1967 کی بہار کا موسم تھا، ایک نوجوان پہاڑی راہ گزر پہ اکیلا اوپر موجود کوئلے کی کانوں کی طرف رو بہ سفر تھا۔ راستے میں بہتے چشمے سے پانی مل جاتا تھا اور بیروں کے موسم میں انجوائے کرنے کے لیے فروٹ بھی دستیاب تھا۔ اور راستہ بھی کوئی نیا نہیں۔ بہتیری دفعہ اس راستے سے گزرا، کئی دفعہ تو شام کی دھندلکے میں بھی، جب بھی گھر میں فاقوں کی نوبت آتی تھی اور باپ کی کوئی خبر نہیں ہوتی تھی تو یہی راستہ تھا جس پہ چل کہ وہ اپنے 6 چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے باپ سے رقم لینےآتا تھا۔
بے چاری ماں کا دل تو کانپتا تھا پر کوئی چارہ نہ تھا، وہی بڑا بیٹا تھا جو خود تو بڑا نہ تھا پر چھوٹے بہن بھائیوں کی بھوک وہی دور کر سکتا تھا۔
علاقے کے اکلوتے ہائی سکول میں ہونے والے میٹرک کے پیپر گزشتہ روز ہی ختم ہوئے تھے، اور آج وہ مزدوری کے لیے کوئلے کی کانوں پہ جار ہا تھا جہاں باپ نے کوئلہ نکالنے کا ٹھیکہ لے رکھا تھا، اس کے لیے گدھوں کی اچھی تعداد انہوں نے خرید رکھی تھی جو اندر دور سے کوئلہ لانے کے کام آتے تھے۔
سفر تمام ہوا۔ باپ دیکھ کر حیران ہوا پاس بٹھا کر بیٹے سے مقصد پوچھا تو بتا یا کہ مزدوری میں ہاتھ بٹانے آیا ہے تاکہ ہر دوسرے مہینے جو فاقوں کی قسط چلتی ہے وہ ختم ہو سکے۔ باپ پریشان تو ہوا پر بات تو سچ تھی۔
دوسرے دن صبح، ڈیوٹی کے وقت آئے باپ کے لیے مسئلہ کہ اپنے "پڑھے لکھے " بیٹے کے لیے (اس وقت شاید میٹرک، ایم فل سے بہتر ڈگری تھی) مزدوروں کے کام کیسے لگائے۔ خیر ایک آسان کام ڈھونڈا، مزدور جب کوئلے گدھوں پہ لاد دیں تو ان کو "چکتے " ہوئے، ہانکتے ہوئے کان سے باہر لانا۔ کام شروع ہوا، تیسرا پھیرا ہی تھا کہ باپ کی ہمت جواب دے گئی، بابو بیٹے کو گدھوں کے ساتھ چلتا دیکھنا برداشت سے باہر ہو گیا، باپ زمہ دار نہ بھی ہو تو اولاد کی محبت دل میں ٹھاٹھیں ضرور مارتی ہے، اٹھ کے اپنی جگہ بٹھا دیا، کاغذ اور قلم پکڑائی کہ حساب لکھو اور خود اس کی جگہ کام شروع کر دیا۔
چھوٹے بہن بھائیوں کو وقت سے روٹی ملنے لگی، چند مہینے گزرے تو فوج کی بھرتیوں کا اعلان ہوا، کسی کے دئیے کی روشنی میں پڑھنے والے اس نوجوان کو اپنی ساری امیدوں کا مرکز فوج کی ملازمت نظر آتا تھا۔ سلیکشن ہو گئی کہ اس دور میں 800 میں637 نمبر لینے والے کو اگنور کرنا اتنا آسان نہیں تھا، ابھی اردو میں 100 نمبر دینے والا فیشن ہماری محکمہ تعلیم میں شروع نہ ہوا تھا۔
ابھی ٹریننگ ختم نہ ہوئی تھی کہ ماں نے اپنے کھاتے پیتے بھائی کی سب سے سیدھی سادھی بیٹی سے شادی کردی، دن اچھے گزرنے لگے، لگی بندھی تنخواہ آنے لگی پر، 6 بہن بھائیوں کی تعلیمی اخراجات، ماں کی بیماری، باپ کی بے اعتنائی، غربت کیسے جاتی، ماں غربت کا مقابلہ کرتے کرتے آخر کار حوصلہ ہار گئی، اور بیٹے پہ 6 بہن بھائیوں اور باپ کی زمہ داری ڈال کے چپ سادھ لی۔
سخت محنت، برداشت اور کفایت شعاری کا ایک دور شروع ہوا، بیوی نے گھر کو سنبھالا، بہن بھائیوں کی زمہ داری لی، اورچند ہی سالوں میں اپنے ذاتی گھر کی بنیاد رکھ دی
گھر بنا، 2 چھوٹے بھائیوں نے پڑھائی چھوڑ کہ ہاتھ بٹانا شروع کردیا، بچے سکول جانے لگے، غربت سے دوری ہونے لگی، فوج والوں نے سعودیہ بھیج دیا، خوش حالی پہلی دفعہ دروازے پہ دستک دینے لگی، ماں سے وعدہ پورا کرنے کا وقت آ گیا تھا، بھائیوں کو کاروبار بنا کر دئیے، ان کی شادیوں کے لیے اپنے سسر اور ماموں کے سامنے جا سوال رکھا، ماموں مطمئن نہ تھا، پر ماموں کا بیٹا اس پہ اعتماد ہمیشہ سے ہی کرتا آیا، اس کا سوال کیسے رد کرتا، ایک کی زمہ داری سے بھی سبکدوشی ہوئی ،
شادیاں ہو گئیں، پر کاروبار نہ چلے سکے، بھائیوں نے اپنی نا لائقی چھپانے کے لیے بھائی سے پھڈے بنانے شروع کردئیے، اپنے گھر بھی نہ سنبھال سکے۔ روز کی چخ چخ نے سنگین صورتحال اختیار کر لی، بوڑھا باپ جو کبھی خود زمہ داری پوری نہ کر سکا تھا، مورل سپورٹ کے لیے بڑے بیٹے کے ساتھ تھا پر چھوٹے بے لگام ہو گئے اور آخر ایک دن 2 چھوٹے بھائی گھر چھوڑ گئے، ماموں کے سامنے شرمندہ تو تھا پر وہ قصورواروں کو جانتے تھے، تعلقات میں دراڑ نہ پڑی
تقدیر نے خوش حالی کا منہ دکھا کے پھر ایک دفعہ واپس غربت کی طرف رخ کر دیا، جو پیسا سعودیہ کمایا ہوا تھا وہ تو بھائیوں کی نظر ہو گیا، کفایت شعاری کے ساتھ بچوں کی تعلیم جاری رکھی، ایک بھائی نے واپس آ کر اپنا گھر سنبھال لیا، دوسرے نے ہر رشتہ ہی توڑ لیا، غربت ایک دفعہ پھر نگلنے کو تیار تھی، قرضوں کے انبار لگنے لگے، لیکن اپنے بچوں کی تعلیم کو نہیں روکا، ایسا بھی وقت آیا کہ ایک بیٹی کی کتابیں، پوری تنخواہ سے زیادہ آتی تھی، پر حوصلہ نہیں ٹوٹا۔
آخر کار محنت اور ہمت کا اجر ملنا شروع ہوا، بیٹا اور بیٹی اپنے باپ کی مدد کے قابل ہو گئے، تعلیم مکمل کرکے اپنے باپ کا ہاتھ بٹانے لگے، چھ سات سال کا قرض ایک سال بھی ان کے آگے نہ ٹک سکا۔
نوکری ایمانداری سے کرنے کا پھل یہی ملا کہ سب سے بڑے آرمی آفس میں جا پہنچے، جگہ جگہ پوسٹنگ سے جان چھوٹ گئی اور اپنے علاقے کے لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مسئلوں میں کام آنے لگے۔
بچوں کی شادی کردی، فوج سے ریٹائر منٹ لی، صرف 2 مہینے ریسٹ کیا اور فراغت سےاکتا کر ایک فیکٹری میں جاب کر لی، کام کیےبغیر بھی چین نہ تھا، اگرچہ خوشحالی تھی پر زمہ دار لوگوں کی قسمت میں چین نہیں ہوتا، 2 سال نہ گزرے کہ بیٹا باپ کو اکیلا اور اس کے سر پر اپنی بیوی اور ایک بچے کا بوجھ چھوڑ کر چلا گیا، 2 سال مزید گزرے کہ بیٹی بھی گھر آ کر بیٹھ گئی۔ اس کے علاوہ چھوٹے بھائی کے 3 بچے اور بیوی کی ایک بھانجی بھی پنا لینے کے لیے آئی ہوئی تھی، 13 بندے اور آمدن کل 18 ہزار۔ جدوجہد پھر سے شروع ہوئی، چھوٹے بیٹے نے ہاتھ بٹانا شروع کیا، فوج سے ملنے والی زمین پہ قبضے کا کیس، ہر مہینے بہاولنگر جا کے پیشیاں بھگتانا۔ پر ہمت تھی کہ جوان تھی۔
اللہ ایسے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑتا، زمین بھی ملی، خوش حالی نے پھر سے نظر کی، اور اپنا گھر ایک دفعہ پھر بنا لیا، اپنی چھت ہو گئی تو 60 سال کی عمر میں ایک دفعہ پھر فرائض پورے کرنا شروع کردئیے، بیٹی کو ایک دفعہ پھر نیک امیدوں سے رخصت کیا، چھوٹے بیٹے کا فرض پورا کیا، اور پھر اپنی ماں کی دی ہوئی زمہ داری ،،،،،، اپنے سب سے چھوٹے بہن بھائی، جو 17 سال سے بولتے تک نہ تھے ان کے بھی گھر بسا دئیے ۔
2013 کی بات ہے، 63 سالہ بزرگ ہسپتا ل کے امراض قلب کے آئی سی یو میں اپنے قدموں پہ چل کے داخل ہوئے، ڈاکٹرز نے عجیب بات بتائی تھی کہ آپ کو دوسرا ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ اسی رات تیسرا اٹیک ہو گیا۔ جان لیوا نہ تھا پر شدید تکلیف، درد تھا کہ کم ہونے کو نہیں آ رہا تھا۔ ہر لمحہ صبرا آزما تھا، موت سے لڑائی جاری تھی، دو دن بعد اپنی بیوی سے کہہ رہا تھے کہ تمہیں پتہ ہے نا مجھے کیا ہوا ہے، ایک مہینے میں تیسرا ہارٹ اٹیک۔۔۔۔ اللہ سے دعا کرو، مجھے اتنی مہلت مل جائے کہ میں اپنے پوتوں کو اپنے پائوں پہ کھڑا ہوتے دیکھ لوں، ان کی ذمہ داری میرے کندھوں پہ ہے ۔۔۔۔۔۔ 46 سال لگ گئے زمہ داری پوری کرنے میں پر زمہ داری تھی کہ ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھی، ابھی اپنے بیٹے کی دی ہوئی زمہ داری کی فکر تھی۔
پر یہ قسمت کے کھیل ہیں، اوپر والے کے اپنے فیصلے ہیں، اپنے چھوٹے بہن بھائیوں سے لے کر اولاد، خاندان کے ہر ضرورت مند کے بعد اپنے پوتوں کی زمہ داری پوری کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی خواہش تو اچھی تھی، پر موت کسی کو کب مہلت دیتی ہے۔ ہم صرف خواہش کر سکتے ہیں، تمنا کر سکتے ہیں ، پر ہر تمنا پوری نہیں ہوا کرتی ۔
اور کس نے کہا کہ یہ ساری زمہ داریاں آپ کی تھیں، آپ کو یہ کیوں لگتا تھا کہ سب آپ نے ہی نبھانا تھا، ایک دن ایسا نہیں تھا آپ کی 63 سالہ زندگی میں جب آپ پہ زمہ داری نہ ہو آپ نے اپنے ساتھ انصاف نہیں کیا، 46 سال تک زمہ داریاں پوری کرتے کرتے، آخر کار زمہ داری پوری نہ کرنے کا احساس لے کے آپ ہمیں چھوڑ گئے۔
اور ہمیں جو آپ غیر ذمہ دار سمجھتے تھے، کاش آپ آ کے دیکھتے کہ ہم کتنے زمہ داری ہو گئے ہیں۔ اب ہم کمرے سے نکلتے وقت لائٹ بھی آف کرتے ہیں، رات کو گیٹ کو تالہ بھی لگاتے ہیں، سبزیاں لانا نہیں بھولتے، پانی کی موٹر ٹائم پہ بند کرتے ہیں۔ افسو س یہ ہے کہ کبھی بھول جائیں تو کوئی ڈانٹنے والا ہی نہیں۔