کوزہ گری فن ہے۔ کمہار اور شاعر دونوں فن کار ہیں۔ کمہار کے لیے مٹی، لفظ کی طرح ہے اور شاعر کے لیے لفظ مٹی کی مانند۔ دونوں اپنے مواد کو صورت میں ڈھالنے سے پہلے، اس کا لمس محسوس کرتے ہیں۔ لمس ہی نہیں، آہنگ و صدا اور ان کی کہی وان کہی بھی محسوس کرتے ہیں، ان کے وجود کو پوری طرح اور ہر رخ سے محسوس کرتے ہیں۔
دونوں کو یہ لمس محسوس کرتے ہوئے، کسی اور کا خیال نہیں آتا۔ لمس کا تجربہ اس قدر بھرپور ہوتا ہے کہ کسی اور شے یا وجود کا خیال آہی نہیں سکتا۔ جسے یہ خیال آتا ہے، وہ مٹی اور لفظ سے بے وفائی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اوّلین لمس کی بے وفائی، بے وفائی کی سب سے خوف ناک قسم ہے۔
شاعری انسانی خطاؤں کو درگزر کرنے کا عجب ملکہ رکھتی ہے، مگر خود اپنے دورانِ تخلیق کی خطا کابوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ شاعری ٹیڑھی میڑھی، الجھی بینڈی دنیا کو حسن وخوبی سے پیش کرنے میں نہیں جھجھکتی، مگر وہ خود اپنے وجود کی کسی کجی کی متحمل نہیں ہوا کرتی۔ کوزے کو جہاں خم دار ہونا چاہیے، وہاں وہ بینگا ہوجائے، اورجہاں قوس ہونی چاہیے، وہاں منحنی لکیر کھنچ جائے تو کوزہ دنیا میں شرمندگی سمیٹتا ہے۔
دنیا میں شرمندگی کے پہلے سامان کیا کم ہیں کہ اس میں فن کی شرمندگی بھی شامل ہو!
دونوں قسم کی کوزہ گری میں فر ق بس یہ ہے کہ مٹی کو اوّلین معنی، کوزے کی صورت میں ڈھلنے کے بعد ملتے ہیں۔ شاعری میں، لفظ کے اوّلین معانی پر شاعر کو ایک نئی تہ چڑھانی پڑتی ہے۔ شاعری میں استعمال ہونے والا ہر لفظ اگر نیا نکور محسوس نہ ہو، دنیا کو پہلی بار دیکھنےکی حیرت کا حامل نہ ہو، شاعر یا کسی شاعرانہ کردار کی روح کی شعاؤں کو لنڈھاتا، انسانی روح کے ویران و تنہا گوشوں میں گونج پیدا کرتا محسوس نہ ہو تو شاعری کوزہ گر ی نہیں رہتی، مسخری بن کر رہ جاتی ہے۔
شاعری اگر یہ احساس نہ دلا سکے کہ وہ اپنے ہونے ہی میں، ہر رخ سے شاعری ہے، یعنی وہی کوزہ، وہی گل کوزہ، وہی کوزہ گر اور وہی رند سبو کش نہیں ہے تو کس کام کی؟ شمس مشرقی کا شعر ہے:
خود کوزہ و خود کوزہ گروخود گل کوزہ، خود رند سبو کش
خود برسرآں کوزہ خریدار بر آمد، بشکست رواں شد
(وہ خود ہی کوز ہ ہے، خود ہی کوزہ بنانے والا ہےاور خود ہی کوزے کی مٹی ہے اور خود ہی کوزے کو توڑ ڈالنے والا رند ہے۔ وہ خود ہی پیالے کا خریدار بن کر آتا ہےاور اسے توڑ کر چلا جاتا ہے۔)
شاعری، دنیامیں آدمی کے ہونے کے تجربے کو پیش کرتی ہے۔ آدمی کا دنیا میں ہونا، کوئی عام ساواقعہ نہیں ہے۔ ویسے تو دنیا میں ایک چیونٹی، ایک تتلی، کسی درخت کے ایک پتے، بیاباں میں، جہاں کسی انسان کا گزر تک نہیں ہوتا، وہاں موجود ناگ پھنی کا ہونا بھی عام ساواقعہ نہیں، مگر انسان کاد نیامیں ہونا تو بالکل عام سا واقعہ نہیں ہے۔
درست کہ اتنی بڑی کائنات میں، یہ زمین ایک ذرہ ہےاور اس ذرے پر موجود کروڑوں مخلوقات میں، آدمی نام کی ایک مخلوق بھی ہے۔ یہ بھی بجا کہ اگر آج پوری زمین برباد ہوجائے تو کائناتی سطح پر یہ ایک معمولی سی بات ہوگی، جو بریکنگ نیوز بھی شاید نہ بن سکے۔ اس سب کے باوجود دنیا میں آدمی کا ہونا، عام سی بات نہیں ہے۔ یہ انسان ہی ہے جو اس کائنات میں اپنی حقیر موجودگی کو محسوس کرتا ہے، کبھی دکھی ہوتا ہے، کبھی لغویت محسوس کرتا ہے اور کبھی سر جھکادیتا ہے۔ وہ دنیا میں اپنے ہونے سے غافل، ایک پل نہیں رہتا۔
وہ مسلسل محسوس کرتا، سوچتا، تخیل باندھتا، خواب دیکھتا، خوش ہوتا، کڑھتا، مضطرب رہتا، دل کے امن اور روح کے جوش کو برقرار رکھنے کے جتن کرتا ہے اور اس سب کو لکھتا ہے۔ وہ اپنے کسی احساس کو رائیگاں نہیں جانے دیتا، اس یقین کے باوجود کہ دنیا ایک لہو ولعب سے زیادہ نہیں ہے۔ وہ مانتا ہےکہ دنیا میں اس کے ہونے کی حقیقت تضادات سے مملو ہے! شاعری ان تضادات کا بوجھ اٹھانے کو آگے بڑھا کرتی ہے۔
بور خیس نے کہا ہے: کوئی شے پتھر پر نہیں بنی۔ سب کچھ ریت پر بنا ہے، لیکن ہمیں کچھ اس طور بنانا ہے کہ جیسے ریت نہیں، پتھر ہو۔ شاعری اور دوسرے فنون، انسانی تجربے کو اسی طور لکھتے ہیں، جیسے انھیں کسی دیمک کی خوراک بن جانے والے کاغذ پر نہیں، کسی لافانی لوح پر لکھا جارہا ہو۔
یہ کہ دنیا میں انسان کا ہونا، عام سا واقعہ نہیں ہے، اس کا احساس ہمیں تمام انسانی فنون عام طور پر اور شاعری خاص طور پر دلاتی ہے۔ آدمی نے فنون اس لیے بھی ایجاد کیے کہ وہ اپنے زمانے کے عام و خاص لوگوں، درماندہ و مقتدر اشخاص، تاریخ اور نظر نہ آنے والی قوتوں کو بتاسکے کہ اسے یہ دنیا کیسی ملی ہے اور اسے کس سیارے پر کیوں پھینک دیا گیا ہے؟
دنیاآدمی کے لیے کس قدر بے کراں، کس درجہ تنگ، کتنی وحشت انگیز اور کس طور ہمت شکن اور کہاں اور کب امید افزا ہے، ہمیں شاعری بتاتی ہے۔ باہر کی دنیا کیسے اندر رینگ آیا کرتی ہے، اور اندر کی دنیا کیسے باہر منعکس ہوتی ہے۔ کیسے اندر کی تاریکی، باہر کی روشنی کو نگل جاتی ہے اور کیسے باہر کی تاریکی، اندر لو دینے لگتی ہے، اس کی خبر ہمیں شاعری سے ملتی ہے۔ آدمی کے لیے کیسے محالات، ممکن اور کیسے تنکے، کوہ گراں بن جایا کرتے ہیں، اور کوہ گراں، کیسے محض سراب بن جایا کرتے ہیں، اس سب کا قصہ ہمیں شاعری سناتی ہے۔
شاعری بہ ظاہر ایک آدمی کی آواز میں ہم سے مخاطب ہوتی ہے، مگر ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ ہم سب کی آواز ہے۔ ایک خالص انسانی آواز۔ انسانی مسرت وجشن وجود، رنج والم، عشق و نشاط، وصل وفراق، تنہائی، خوف، بے چارگی، بیگانگی، شکوے، اور وحشت کی آواز۔ شاعری انسان بنام انسان، اور انسان بنام سماج اور انسان بنا م عالم ہے۔ آدمی جن ہستیوں سے حقیقی طور پر، خوابوں میں، اپنے تخیل میں، اپنے عظیم ترین آدرش میں یا اس آدرش کی شکست کے دوران میں مخاطب ہوتا ہے، یا ہونا چاہتا ہے، وہ سب شاعری میں ہمیں سنائی دیتا ہے۔
شاعری میں ایک فرد کی آواز میں انقلاب رونما ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے، شاعر اپنی آس پاس کی دنیا، اپنی محبوبہ یا محبوب، اپنے خدا، اپنے عفریتوں، اپنے شیطانوں، اپنی ترک کی ہوئی بستی، اپنے کسی بہشتِ موعود یا کسی سامنے موجود جہنم کو لکھ رہا ہو، مگر اس کی شاعری میں کچھ بھی انفرادی نہیں رہ جاتا۔ آدمی کی آواز میں، یکتائی و تفرید ہوسکتی ہے، شاعری کے آدمی کی آواز ولحن میں سب کچھ انسانی واجتماعی ہوتا ہے۔ ایک شاعر کے دوزخ وبہشت، سب کے دوزخ وبہشت بن جایا کرتے ہیں۔
مرزا غالب کا یہ شعر، کس انسان کواپنے دل کی آواز محسوس نہیں ہوتا!
آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوزِ غم ہاے نہانی اور ہے
امریکی شاعر، ڈبلیو ایس مرون کی ایک مختصر نظم کسے اپنے دل کے قریب محسوس نہیں ہوگی۔
تمہاراہجر مجھ پر ایسے گزرا ہے
جیسے دھاگہ سوئی سے گزرتا ہے
جوکچھ بھی، میں کرتا ہوں، وہ اس ہجر کے رنگ سے بُنا جاتا ہے
شاہ حسین کی کافی "مائے نی میں کنھوں آکھاں، درد وچھوڑے دا حال نی" میں ماں، ان سب انسانوں کی ماں ہے جو یہ کافی سنتے، پڑھتے ہیں۔ یہی صورت، وچھوڑے یعنی ہجر کے دردکی ہے اور یہ ہجر کادرد بھی کسی ایک شخص سے جدائی کا وقتی درد نہیں، اپنی اس اصل سے کٹ جانے کا ازلی وابدی درد ہے، جس کی تلاش پر انسان خود کو مجبور پاتا ہے، اور اکثر مایوس ہوتا ہے، جس سےاس دردکاخاتمہ نہیں ہوتا۔
(جاری ہے)
(کارونجھر کے ساون میلو کے مشاعرے سے پہلے پڑھے گئے مضمون کا دوسرا حصہ)