ریلوے ہیڈکوارٹر کے کانفرنس روم کا ماحول اچانک ٹینس ہو گیا،ریلوے کے وفاقی وزیر شیخ رشید سگار پی پی کرسینئر افسروں کے ساتھ میٹنگ کر رہے تھے، سی پیک کے کوآرڈی نیٹر اشفاق خٹک پریذنٹیشن دے رہے تھے، اشفاق خٹک ہارورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اور یہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے ہیں، پروفیسر ہیں، ان کا کہنا تھا "ریلوے میں پچھلے پانچ برسوں میں بے تحاشہ کام ہوا، آمدنی 18 ارب روپے سے 55 ارب روپے ہوگئی، کارگو ٹرینیں بند تھیں، یہ اب شروع ہو چکی ہیں اور 25 بند روٹس بھی کھل چکے ہیں، خواجہ سعد رفیق نے بہت کام کیا، آن لائین ٹکٹنگ شروع کی، ریلوے کی تمام زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا اور ٹرین کی رفتار 80 کلو میٹر فی گھنٹہ سے بڑھا کر 120 کلومیٹر کر دی وغیرہ وغیرہ" شیخ رشید اس دوران بے چینی سے کروٹیں لیتے اور سگار پیتے رہے، یہ پریذنٹیشن کے دوران اچانک دھاڑ کر بولے" خٹک صاحب آپ مجھے یہ رضیہ بٹ کے ناول نہ سنائیں، کام کی بات کریں" میٹنگ میں سینئر افسر شامل تھے، وہ سب شیخ رشید کے لہجے پر حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے، شیخ رشید اس کے بعد دھاڑتے چلے گئے،یہ شیخ رشید کے غصے کا دوسرا دن تھا،یہ پہلے دن بھی افسروں کو لتاڑتے رہے اوردوسرے دن بھی ان کی جی بھر کر بے عزتی کرتے رہے لیکن جب انہوں نے اشفاق خٹک کی بے عزتی کی تو صورتحال ناقابل برداشت ہو گئی اور چیف کمرشل منیجر محمد حنیف گل بول پڑے"شیخ صاحب آپ کو سینئر سول سرونٹس کے ساتھ اس لہجے میں بات نہیں کرنی چاہیے" شیخ رشید کے غصے میں اضافہ ہوگیا، انہوں نے محمد حنیف گل کو شٹ اپ کہہ دیا، حنیف گل نے بھی جواب میں شیخ رشید کو شٹ اپ کہہ دیا، شیخ رشید نے غصے میں اپنا سگار پھینک دیا اور دھاڑ کر کہا" خبردار اگر کسی نے میرے سامنے سعد رفیق کا نام لیا" وہ اس کے بعد حنیف گل کی طرف مڑے اور بولے "آپ دفع ہو جائیں، مجھےآپ جیسے لوگوں کی ضرورت نہیں" حنیف گل بھی سیدھے ہو گئے، انہوں نے شیخ رشید کو کھری کھری سنادیں،وہ باہر آئے اور دو سال کی چھٹی کی درخواست دے دی، حنیف گل نے اپنی درخواست میں لکھا "نئے وزیر کا رویہ انتہائی غیر پیشہ وارانہ اور بدتمیزانہ ہے، میں باعزت سول سروس کا ممبر ہوں، میرے لئے ان کے زیر سایہ کام ممکن نہیں، وفاقی وزیر اپنے وژن کے مطابق نئی ٹیم بنا لیں اور مجھے 730 دنوں کی چھٹی عنایت کر دیں" یہ درخواست کل سے سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا تینوں پر گردش کر رہی ہے۔
محمد حنیف گل ریلوے کے سینئر افسر ہیں، پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، یونیورسٹی آف برمنگھم سے ریلوے سسٹم انجینئرنگ میں ماسٹر کیا،2000ء میں سی ایس ایس کیا اور امریکا کے نمبرون تعلیمی ادارے میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے اربن اینڈ ریجنل پلاننگ میں ڈگری حاصل کی، یہ ہوبرٹ ہمفری فیلو بھی ہیں، 18 برسوں سے ریلوے کے ساتھ وابستہ ہیں، 20 ویں گریڈ میں ہیں، یہ بلوچستان اور کے پی کے میں ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ بھی رہ چکے ہیں، حنیف گل نے کوئٹہ ماس ٹرانزٹ کی منصوبہ بندی کی ، یہ منصوبہ سی پیک میں شامل ہے، انہوں نے کے پی کے حکومت کو گریٹر پشاور ماس ٹرانزٹ کا پراجیکٹ بھی بنا کر دیا، یہ ان پڑھ ماں باپ کے بیٹے ہیں، پورے علاقے میں یہ اور ان کی بہن پہلے سی ایس پی افسر ہیں، اچھی شہرت کے حامل ہیں اور ایماندار بھی ہیں، شیخ رشید کا ایسے انسان کے ساتھ رویہ نامناسب بھی تھا اور غیر شائستہ بھی، سول سرونٹس ریاست کے ملازم ہوتے ہیں، یہ کسی کے ذاتی غلام نہیں ہیں لہٰذا کسی شخص کو انہیں برا بھلا کہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اس میں کوئی شک نہیں شیخ رشید راولپنڈی سے ایک لاکھ 19 ہزارووٹ لے کر عمران خان کے اتحادی بنے اور عمران خان نے انہیں ریلوے کا وزیر بنا دیالیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے یہ اب جس کو بھی چاہیں گے اسے بھری محفل میں شٹ اپ کہہ دیں گے؟یہ محکمے میں پرانے وزراءکا نام لینے پر پابندی لگا دیں گے! کیا یہ وہ نیا پاکستان تھا جس کا خواب 22 سال قوم کو دیکھتی رہی اور کیا یہ وہ تبدیلی تھی جو آ نہیں رہی تھی بلکہ آ چکی ہے؟ میں خواجہ سعد رفیق کا ناقد ہوں، اس کی وجہ ان کا تکبر ہے تاہم ذاتی پسند یا ناپسند ایک طرف لیکن یہ حقیقت ہے خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کی بہتری کےلئے بے تحاشہ کام کیا، ریلوے ڈوبی ہوئی کشتی تھی، خواجہ سعد رفیق نہ صرف اسے سطح آب پر لے آئے بلکہ اسے چلا کر بھی دکھایا چنانچہ خواجہ سعد رفیق کے نام پر پابندی لگانا زیادتی ہے، اتنی تنگ نظری تو پرانے پاکستان میں بھی نہیں تھی، مجھے اچھی طرح یاد ہے 2008ء سے 2013ء تک حاجی غلام احمد بلور ریلوے کے وفاقی وزیر رہے، وہ اپنے دور میں نہ صرف شیخ رشید کے کاموں کی تعریف کرتے تھے بلکہ وہ مشوروں کےلئے ان سے رابطہ بھی کرتے تھے، میں ذاتی طور پر گواہ ہوں خواجہ سعد رفیق بھی حاجی غلام احمد بلور سے رہنمائی لیتے تھے، یہ بڑے فیصلے کرنے سے پہلے حاجی صاحب سے پوچھتے تھے آپ کے دور میں یہ فائل موو ہوئی تھی لیکن آپ نے فیصلہ نہیں کیاتھا، کیا وجہ تھی اور حاجی صاحب انہیں باقاعدہ وجوہات بتاتے تھے، ملک میں بے شمار سیاسی جماعتیں ہیں، یہ جماعتیں ایک دوسرے کی مخالف بھی ہیں، یہ مختلف ادوار میں برسر اقتدار بھی رہیں اور یہ مختلف منصوبوں میں ناکام بھی ہوئیں مگر اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں یہ لوگ خدانخواستہ پاکستان کے خلاف تھے یا یہ ملک دشمن تھے، ملک میں رہنے والے تمام لوگ محب وطن تھے، یہ محب وطن ہیں اور یہ محب وطن رہیں گے چنانچہ شیخ رشید کسی کے نام پر پابندی لگانے والے کون ہوتے ہیں؟ دنیا جانتی ہے شیخ رشید ماضی میں عمران خان کو کیا کہتے تھے اور عمران خان انہیں کس نام سے یاد کرتے تھے، وہ سنہری خیالات آج بھی ویڈیو ٹیپس کے حافظے میں محفوظ ہیں چنانچہ اس کرہ ارض پر اگر عمران خان اور شیخ رشید ایک دوسرے کے پارٹنر بن سکتے ہیں تو پھر دنیا میں کوئی چیزناممکن نہیں، پھر اس کرہ ارض پر کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اس کچھ میں خواجہ سعد رفیق کی واپسی بھی شامل ہے اور اگر خواجہ سعد رفیق واپس آئے اور انہوں نے اپنے دور میں شیخ رشید کے نام پر پابندی لگائی تو میں اس پر بھی اسی طرح احتجاج کروں گا۔
ہم اب اس طرف آتے ہیں شیخ رشید نے ایسا کیوں کیا؟ میرے خیال میں اس کی تین وجوہات ہیں، پہلی وجہ وزارت کا گیپ ہے، شیخ صاحب دس سال کے وقفے کے بعد وزیر بنے ہیں، یہ دس سال ٹیکنالوجی میں سو سال کے برابر ہیں، ان دس برسوں میں سوشل میڈیا جیسا انقلاب بھی ہماری زندگی کا حصہ بنا اور دنیا میں گورننس اور مینجمنٹ کا تصور بھی تبدیل ہو گیا، آج دنیا میں وزیراعظم اور کلرک دونوں فیس بک اور ٹویٹر پر ہیں اور یہ دونوں برابر ہو چکے ہیں، دنیا نے ان دس برسوں میں عزت کو بھی حقیقت مان لیا ، لوگ اب بے عزتی کرتے ہیں اور نہ کراتے ہیں، شیخ رشید اس تبدیلی سے واقف نہیں تھے چنانچہ یہ دس سال پرانا گیئر لگا بیٹھے اور محمد حنیف گل ان کے سامنے کھڑے ہوگئے، دوسرا نئی حکومت کے دیگر وزراءکی طرح شیخ رشید بھی جلدی میں ہیں، یہ سو دنوں میں کوئی انقلاب برپا کر دینا چاہتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں یہ بیورو کریسی کو جتنا دبائیں گے یہ اتنا اچھا پرفارم کرے گی اور یہ اتنی جلدی اپنا ٹارگٹ اچیو کر لیں گے، یہ اپروچ شیخ رشید کے لہجے میں آ گئی اور یوں بدمزگی پیدا ہوگئی اور تیسری وجہ پچھلی حکومت ہے، ہم جتنا چاہیں انکار کر لیں لیکن یہ حقیقت ہے پچھلی حکومت نے کام کیا تھا اور یہ کام نئی حکومت کے آڑے آ رہا ہے، یہ لوگ نفسیاتی طور پر اس کام کے دباﺅ میں ہیں چنانچہ جب شیخ رشید نے عمران خان کے ووٹر حنیف گل کے منہ سے سعد رفیق کی تعریف سنی تو یہ برداشت نہ کر سکے۔
میری نئی حکومت سے درخواست ہے ہماری بیوروکریسی پہلے ہی زوال کا شکار ہے، ذہین، پڑھے لکھے اور کارآمد افسروں کی اکثریت چھٹیاں لے کر پرائیویٹ اداروں اور بیرون ملک بیٹھی ہے، پرائیویٹ ادارے انہیں دس دس لاکھ روپے تنخواہیں بھی دیتے ہیں، سہولتیں بھی اور وہاں یہ کھچ کھچ اور بک بک بھی نہیں ہوتی چنانچہ بیوروکریسی میں محمد حنیف گل جیسے بہت کم لوگ بچے ہیں، ملک میں حکومت کوایک سیکرٹری کے بعد اس کے لیول کا سیکرٹری نہیں ملتا لہٰذا آپ اگر کام اور سسٹم چلانا چاہتے ہیں تو پھر آپ افسروں کو عزت دیں، آپ ان کی بات سننے کا حوصلہ پیدا کریں ورنہ دوسری صورت میں حنیف گل جیسے لوگ بھی چلے جائیں گے اور آپ اور ملک دونوں تباہ ہو جائیں گے، دوسری بات عمران خان اپنے وزراءکو کنٹرول کریں، آپ لوگوں کی امیدوں کے دیوتا ہیں، لوگ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی بدتمیزیاں برداشت کر جاتے تھے لیکن یہ آپ کے وزراءکی بدکلامی قبول نہیں کریں گے، لوگ داﺅد چوہان کی طرح کراچی کے ایم پی اے عمران شاہ اور حنیف گل کی طرح وزراءکے شٹ اپ کا جواب دینا شروع کر دیں گے اوراگر یہ سلسلہ چل پڑا تو ملک میں انارکی ہو جائے گی اور تیسری بات، میں دل سے سمجھتا ہوں عمران خان نیک نیت ہیں، یہ شاید کچھ کر بھی جائیں لیکن شیخ رشید جیسے وزراءانہیں بہت جلد کسی قابل نہیں چھوڑیں گے، یہ انہیں پرواز سے پہلے ہی زمین پر دے ماریں گے چنانچہ میراعمران خان کو مشورہ ہے یہ اپنے وزراءکو کنٹرول کریں ورنہ 22 سال کی عزت کورخصت ہوتے 22 دن نہیں لگیں گے۔
نوٹ: سوشل میڈیا پر "دوسرا قائداعظم" کے ٹائٹل سے ایک جعلی کالم گردش کر رہا ہے،یہ میرا کالم نہیں ہے، میں نے خواب اور وہم و گمان میں بھی ایسا کوئی کالم تحریر نہیں کیاتھا، یہ کالم جعلی اور نئے پاکستان کی تخلیق ہے لہٰذا قارئین مہربانی فرما کر میری حق گوئی کی تعریف کرنا بند کردیں۔