اٹھارویں صدی میں جارج ہمن Johann Georg Hamann (1730-1788) نام کے ایک جرمن فلسفی گزرے ہیں۔ وہ ایما نوئیل کانٹ کے ہم عصر تھے، اور اس کے فلسفے کے نقاد بھی تھے۔ وہ خدا، عیسیؑ، عیسائیت، خیر وشر کے ساتھ حسن وسچائی کو جاننے کا تجسس بھی رکھتے تھے۔ یہی تجسس انھیں زبان اور پھر شاعری کو سمجھنے کی طرف لے گیا۔
تجسس حقیقی ہو اور ذہن روشن ہو تو آدمی تاریخ وتقدیر کی کئی سچائیاں دریافت کرتا ہے۔ جارج ہمن بھی جمالیات کی تاریخ کی ایک سچائی تک پہنچا: "شاعری نسل انسانی کی مادری زبان ہے"۔
نسل انسانی رفتہ رفتہ گروہوں، قبیلوں، قوموں میں بٹتی چلی گئی۔ اس کی زبان ہزاروں زبانوں اور بولیوں میں تقسیم ہوتی چلی گئی۔ نسل انسانی نے اپنے مشترک لسانی و ثقافتی ورثے میں سے بہت کچھ فراموش کردیا۔
اپنے مشترک جد اعلیٰ کو بھولنے والے، جلد ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے اور ایک دوسرے کی لسانی و ادبی و ثقافتی میراث کے دشمن بھی بن گئے۔ نسل انسانی یا ہوموسیپنز کے مشترکہ ورثے میں سے جو چند چیزیں بچی ہیں، ان میں ایک شاعری ہے۔
اس وقت ہزاروں مادری زبانیں معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں، مگر نسل انسانی کی مادری زبان، شاعری کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ فکشن کی بے مثال مقبولیت سے بھی، اسے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ شاعری دنیا، فطرت اور خود نسل انسانی کے وجود کو لاحق خطرات میں آدمی کے ہاتھ میں مشعل کی مانند ہے۔ وہی مشعل جسے نسل انسانی کے اب وجد نے قرنوں پہلے، اس لمحے روشن کیا تھا، جب پتھروں کی آگ سے، وہ اندھیرے کو شکست دینے میں ناکام رہے تھے۔
شاعری اس وقت بھی تھی، جب ننگ دھڑنگ آدمی جانور کا شکار کیا کرتا تھا، اور شاعری اِس وقت بھی ہے جب مہنگے برینڈ کا لباس پہنے، آدمی، آدمی کا شکار کرتا ہے۔ شاعری اُس وقت بھی تھی، جب آدمی جنگل اور پہاڑ کا فرماں بردار بیٹا تھا، شاعری اِس وقت بھی ہے، جب وہ اسی جنگل کو کاٹتا اور اسی پہاڑ کو بیچتا ہے۔
شاعری اُس وقت بھی تھی، جب بے گھر و بے خانماں آدمی، کائناتی قوتوں سے خوف زدہ ہواتھا، انھیں مقدس سمجھاتھا، اور خدا اور دیوتا تخلیق کیے تھے، اور اس تخلیق کی کہانی اپنی اساطیر میں محفوظ کی تھی، اور شاعری اِس وقت بھی ہے، جب آدمی نے خدا، مصنف اور تاریخ کی موت کا اعلان کررکھا ہے، اور سیارہ زمین کو موت سے ہم کنار کرنے کے درپے ہے۔
شاعری اُس وقت بھی تھی، جب آدمی کا دل آسمانی خداؤں کے خوف آمیز تقدس سے بھرا تھا اور خدا منتخب انسانوں سے کلام کیا کرتے تھے، اور دنیا میں الہامی صحائف اترا کرتے تھے، اور شاعری اِس وقت بھی ہے، جب آدمی کا دل آس پاس کے لوگوں، زمینی خداوندوں اور آسمانی خداؤں کی، انسانی معاملات سے لاتعلقی کے شکوے سے بھرا ہے۔
شاعری اُس وقت بھی تھی، جب ابھی کاغذ ایجاد ہوا تھا نہ تحریر، شاعری اِس وقت بھی ہے جب کاغذ پر چھپی کتابیں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔
یہ شاعری ہی تھی، جس نے ہم تک خداؤں اور مقدس ہستیوں کا جلال وجمال پہنچایا۔ ساڑھے چار ہزار برس پہلے، مصر میں نیل کی شان میں لکھی گئی ایک نظم کا ٹکڑا دیکھیے:
"جب وہ اندھیرے کو پھاڑ کر نکلتا ہے تو درخشاں ہوتا ہے، وہ درخشاں ہوتا ہے تاکہ اس کی مخلوق پروان چڑھ سکے
اس کے پاس قوت ہے جس سے تمام اشیا کو وجود ملتا ہے
کوئی شے، اس سے پوشیدہ نہیں ہے
وہ سب کاموں کی نگرانی کرتا ہے، وہ رات کے دوران سیلاب پیدا کرتا ہے
وہ اپنے جملہ خدام کو وجود دیتا ہے"
بائبل میں ہے: "کیوں کہ خدا کی بادشاہت، باتوں سے ظاہر نہیں ہوتی بلکہ خدا کی طاقت سے ظاہر ہوتی ہے"۔ نیز: "اس کی عظمت تمھیں خوف زدہ کردے گی اور اس کی دہشت تم پر طاری ہوجائے گی"۔
یہ شاعری ہی تھی جو ان ہستیوں کی غلبہ آفریں عظمت، شکوہ، تقدس اورکبریائی کو زبان دےسکی۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ شاعری، دیوتاؤں کی محبوب ترین زبان ہے اور یہ شاعری ہی ہے، جس نے خود آدمی کی شوکت وطنطنے کا قصیدہ لکھا ہے۔ میر صاحب کہتے ہیں:
آدم خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ
آئنہ تھا تو مگر قابلِ دیدار نہ تھا
نسل انسانی قوموں، قبیلوں میں تقسیم ہوئی تو اس نے اپنی سات ہزار مادری زبانیں بنالی ہیں، مگر شاعری اس کی واحد مادری زبان کے طور پر آج بھی موجود ہے۔
شاعری نے انسانی یادداشت کو مرنے سے بچایا ہے۔ شاعری نہ ہوتی تو ایک نسل کے تہذیبی و جمالیاتی حاصلات، اگلی نسل تک منتقل نہ ہوپاتے۔
جب پہلا لفظ لکھا گیا تھا تواس وقت شاعری کی عمر ہزاروں برس ہوچکی تھی۔
شاعری افریقا، میسوپوٹیمیا، فراعنہ کے مصر، مہر گڑھ، موہنجودڑو، ہڑپہ، چین و عرب، یورپ وامریکا میں ہے اور کارونجھر میں ہے۔ سچ یہ ہے کہ شاعری قدیم ہے، آفاقی ہے، ہر جگہ اور ہر لحظہ ہے۔
ہومر، سیفو، والمیکی، امر القیس، رومی، امیر خسرو، شیکسپیئر، شاہ لطیف، وارث شاہ، خوشحال خاں خٹک، مست توکلی، بادلیئر، غالب، ییٹس، ٹیگور، خواجہ فرید، ٹی ایس ایلیٹ، ناظم حکمت، پابلو نرودا، مایا انجلو، محمود درویش، نزار قبانی، شیخ ایاز، رفعت عباس پوری انسانی دنیا کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری پوری انسانیت کی مادری ز بان ہے۔
شاعری نسل انسانی کی مادری زبان ہی نہیں، کئی علوم و فنون کی ماں بھی ہے۔ شاعری کے بطن سے کیا کیا نہیں پیدا ہوا؟ اساطیر، مذاہب، تاریخ، فلسفہ، یہاں تک کہ جنگیں، جنگوں کے لیے ملی نغموں کی صورت ایندھن اور انھی جنگوں کو ختم کرنے کے لیے عشقیہ گیت۔
خداؤں سے کلام سے لے کر ہواؤں، بادلوں، پرندوں، جانوروں سے کلام کی زبان، شاعری ہی نے دی ہے۔ ماحول کی بربادی کے نوحے کی زبان بھی شاعری نے دی ہے اور ماحول کو بچانے کی فریاد، چیخ اور عمل کی لغت بھی شاعری ہی کی دین ہے۔
شاعری کا ایک امتیاز اس کی زبان بھی ہے۔ بجا کہ زبان ہر جگہ، ہر پل ہمارے ساتھ ہے۔ دوسرے آدمی سے بات چیت سے لے کر خود سے کلام تک۔ گھر میں عام بول چال سے، مدارس، مساجد، جامعات، بازار، میڈیا تک اور منطق وفلسفہ سے مذہب، فکشن، تاریخ، فلسفہ و سائنس تک۔ زبان، اپنے مکمل وجود کے ساتھ کہیں ظاہر نہیں ہوپاتی۔ یہ صرف شاعری ہے جس میں پوری زبان ظاہر ہوتی ہے۔ اپنے لغوی، مجازی، تمثیلی، استعاراتی، علامتی، تجریدی پہلوؤں کے ساتھ۔
تسلیم کہ پورا انسان کہیں ظاہر نہیں ہوسکتا۔ یہ بھی تسلیم کہ زبان، انسان کی سب سے اہم، سب سے پیچیدہ اور سب سے عظیم ایجاد ہے، بجا کہ زبان، دنیا میں انسان کے موجود ہونے اور اس دنیا کو سمجھنے، برتنے کی سب سے بڑی مظہر ہے، اس کے باوجود زبان پورے انسان کا بوجھ سہارنے سے قاصر ہے۔ لیکن انسان کے دل ووجدان، ذہن وتخیل کی وحشت بھری دنیائیں اگر کہیں، زیادہ سے زیادہ ظاہر ہوسکتی ہیں تو وہ شاعری ہی ہے۔ شاعری پورے انسان کابوجھ اٹھانے کا حوصلہ رکھتی ہے!
سیفو نے کہا: "جسے ہم کہہ نہیں سکتے، اسے رو دیتے ہیں"۔
ضروری نہیں کہ آنکھوں سے روئیں، ہم شاعری میں رو دیتے ہیں۔ جو آنسو شاعری میں گرتے ہیں، وہ کبھی آنکھ سے نہیں ٹپکے ہوتے۔ آنکھ سے ٹکپے آنسو خشک ہوجایا کرتے ہیں، بے اثر بھی رہا کرتے ہیں، مگر شاعری میں گرنے والے آنسو، دنیا، تقدیر اور دوسرے آدمی کے خلاف استغاثہ بن کر سدا باقی رہتے ہیں، اور ان کا اثر قرنوں تک ہوا کرتا ہے۔ ہمارے میر صاحب نے کہا:
میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
زبان میں بے شک پورا آدمی ظاہر نہیں ہوسکتا، مگر شاعری میں پوری زبان ضرور ظاہر ہوتی ہے۔ پوری زبان کیا ہے؟ اس کا جواب بھی ہمیں شاعری میں ملتا ہے۔ شاعری میں الفاظ اپنی صوتی ومعنوی حدوں کو کھوجتے ہیں، پھر ان حدوں کو توڑ دیتے ہیں، اور نئی حدیں قائم کرتے ہیں، پھر انھیں بھی توڑ دیتے ہیں۔ شاعری کی زبان میں بننے بگڑنے، ظہور و اخفا، تخلیق و تخریب کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ شاعری، زبان کی موت کے خلاف، سب سے بڑی جدوجہد ہے۔ جس زبان میں اعلیٰ شاعری موجود ہے، اسے موت سے کوئی خطرہ نہیں۔
دیکھیے، آج سے تین ہزار بر س پہلے سیفو نے شاعری کی زبان سے متعلق کیا کہا تھا:
کیا میں ایسے الفاظ لکھ سکتی ہوں، جو بدن سے بڑھ کر برہنہ ہوں
ہڈیوں سے زیادہ مضبوط، رگوں سے زیادہ لچک دار ہوں
اور اعصاب سے زیادہ نازک
اسے آج ہم پیراڈاکس کہتے ہیں۔ اپنی ہی تردید کرنے والے الفاظ اور بیانات۔ پیراڈاکس، شاعری کی زبان کی ایجاد ہے۔ فلسفہ وسائنس، مذہب واخلاقیات، سیاست و سماج سیاہ اور سفید کو الگ الگ کرکے پیش کرتے ہیں، شاعری سیاہی میں سفیدی کی لکیریں اور سفید ی میں سیاہی کے نکتے دریافت کیا کرتی ہے۔ وہ ایسے الفاظ تلاش کرتی ہے، گھڑتی ہے یا پرانے الفاظ کو اس طور استعمال کرتی ہے کہ بہ یک وقت سیاہ وسفید، سچ اور جھوٹ کی دنیا، یعنی پیر اڈاکس کو پیش کرسکے۔ امرتا پرتیم کی ایک نظم میں ہے:
آؤلمحوں کے سر پر ایک چھپر ڈالیں
وہ دیکھو دور وہاں
سچ اور جھوٹ کے درمیان کچھ جگہ خالی ہے
شاعری جانتی ہے کہ لفظ سے زیادہ پراسرار کچھ نہیں۔ شاعری سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ لفظ میں معنی نہیں، معانی کے سلسلے ہیں۔ لفظ صوت بھی ہے اور تصویر بھی۔ یہ شاعری ہے جو اس صوت وتصویر کے معانی گرفت میں لاتی ہے۔
شاعری ہی جانتی ہے کہ معانی لہجے میں ہیں، لفظوں کی خاص ترتیب میں ہیں، لفظوں کے بیچ خالی جگہوں، وقفوں، اور خاموشیوں میں ہیں۔ زبان میں یہ خالی جگہیں، شاعری خود ہی دریافت کرتی ہے، اور ان خالی جگہوں کے معنوی جلال وجمال خلق بھی کرتی ہے۔ لاؤزے کا قول ہے:
"مٹی کو کوزے میں ڈھالو۔ خالی جگہ خود کو مفید بنالے گی"۔
شاعری تو اوّل روز سے کوزہ گری ہے۔
(کارونجھر ساون مشاعرے میں پڑھے گئے مضمون کا پہلا حصہ)