1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حیدر جاوید سید/
  4. شہر، دوست، کتابیں اور بیٹی

شہر، دوست، کتابیں اور بیٹی

ملتان میرا جنم شہر ہے، جنم شہر سب کی طرح مجھے بھی عزیز و محبوب ہے مگر خدا لگتی بات یہ ہے کہ کراچی میری پہلی محبت ہے۔ کراچی وہ شہر ہے جہاں میں 9 برس کی عمر میں گھر سے بھاگ کر پہنچا۔

اس شہر میں محنت مزدوری کی اور تعلیم حاصل کی۔ 1960ء کی دہائی کے ساتویں برس میں جب میں اپنی آپا اماں سیدہ فیروزہ خاتون نقویؒ کی انگلی تھامے کراچی ریلوے سٹیشن پر اترا تھا وہ دن اب بھی صبح و شام آنکھوں میں اترتا ہے۔

محمود آباد کراچی کی گلیوں میں لگ بھگ اڑھائی تین برس سپہر سے اذان مغربین تک خوانچہ گلے میں لٹکائے بچوں کی پسندیدہ کھانے والی اشیا فروخت کرتا رہا چھٹی جماعت پاس کی تو آپا اماں نے اپنی لائبریری پر بیٹھادیا۔

معروف معنوں میں "آنہ لائبریری"۔ کبھی ہر شہر میں گلی گلی تو نہیں لیکن محلہ محلہ یہ آنہ لائبریریاں ہوا کرتی تھی۔ کتابیں رسالے کرائے پر لے کر پڑھنے والے ان لائبریویوں سے استفادہ کرتے تھے۔ ان لائبریریوں پر زیادہ تر رومانی ناول، تاریخی کتب اور تاریخی رومانی ناول، و ڈائجسٹ وغیرہ کرائے پر ملا کرتے تھے۔

بچوں، خواتین اور مردوں کے ذوق مطالعہ کے مطابق رسالے اور کتابیں دستیاب ہوتی تھیں ہم نے جس برس آپا اماںؒ کی طرح لائبریری پر بیٹھنا شروع کیا تب بچوں کے رسالے کا کرایہ ایک آنہ، رسالوں اور ڈائجسٹوں کا کرایہ دو آنہ اور کتابوں کا کرایہ 4 آنہ روزانہ تھا۔ جاسوسی ناولوں کا کرایہ کتابوں کے روزانہ کرائے کے برابر ہوتا تھا۔

آپا اماںؒ کی لائبریری میں نسیم حجازی کے ناولوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ یاد پڑتا ہے کہ ایک بار (جماعت نہم کے دوران) کسی ہم جماعت سے نسیم حجازی کا ناول پڑھنے کے لئے لے آیا تھا اس پر خاصی جھاڑ پڑی اور پہلا و آخری طمانچہ بھی رسید کیا ہمارے رخسار پر۔ آپا بولیں "راجی میاں ہم آپ کو انسان بنانے کے لئے محنت کر رہے ہیں اور آپ ہیں کہ نگوڑے نسیم حجازی کو اٹھا لائے ہیں"۔

کراچی اور بچپن کا ذکر چھڑے تو بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے۔ کراچی بڑا غریب پرور شہر تھا شہر شہر گائوں گائوں سے روزگار کے لئے لوگ اس شہر میں آتے اور وہ بھی جو یہ جانتے تھے کہ کراچی میں تعلیمی اداروں کی تین تین شفٹیں ہوتی ہیں محنت مزدوری کرکے پڑھا جاسکتا ہے۔

ہم بھی اس شہر میں محنت مزدوری کرکے پڑھے کیا انسان نواز محبتی اور ممتا کے جذبات سے بھرا شہر تھا۔ یہ شہر ہماری پہلی محبت ہے اس شہر سے جدا ہوئے لگ بھگ 44 برس ہوگئے مگر یہ اب بھی دل میں بستا ہے خیر کی خبر ملے تو نہال ہوجاتا ہوں خبر بد ہو تو دکھی۔

ہمیشہ دعائے شب میں اپنے والدین آپا اماں کے ساتھ کراچی ملتان پشاور اور لاہور کے دوستوں کو یاد کرتا ہوں۔ بچھڑ جانے والوں کی بلندی درجات اور زندوں کی طویل عمری کے لئے دستِ دعا بلند کرتا ہوں۔

ملتان میری نس نس میں بسا ہے۔ ایک میں ہی نہیں بلکہ ملتان سے بچھڑے ہر ملتانی کی نس نس میں "ملتان کُل جہان" آباد ہے۔ اس شہر سے محبت کی ہزار وجوہات ہیں سب سے بڑی وجہ یہ شہر خود ہے جو گردش ایام کی چیرہ دستیوں حملہ آوروں کے بہائے خون اور لوٹ مار کے باوجود آب و تاب کے ساتھ زندہ و تابندہ ہے جوانی کے دنوں میں ہی نہیں چند برس پہلے تک میں اس شہر کے گلی کوچوں میں مٹر گشت کرتے ہوئے تاریخ سے راز و نیاز کیا کرتا تھا۔

اس شہر کے قبرستانوں میں پرکھوں کے ساتھ میرے والدین بھی دفن ہیں۔ ملتان جانا میرے لئے تو ایسا ہی ہے جیسے مکے مدینے جانا اس دلنواز محبوب شہر کی یادیں اب تک کے سفر حیات میں لحہ بھر کے لئے بھی نہیں جھٹک پایا۔ جب بھی اس دلنواز و محبوب جنم شہر کی تاریخ کے اوراق الٹتا ہوں ایک سرشاری اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔

ملتان، ملتانیوں، والدین، بہن بھائیوں دوستوں کے ساتھ اس کے گلی محلے بہت یاد آتے ہیں۔ دال مونگ، ڈولی روٹی، آلو بھیں چھولے اور آلو بھیں چاول نمکین پڑیاں توے پر بنا قیمہ توے والی مچھلی اور مٹی کے برتن میں بنے سری پائے و اوجڑی کے ذائقوں کا دائمی اسیر ہوں۔

اپنی امڑی حضورؒ کی تربت کے علاوہ مجھے حضرت شاہ شمس سبزواریؒ کی خانقاہ پر بہت سکون ملتا ہے یہ دونوں ایسے مقام ہیں جہاں جی بھر کے باتیں کرتا ہوں جواب پاتا ہوں پھر سے آنے کا وعدہ کرکے رخصت ہوتا ہوں۔

زندہ و تابندہ ملتانی دوستوں کے ساتھ مرحوم و مغفور دوست بہت یاد آتے ہیں۔ محمد سعدی خان لالہ عمر علی خان بلوچ عزیز نیازی ایڈووکیٹ حکیم محمود خان ایڈووکیٹ، مقبول انیس، لالہ سید زمان جعفری، راشد رحمن، نذر عباس بلوچ، صفدر رضا کھاکھی ایک طویل فہرست ہے ان پیاروں کی جنہوں نے اپنی اپنی فہم کے مطابق اپنے سفر حیات میں آزادی اظہار اور جمہوریت کے لئے جدوجہد کی۔

ملتان اور ملتانیوں کا ذکر چلے تو بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ کو کیسے بھولا جائے۔ لنگاہ صاحب تھے تو پرانے ضلع ملتان (اب لودھراں کی تحصیل کہروڑ پکا کے) لیکن طویل عرصہ انہوں نے ملتان میں وکالت کی سیاست بھی، اول اول پیپلزپارٹی میں تھے پھر خورشید حسن میر کے ہمراہ عوامی جمہوری پارٹی کی بنیاد رکھی۔

سرائیکی صوبے کے قیام کے لئے سیٹھ عبدالرحمن اور ریاض اختر ہاشمی مرحوم کے ساتھ مل کر سرائیکی صوبہ محاذ بنایا آگے چل کر انہوں نے پاکستان سرائیکی پارٹی کے نام سے سرائیکی قوم پرست جماعت بنائی یہ جماعت رواں برس دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔

منصور کریم سیال اب برسوں سے علیل ہیں سیاست و معاشرت سے الگ تھلگ اپنے گھر پر مقیم کبھی وہ ملتان کی سیاسی و سماجی تقریبات کا لازمی حصہ ہوا کرتے تھے۔

یہ جو ملتان سے محبت ہے ملتان ہی سے محبت ہے۔

مجھے کتابیں پسند ہیں لگ بھگ پانچ دہائیوں سے کتابوں سے دوستی ہے کبھی کبھی پڑھی ہوئی کتاب پر کالم بھی لکھتا ہوں تاکہ دوست احباب اور کالم کے قارئین کو مطالعے میں شریک کر سکوں کتابوں میں سب سے زیادہ سوانح عمریاں پسند ہیں۔ سوانح نگار کے ذریعے اس عہد کے ماہ و سال کی کھلی آنکھوں سے زیارت ہوجاتی ہے جس میں مصنف جیسا بسا ہوتا ہے۔

دوست پسند ہیں اور دوستوں کے معاملے میں خاصا کیا واقعی خوش قسمت ہوں دکھ سکھ سردوگرم اچھے برے حالات میں کاندھے سے کاندھا ملائے کھڑے رہنے والے دوست زندگی کا سرمایہ ہیں

دوسرے ملتانیوں کی طرح میں بھی محبتوں کا اسیر شخص ہوں ملتان سے محبت ہے کراچی سے بھی، کتابیں پسند ہیں اور دوست میں انہیں نعمتِ تمام سمجھتا ہوں۔

اپنی امڑی حضور، آپا اماںؒ اور بہنوں کے بعد مجھے سب سے عزیز و محبوب بیٹی ہے۔

بیٹیوں کا باپ ہونا میرے لئے تو باعث فخر ہے بیٹی صرف باپ کی زینت نہیں ہوتی میری بیٹی تو میری زینت ہے۔ فخر غرور تعارف اور میری وارث بھی اپنے باپ کی طرح محنت کش اور اپنی ذات کے فیصلے خود کرنے والی بیٹی۔

یہ تحریر لکھے جانے سے لگ بھگ 36گھنٹے قبل وہ (بیٹی) ماں باپ کے آنگن میں بارہ دن چہچہانے کے بعد واپس امریکہ روانہ ہوگئی جہاں وہ ملازمت کے ساتھ ہوسٹن یونیورسٹی سے ایم بی اے کررہی ہے۔

بارہ دن ہمارا گھر بیٹی کے نور سے جگمگ کرتا اور اس کی خوشبو سے مہکتا رہا۔ جی بابا، آئی بابا، پیاری ماماں، کہنے والی اب سال بھر کے بعد ماں باپ کے کلیجوں میں ٹھنڈ ڈالنے کے لئے آئے گی۔

آپ آج کے کالم کی بُنت پر حیران ہورہے ہوں گے۔ گرما گرم سیاسی ماحول میں ایک خالص ذاتی یادوں، احساسات، محبتوں اور تعلقوں کے ذکر سے عبارت کالم ہے۔

میرے کچھ دوست کہتے ہیں ہلکے پھلکے کالم لکھا کرو اپنے چار اور دیکھتا ہوں تو تعصب ہے، نفرت، اوئے توئے، گالم گلوچ کا دوردورہ ہے۔

ہم اسی ماحول میں جینے پر مجبور محض ہیں اپنے تئیں تبدیلی کے لئے ہم نے بھی حصہ ڈالا تھا ہائے مگر اس کا کیا کیجئے کہ ہمارے خواب تعبیروں سے پہلے چوری ہوگئے جو بچ رہے وہ آنکھوں میں ٹوٹ گئے۔

چند سطور مزید لکھنے کو جی مچل رہا ہے لیکن پرسوں سے پہلے دن ہمارے نٹ کھٹ دوست اور چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز وحید اشرف بھٹی ایڈووکیٹ نے وارننگ دی ہے آج کل وکیل تو ججوں سے نہیں سنبھالے جاتے ہم تو ایک عام شہری اور مزدور ہیں۔