"سب سے پہلے ہم ہارڈ ڈسک کو فارمیٹ کرتے ہیں"، خرم نے اپنی آنکھوں کی چمک کو کم کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے پیشہ ورانہ انداز اپنانے کی کوشش کی۔
عمل نے آنکھ کے کونے سے ٹھنڈی نظروں سے دیکھا "یہ مجھے آتا ہے، جو مجھے سکھانے کے لئے چھٹی کے دن بلایا وہ بتاؤ"۔
"ارے بتاتا ہوں ناں، سٹیپ بائی سٹیپ ہوتا ہے سارا"۔ خرم نے اپنے کمینے پن کو کیموفلاج کرنے کی کوشش کی۔
"تو پھر دانت زیادہ باہر نہ کرو، اور اس سٹیپ پہ آؤ" وہ دوبارہ موبائل سے میسج کرنے لگی۔
اس فقرے سے خرم کے اندر ایک چوٹ لگی کیونکہ دانت نکالنا بچپن سے اس کی چھیڑ تھی۔ "لیکن یہ مقام غیرت کھانے کا نہیں"، اس نے اندر کے غیرت مند ٹیپو سلطان کو سمجھایا۔ "اس سے کسی طرح دوستی بنانی ہے۔ ویسے بھی ہدف تک پہنچنے کے لئے قربانیاں تو دینی ہی پڑتی ہیں"۔ خرم اس کو حاصل کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔
"ہاں مجھے پتہ ہے تم نے یہ سب کیا ہوا ہے، تم نے تو نیٹ ورکنگ سیکھنی ہے، اس کے بعد وہی کریں گے ناں"۔ اس نے عمل کو دلاسہ دیا۔
"ہممممم"۔ وہ ایک شانِ بے نیازی سے اوپر دیکھے بغیر بولی۔ اس کے چہرے پر ایک ہلکے سنہرے بالوں کی لٹ گر رہی تھی جس کو وہ مزید بے نیازی سے جھٹک کر اچھے بھلے خرم کے دل کی نیٹ ورکنگ خراب کر رہی تھی۔
خرم نے پوری طرح پروفیشنل بنتے ہوئے کمپیوٹر پہ انسٹالیشن شروع کر دی۔ عمل اپنے موبائل سے میسج کرنے میں مصروف تھی۔ خرم نے کئی دفعہ اس کی آنکھوں میں دیکھنے کے لئے مختلف باتیں چھیڑیں لیکن وہ "ہوں ہاں" سے جواب دیتی رہی۔ بات آگے نہیں بڑھ پا رہی تھی۔ "اس کمینے مشتاق کے ساتھ تو اتنی لمبی لمبی باتیں کرتی ہے پر یہاں اس کی زبان پہ تالے پڑے ہیں" اس نے سوچا۔ میں کتنی کتنی دیر سنتا رہتا تھا جب وہ مشتاق کے ساتھ لمبی لمبی باتیں کر رہی ہوتی تھی، کبھی سوفٹ وئیر تو کبھی موویز اور کبھی کچھ اور۔ خرم کو باوجود کوشش یہ بھی سمجھ نہیں آتی تھی کہ ان کی باتوں میں شامل کیسے ہو۔ جب جب اس نے شامل ہونے کی کوشش کی اس کمینے مشتاق نے ایسی جگت لگائی کہ وہ اپنا سا منہ لے کہ رہ جاتا۔ یہ تو پھر بھی وہ برداشت کر جاتا پر جب وہ اس کی بات پہ کھلکھلا کے ہنستی تو غصے کو قابو کرنا مشکل ہو جاتا۔ پر خرم پی جاتا۔ کیوں کہ اگر مشتاق کو پتہ چل جاتا کہ وہ اس کی بات کو مائنڈ کر گیا ہے تو اگلے ایک ہفتے تک اس کی جگتوں کا نشانہ بننا پڑتا۔
حیرانگی تو اسے عمل پہ تھی کہ وہ اس کھڑوس مشتاق کی کسی بات کا برا نہیں مناتی تھی جو اس کے ساتھ بھی یہی سلوک کرتا تھا۔ اس سے کام کے بارے ایسے پوچھتا تھا جیسے وہ ملازمہ ہو۔ مطلب وہ ملازم تو تھی لیکن لڑکی تھی۔ وہ بھی خوبصورت، بلکہ بہت ہی خوبصورت اور نرم۔۔ مزاج۔ اگر وہ مشتاق کی جگہ ہوتا تو کبھی اس سے ایسے بات نہ کرتا۔ وہ بھی تب جب ایک ہی کمپیوٹر پہ ایک ہی ماؤس سے کام کر رہے ہوں۔ پھر کبھی کبھی ہاتھ یا بازو ایک دوسرے سے مس ہونے کا چانس بھی ہو۔ پر وہ کھڑوس، اور منہ پھٹ مشتاق اس کے ساتھ بہت بے مروتی سے پیش آتا تھا۔ کبھی کبھی جواب میں اس کی ہنسی سے خرم کو شک ہوتا تھا کہ ان کے درمیان کوئی "چکر" ہے۔ کئی دفعہ اس نے کوشش کی کہ مشتاق اسے کچھ بتا دے پر مشتاق تھا اس میدان میں یک۔۔ تا تھا۔ حرام ہے جو کبھی اندازہ ہوا ہو کہ وہ اقرار کر رہا ہے یا انکار۔
لیکن جو بھی ہو، عمل اسے بہت معصوم لگتی تھی۔ اس کی بے ساختہ ہنسی، مصنوعی غصہ، آتے جاتے اس کی بے عزتی کرنا، سب کچھ ہی تو اس کی معصومیت کی گواہ تھا۔ اس میں کچھ خاص تھا، خرم کو کبھی کسی لڑکی نے پاس نہیں بیٹھنے دیا، لیکن عمل نے اسے کبھی اپنے پاس سے نہیں اٹھایا۔ اسی وجہ سے اس نے ڈیوڈرنٹ اور پرفیوم لگانا شروع کر دیا تھا۔ صرف ایک دفعہ گرمیوں کے موسم میں اس نے اپنی لمبی خوبصورت ناک پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا کہ "یہ جرابوں کی بو کہاں سے آرہی ہے؟" یہی سمجھانے کا معصوم انداز خرم کے دل میں"کھڑ" گیا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ یہی وہ لڑکی ہے جس کو اس نے حاصل کرنا ہے، اور اسی کے ساتھ زندگی بتانی ہے۔ "میں نے اسے حاصل کرنا ہے چاہے مجھے اس کمینے مشتاق کی دو سالہ دوستی سے ہاتھ دھونے پڑیں"۔ وہ تو ویسے بھی ہر وقت مشتاق کی جگتوں کے نشانے پہ رہتا ہی تھا، اسے جواب نہیں دے پاتا تھا۔ مگر اب خرم فیصلہ کر چکا تھا کہ عمل کو اس کے چنگل سے نکال کے کرارا جواب دے گا۔
وہ فیصلہ کر چکا تھا۔
پر مسئلہ یہ تھا کہ خرم کو یہ یقین بھی نہیں تھا کہ عمل مشتاق کے چنگل میں ہے بھی یا نہیں۔ وہ اتنا خبیث تھا کہ اس کے چہرے سے اندازہ کرنا مشکل ہوتا جبکہ دوسری جانب عمل۔۔ اف۔۔ وہ تو اتنی معصوم ہے کہ اس کے چہرے سے کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ وہ سارا دن یا تو کمپیوٹر پہ اس کھڑوس سے کام سیکھتی تھی یا پھر اپنے موبائل پہ ایس ایم ایس کرتی رہتی تھی۔ کئی بار خرم نے اس سے پوچھا کہ سارا دن کس کو میسج کرتی ہو تو وہ پیار سے بول دیتی "تم سے مطلب؟" عشق کا عالم یہ تھا کہ اس کے گلابی ہونٹوں سے نکلے یہ تین لفظ اسے عمل کی محبتوں کا مزید اسیر بنا دیتے۔
اچھا تو اسے مشتاق ویسے بھی نہیں لگتا تھا لیکن ایک دن اس نے عمل کو باقاعدہ جھاڑا کہ وہ ہر وقت ایس ایم ایس کرتی رہتی ہے۔ اس کا دل کیا مشتاق کی عینک پہ زور سے مکا مار کے ناک توڑ دے۔ عمل کا چہرہ ایک دم مدھم ہوگیا۔ وہ روہانسی سی بیٹھی تھی۔ مشتاق کے جانے کے بعد خرم نے عمل کے سامنے مشتاق کے خوب لتے لئے۔ وہ بلا خوف و خطر اظہار کر رہا تھا کہ اگر کوئی لڑکی موبائل پہ اپنے ماں باپ کو میسج کرتی رہتی ہے تو اس کمینے کو کیا تکلیف؟ لیکن ہائے معصومیت۔ خرم کی باتوں پر سر ہلاتی عمل نے آنکھیں اوپر اٹھاتے ہوئے معصومیت سے کہا "تمہیں کس نے کہا میں فادر کو میسج کرتی ہوں؟" خرم نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لیں۔ کتنا کمینہ ہے مشتاق جو اتنی معصوم لڑکی کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے۔ معصومیت جو یہ بھی نہ کہے کہ ہاں والد ہی سے بات کر رہی تھی۔
عمل کو سیکھنے کا جنون تھا۔ اس دن خرم نے اس کو نیٹ ورکنگ سکھانے کے بہانے بلایا۔ وہ اس سے دوستی کرنے کا کوئی موقع بنانا چاہتا تھا۔ وہ صبح وقت پہ پہنچ گئی۔ خرم اس سے پہلے ہی کئی امیدیں لیے آفس آیا ہوا تھا۔ لیکن جب وہ کسی ضروری کام کا کہہ کر چلتی بنی تو خرم کی امیدوں پہ ٹھنڈا پانی پڑ گیا۔ وہ کھڑے سرو کی طرح بس کھڑا ہی رہ گیا۔ دوپہر کے بعد وہ آئی تو ویسی کی ویسی فریش تھی، بس لپ سٹک جانے کیوں تھوڑی خراب تھی۔ جیسے کسی کے ساتھ۔۔ "نہیں نہیں، یہ ممکن نہیں۔ اتنی معصوم سی تو ہے"۔ پھر بھی وہ بہت خوبصورت بہت لگ رہی تھی۔ وہ توجہ سے کام سیکھتی رہی اور اتنی ہی توجہ سے میسج کرتی رہی۔ "والد نہیں تو کسے؟ ارے بھائی کو کر رہی ہوگی، میں کیوں شک کروں اس معصوم لڑکی پر؟"۔ خرم اسے کام میں مبینہ توجہ کے ساتھ ساتھ میسیجز پر یقینی دھیان دیتا دیکھ کر اس کی ملٹی ٹاسکنگ کا مداح بھی ہوگیا۔ برف جیسے سفید ہاتھوں پہ نیلگوں نسیں، اور ہاف سلیو سے باہر آتے بازو پہ کالا تل اس کی رنگت اور نمایاں کرتا رہا۔ اس دن اسی بازو کا واحد لمس اس کی واحد کمائی تھی۔ وہ اس لمس کو لے کے ساری رات مختلف قسم کی گہری سوچوں کے تالاب میں جانے کتنی بات ڈوبا۔ "واقعی، کوئی کوئی لمحہ زندگی بدل دیتا ہے۔۔ feeling lucky with one another"۔ اس نے سوشل میڈیا پر سٹیٹس بھی ڈالا۔
اس کے لمس نے خرم کی زندگی بدل دی۔ اب اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ اس لمس کو لے کر مشتاق کو اسی آگ میں جلائے گا جس میں، وہ خود جلتا تھا۔
وہ سوموار کا دن تھا۔ صبح صبح ہی اس نے پہلا حملہ کیا۔ مشتاق اپنے کمپیوٹر میں گھسا، دھڑ دھڑ دھڑ دھڑ کچھ ٹائپ کر رہا تھا۔
خرم نے پوچھا "عمل نہیں آئی؟"
"نہیں" مشتاق بغیر توجہ دیے بولا۔
"ہمممم، کل لیٹ گئی تھی، شائد اس لئے؟" اسے لگا مشتاق ضرور اس بات ہر حسد محسوس کرے گا۔ اندر خانے خرم نے دل میں ایک کمینی سی ہنسی ہنسی۔
لیکن مشتاق کچھ نہ بولا۔ کوئی ردعمل نہیں۔
لیکن خرم کو یقین تھا وہ اندر ہی اندر چونکا ضرور ہوگا۔ بھلا اسے کیا پتہ کہ کل وہ میرے ساتھ تھی۔ "ٹھیک ہے ذہنی طور پر موبائل کے ساتھ ہی مگر پھر بھی، میرے ساتھ اکیلی"۔ اسے یقین تھا کہ مشتاق کو حسد دلانے کے لیے یہی بہت ہے کہ وہ اور عمل اکیلے تھے۔ اس کے اندر ہلچل مچی ہوئی تھی۔ "آج پہلی دفعہ بار میں مشتاق سے انتقام لے رہا ہوں"۔ وہ جیت کی خوشی سے سرشار سوچ میں پڑا ہوا تھا۔ "اسے کیا خبر کہ میں عمل سے دوستی تقریبا کر چکا ہوں"۔ اس کے خیال سے مشتاق کا پتہ اب کٹ چکا تھا۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ ابھی تو یہ فقط ابتداء تھی۔ "یہ تو میرے انتقام کا نقطہ آغاز ہے" وہ خود سے بولا۔
چائے کے وقفے کے بعد اب خرم نے پھر سے مشتاق کو حسد میں مبتلا کرنے کا فیصلہ کیا۔ عمل اور مشتاق بیٹھے کچھ ڈسکس کر رہے تھے۔ ڈسکشن کیا تھی، وہ بے چاری جھاڑ ہی کھا رہی تھی۔ اسی دوران خرم میں نے دوسرا وار کیا۔
"عمل کل گھر والوں نے کچھ کہا تو نہیں لیٹ آنے پہ؟"
دونوں نے اس کی طرف دیکھا۔ مشتاق نے خالی نظروں سے اور عمل نے شکائتی نظروں سے۔ شکایت بجا بھی تو تھی۔ چھٹی والے دن آفس آنے کا بتانے سے خرم نے ہی تو عمل کو منع کیا تھا۔ "عمل معصوم کو کیا خبر کہ میں اسے اس خبیث کے چنگل سے آزاد کرانے کے لئے تگ و دو کر رہا ہوں"۔ وہ عمل کی "گھوریوں" سے زیادہ مشتاق کی آنکھوں کی ویرانی محسوس کرنا چاہتا تھا۔ وہ تڑپ کے ضرور پوچھے گا کہ کل کیا کر رہی تھی عمل یہاں۔
مشتاق نے غصے سے خرم کی طرف دیکھا۔ اس کے اندر کی خوشی، ہنسی بن کے باہر آ گئی۔
"دانت مزید نکالنے کی بجائے ان سے زبان کو گرفت میں لو، ہم نے رپورٹ بناکے دینی ہے"۔ یہ کہہ کر مشتاق پھر سے کمپیوٹر کی طرف متوجہ ہوگیا۔
"پھر وہی دانتوں والا طعنہ"۔ خرم سوچنے لگا۔ "لیکن اس نے تپ کہ پوچھا کیوں نہیں کل کے بارے میں؟ کیا مشتاق کو جلانے ہرانے کی میری خوشی ادھوری رہ گئی؟ نہیں میں اسے تپا کر رہوں گا" خرم اپنے شجر سے پیوستہ تھا۔
شام چھٹی کے بعد سب چلے گئے۔ حسب معمول مشتاق آفس میں بیٹھا کمپیوٹر میں گھسا کام کر رہا تھا۔ وہ اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔
"جگر! کیا کر رہا ہے؟" اس نے پہلا پتہ پھینکا۔
"اندھا ہے؟ دیکھ نہیں رہا کام کر رہا ہوں؟" مشتاق کا وہی بیہودہ طرز کلام ردعمل میں سامنے آیا۔
"ہر وقت کام کرتا رہتا ہے" خرم نے اگلا پتہ پھینکا۔ "خیر ہم بھی کرتے رہتے ہیں۔ چھٹی کے دن بھی کرتے ہیں"۔ وہ مشتاق کو جلانے کا عزمِ مصمم دل میں لیے آگے بڑھ رہا تھا۔ مشتاق خاموش رہا۔
"دیکھا کوئی جواب نہیں، بن رہا تھا" خرم نے سوچا۔
لیکن وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ مشتاق کو احساس دلانے کا کہ عمل اب اس کی عملداری میں ہے۔ عمل اس کا کہنا مشتاق سے زیادہ مانتی ہے۔ "میں نے اسے حاصل کر لیا ہے"۔ خرم نے دل ہی دل میں سوچا۔
"وہ عمل بھی آئی تھی کل"
یہی پتہ تو سنبھال کہ رکھا تھا اس نے۔ تیر نشانے پہ لگا۔
"کیوں"، اس نے بغیر دیکھے پوچھا۔
"وہ نیٹ ورکنگ سیکھنے کا شوق ہے اسے"۔
مشتاق نے ایسے ظاہر کیا کہ وہ کچھ چھپا رہا ہوں، اب وقت آگیا تھا اس کی "تڑپ" دیکھنے کا۔
"اچھا"۔ پھر ٹھندا لہجہ۔
میں نے اگلا پتہ پھینکا۔
"یار بہت گوری ہے وہ"۔ اب یقیناً مشتاق بہت جیلس ہوگا۔
مشتاق نے سکرین سے نظریں ہٹا کر میری طرف غور سے دیکھا۔ اور بولا " کیا کہنا چاہ رہا ہے چول؟"
یہ چیز۔ لگی اس کو۔ خرم کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ مشتاق کے دل میں شک پڑ گیا۔ اب عمل میری ہے۔
ایک قدم اور۔ اور یہ عمل سے الگ ہو جائےگا"، خرم نے سوچا۔
تھوڑی دیر میں نے انتظار کیا پر کوئی رد عمل نہیں۔ خرم اب آخری سطح تک جانے کو تیار تھا۔ "عمل میری ہے اور میں اسے حاصل کرکے رہوں گا"۔
"اس کے بازو، بہت گورے ہیں، ان پہ انگلی سے دباو تو نیل پڑ جاتے ہیں" خرم نے ایسے ظاہر کیا جیسے اس کی اور عمل کی قربت جانے کتنی منزلیں طے کر چکی ہیں۔ اس کو حسد کی آگ میں جلانا تھا تاکہ وہ اپنی پسند کو حاصل کر سکے۔ اس کے خیال سے مشتاق جل رہا تھا۔
مشتاق نے اب کی بات غور خرم کو دیکھا۔ " اچھا" کہا اور پھر دھیرے سے ہنس کے بولا "تو ایسے نہیں سمجھے گا"۔
پھر خاموشی۔ خرم کے اندر بے چینی پیدا ہوئی، یہی تو موقع تھا۔ لوہا گرم تھا۔ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ یہ اپنی معصوم محبت حاصل کرنے کا آخری موقع تھا۔ عمل کو اس کمینے کے چنگل سے چھڑانے کا۔ ایک دھکا اور۔
"یار اس کا تل کتنا خوبصورت ہے"۔
سکرین سے نظریں ہٹائے بغیر مشتاق نے پوچھا۔
"کہاں والا؟"
خرم نے دل ہی دل میں ساری مسکراہٹ اکٹھی کرتے ہوئے اس کی کمینگی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔
"اس کی گردن کے نیچے والا"۔
اپنے جھوٹ پہ اسے تھوڑی سی شرمندگی ہوئی پر محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ مشتاق کو کیا پتہ کہ اس مقام پر واقعی تل ہے یا نہیں۔
"اچھا"۔ وہ بدستور سکرین کو دیکھ رہا تھا۔
"یقینا اس کے دل میں طوفان اٹھ رہا ہوگا کہ اس کی محبت، کیسے میرے اتنے قریب آگئی"۔ خرم سوچنے لگا۔
اور پھر اپنی دانست میں خرم نے مشتاق کے اندر لگی آگ کا اندازہ لگانے کے لئے ایک بے ضرر سا سوال کیا۔
"تم کہاں والا سمجھے تھے؟"
خرم دل ہی دل میں ہنسنے لگا کہ مشتاق غالباً دنیا کو عیاں بازو کا تل سمجھ رہا ہوگا۔
مگر پھر اس خبیث کے جواب نے خرم کے سارے سپنے توڑ دیئے۔ خوابوں کے تمام محلات دھڑام سے زمیں بوس ہوگئے۔ عمل کی معصومیت پہ اس کا ایمان نیست و نابود ہوگیا۔
آنکھوں کے اندھیرے نے مشتاق کی ہنسی دیکھنے کا موقع بھی نہیں دیا۔ مشتاق کے پنج لفظی جواب نے اس کی محبت کی داستان شروع ہونے سے قبل ہی خباثت کے پاتال میں ڈبو ڈالی۔
"ناف کے نیچے والا تل"۔