعات عینی شاہدوں کی زبانی بیان کئے ہیں۔ انہوں نے عطا محمد نامی مستری کی کہانی لکھی ہے جو جموں کے محلہ مست گڑھ کا رہائشی تھا۔ عید کا دن آیا تو عطا محمد کو یقین ہوگیا کہ ہندو بلوائی اس کی تین بیٹیوں کو اغوا کر کے ان کی آبروریزی کریں گے۔ اس نے اپنی تین بیٹیوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کردیا تاکہ ان کی عزت بچ جائے۔ یہ منظر دیکھ کر ان تینوں بہنوں کے چھوٹے سے بھائی نے اپنی بہنوں کے خون سے گھر کی دیوار پر یہ نعرہ لکھ ڈالا "پاکستان زندہ باد"۔ یوسف صراف نے لکھا ہے کہ جموں، کٹھوعہ، اودھم پور اور ریاسی کے علاقوں میں دو لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور 25 ہزار سے زائد مسلمان عورتوں کواغوا کیا گیا۔ اغوا شدہ عورتوں کو ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا جو مان جاتی اسے زندہ رہنے دیا جاتا جو نہ مانتی قتل کردی جاتی۔ مسلمان عورتوں کو مختلف قید خانوں میں رکھا جاتا اور بعض جگہ پر انہیں ان کے عزیزوں کا گوشت پکا کر دیا جاتا اور کہا جاتا اس انسانی گوشت کو چاولوں کے ساتھ کھائو۔ جموں میں ہونے والے اس "ہولو کاسٹ" کے ایک عینی شاہد امان اللہ خان نے 30 برس تک اسلام آباد کے امریکی سفارتخانے میں کام کیا۔ انہوں نے "ٹائٹ روپ واک" کے نام سے شائع ہونے والی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ کس طرح 5 نومبر 1947ء کو جموں کے مسلمانوں کو پولیس لائنز میں جمع کیا گیا اور بہت سی لاریوں میں بٹھا کر سیالکوٹ کی طرف روانہ کیا گیا اور پھر راستے میں تلوار بردار ہندوئوں نے حملہ کردیا۔ جب ایک ہندو امان صاحب پر حملہ کرنے لگا تو ان کی ماں نے کہا امان بھاگ جائو۔ وہ اپنی ماں کو اکیلا چھوڑنے کیلئے تیار نہ تھے آخرکار ماں نے بیٹے کو قریب ایک نہر میں دھکا دیدیا۔ نہر میں موجود ایک اور عورت سات سالہ امان کو دوسرے کنار ے پر لے گئی۔ دوسرے کنارے پر پہنچ کر امان نے اپنی ماں کو تلاش کیا تو وہ خون میں نہائی نظر آئی لیکن امان کو اپنی جان بچانے کیلئے دوسروں کے ساتھ بھاگنا پڑا اور پھر انہوں نے اپنی ماں اور چار بہنوں کو کبھی نہیں دیکھا۔
کشمیر ٹائمز سرینگرکے ایڈیٹر وید بھسین بھی جموں کے قتل عام کے عینی شاہد تھے۔ انہوں نے کئی بار لکھا کہ یہ قتل عام مہاراجہ ہری سنگھ کی نگرانی میں ہوا اورپھر ردعمل میں مسلمانوں نے میرپور اور راجوڑی کے علاقوں میں ہندوئوں کو قتل کیا۔ جموں و کشمیر کے مسلمان کل بھی قربانیاں دے رہے تھے اور آج بھی قربانیاں دے رہے ہیں لیکن انہیں کل بھی آر ایس ایس اور اس کے باوردی سرپرست مار رہے تھے آج بھی آر ایس ایس کا نظریہ رکھنے والے کشمیری مسلمانوں پر ظلم کررہے ہیں لیکن ہم پاکستانی ایک دوسرے سے اتنی نفرت کیوں کرنے لگے ہیں؟ چھ نومبر کو یوم شہدائے جموں پر ہمارے کئی بڑے بڑے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی میں مصروف رہے۔ چھ نومبر کوقومی اسمبلی کے اجلاس میں کسی کوجموں کا عطا محمد یاد نہ آیا جس کے بیٹے نے اپنی بہنوں کے لہو سے گھر کی دیوار پر پاکستان زندہ باد لکھا تھا۔