1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. مشکوٰۃ فاطمہ/
  4. خان از عارف تبسم

خان از عارف تبسم

یہ کتاب خان عبدالصمد خان اچکزئی کی سوانح حیات "My life and Times"(جو 2022 میں انگریزی زبان میں شائع ہوئی) سے ماخوذ پہلا ناول ہے جسے عارف تبسم نے لکھا ہے۔ انگریزی کی سوانح حیات 700 صفحات پر مشتمل ہے۔ جبکہ مذکورہ ناول 300 صفحات میں لکھا گیا ہے اور دوسری جلد بھی جلد شائع ہونے کی توقع ہے۔ انگریزی میں سوانح حیات میں نے ہاسٹل کے زمانے میں ایک پشتون دوست کے توسط سے پڑھی لیکن پھر دوست کے چلے جانے سے مکمل نہ کر سکی تب سے ایک خلش تھی۔ رواں سال 7 جولائی خان شہید کے جنم دن کے موقع پر "پشتو ادبی ملگری جنوبی پشتونخواہ" نے اس کتاب کی اشاعت سے نہ صرف پشتون قوم کو بلکہ ہر مزاحمتی روح کو ایک تحفہ دیا ہے۔ اس حوالے سے مذکورہ کتاب کو چھپے ہوئے آج بارہ دن مکمل ہوئے۔

عارف تبسم صاحب بنیادی طور پر لورالائی سے تعلق رکھنے والے بہترین لکھاری اور شاعر ہیں۔ اپنی ابتدائی تعلیم بلوچستان سے حاصل کرنے کے بعد بلوچستان یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی ادبیات اور انٹرنیشنل ریلیشنز میں کر چکے ہیں۔ بعد ازاں مختلف غیر سرکاری اداروں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ شعر بنیادی طور پر پشتو میں لکھتے ہیں۔ نثر پر بھی مضبوط گرفت ہے۔ "خان" موصوف کی دسویں کتاب ہے۔ اِس سے پہلے تین پشتو شعری مجموعے، دو نثری مجموعے، دو کتابیں تراجم کی اور دو کتابیں بحثیت مرتب اردو اور پشتو میں چھاپ چکے ہیں۔

کتاب کے تجزیے کے حفظ و مراتب کا خیال رکھوں تو مجھے مصنف اور کتاب کے تعارف کے بعد خان شہید کا تعارف لکھنا چاہیے جو کتاب کی روحِ رواں ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ پشتون تاریخ کی روحِ رواں ہے تو کچھ غلط نا ہوگا۔ لیکن نہ جانے کیوں آج مزاج بغاوت پر اتر آیا ہے (شاید یہ بھی خان شہید کی مزاحمت کا سحر ہے) یقینا قارئین مجھے شخصیت پرستی کے زیر اثر بھی گردانیں لیکن میں پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ آپ بھی اس کا مطالعہ کریں گے تو خان شہید کا تاثر لیے بغیر رہ نہیں سکیں گے۔ ہر وہ شخص جو مزاحمت کی رمک بھی رکھتا ہے۔ تحریکوں کو بنانے اور چلانے کا فن سیکھنا چاہتا ہے۔ نظریے کے ساتھ بے لوث ہو کر چلنا چاہتا ہے۔ استقامت و استدلال کے ساتھ سیاسی مخالفتوں کے باوجود اپنے مقصد پہ عزمِ صمیم کے ساتھ قائم رہنا سیکھنا چاہتا ہے تو یہ کتاب بلاشبہ ایسے ہی سورماؤں کے لیے گنج ہائے گراں مایہ ہے۔

مصنف نے کتاب کو بہت سلیقے سے ابواب میں منقسم کیا ہے اور ہر باب اپنے اندر قاری کے لیے فہم و فراست کا سامان رکھتا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے یقیناً کوزۂ قاری خالی نا رہے گا۔ مصنف نے کتاب کو عام فہم اور دلکش بنانے کے سارے لوازمات پورے کیے ہیں جو یقیناً لکھاری کے قلم کی مضبوط گرفت کی دلیل ہے۔

افغان تاریخ سے لیکر پہلی اور دوسری انگریز افغان جنگوں کے بعد محمد یعقوب خان کا گندمک معاہدے میں کُرم، پشین اور سبی کو انگریزوں کو سونپ دینا اور پھر سنڈیمن کی مکاریوں اور مقامی سرداروں اور نوابوں کو لالچ دے کر تھل چٹیالی، ژوب اور لورالائی کی صورت میں گندمک معاہدے کی جبری توسیع کرنے تک قاری کو تاریخی حقائق سے بہرہ مند کرتا چلا جاتا ہے۔ پھر اِن علاقوں کو زبردستی برٹش بلوچستان بنا ڈالنے سے لیکر فرئنٹیر کرائمز ریگولیشن اور ایف سی آر کا نفاذ، انگریزوں کی ہندوستان سے واپسی کا سن افغانستان کی اپنے علاقوں کی واپسی کا مطالبہ اور ظاہر شاہ کا اس پہ انکار، انگلستان میں ہندوستان کے آئینی اصلاحات اور ترامیم کا سن خان کا کانفرنس میں جانے والے تمام وفود سے ملاقاتیں کرنا۔ اس سلسلے میں خان کی گاندھی، باچا خان بابا، نہرو، جناح، خان بیگم شہباز اور دیگر لوگوں سے ملاقاتیں کرنا (جن کا واحد مقصد لندن کانفرنس میں بلوچستان کے مسئلے کو بھی زیرِ بحث لانا تھا) تک قارئین کے اذہان میں مزاحمتی ورد اور جسموں میں مزاحمتی روح پھونک دیتا ہے۔

اُدھر خان شہید کی تحریک کو روکنے اور خان کی جماعت کے حوصلے پست کرنے کے لیے مسلم لیگ کی شاخ کا قیام، تقسیم کے بعد حکومت کا مذید پریشر اور ایوب خان کے مارشل لاء سے تحریک کے لیے ناسازگار ماحول بنانا۔ اس کے باوجود پشتونستان کی خاطر کانگریس کو خطوط بھیج بھیج کے ان کے وعدے کی یاددہانی۔ بعد تقسیم بابڑہ کا المناک واقعہ جس میں ہزاروں کی تعداد سے قتلِ عام اور لواحقین سے اُن گولیوں کی قیمت تک وصول کرنا جو اُنہی کے پیاروں کے جسموں میں پیوست کی گئی تھیں۔ ون یونٹ بن جانے سے پورے خطے میں حالات کی مذید سنگینی اور اِس کے خاتمے کے لیے خان کی پرتپاک جدوجہد، بھٹو کی پشتونستان سے متعلق وعدہ خلافی اور خان کا بلوچوں کے خلاف ہونے والے فوجی آپریشن کے خلاف عملی مذمت سب شامل ہے۔

یہ کتاب اُس خان شہید کی جدوجہد کی جھلک دکھاتی ہے جس کی زندگی کا ہر تیسرا دن قید میں اور تقریباً نصف زندگی جیلوں کی نذر ہوگئی۔ جو ملک بن جانے کے بعد بھی سب سے پہلا سیاسی قیدی بنا اور جو ہندوستان کی تقریباً ہر جیل میں رہا۔ جس نے جہدِ مسلسل کی ایک درخشندہ مثال قائم کی جو پشتون تاریخ میں نہیں ملتی۔ جسے کبھی مراعات دے کر تو کبھی شاہی جرگے کا رکن بنا کر روکنے کی کوششیں کی گئیں۔ کبھی اعلیٰ حکومتی عہدوں کی پیشکش کرکے تو کبھی اس کے خاندان والوں کو ہراساں کرکے کبھی جلسوں میں اس کے خلاف زہر اُگل کر خواہ ہر ہر طریقے سے روکنے کی کوشش کی گئی لیکن خان کی استقامت تو جسے پہاڑوں سے بھی مضبوط تھی۔ جو ہر بڑی سے بڑی پریشانی پر بھی پیشانی پہ بل نا آنے دیتا اور اپنے ساتھیوں کے حوصلے بھی بلند رکھتا۔

یقیناً یہ کتاب خان شہید کی عظیم جدوجہد کی بہترین عکاس ہے۔ پشتون قوم میں جب بھی "مزاحمت" کا لفظ دہرایا جائے گا تو فقط ایک ہی شخص اِس لفظ کا مصداق نظر آئے گا اور وہ بابائے پشتون خان عبد الصمد خان اچکزئی خان شہید ہوگا۔