14 نومبر کو شعبہ اردو، یونیورسٹی آف حیدر آباد (دکن، بھارت) نے ماحولیاتی تنقید اور اردو ادب کے عنوان سے عالمی کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اس وقت منعقد ہوئی جب پاکستان اور بھارت دونوں ممالک بدترین سموگ کی لپیٹ میں ہیں۔ ایک حقیقی سنگین مسئلے کی تفہیم اور حل میں ادب کیا کردار ادا کرسکتا ہے، اس کانفرنس کا بنیادی سوال تھا۔ ماحولیات کا مسئلہ، انسان، باقی مخلوقات اور کرہ ارض کی بقا سے جڑا ہے۔ ادب کی زبان میں ماحول اور فطرت ہمیشہ سے موجود رہے ہیں، اپنے بنیادی، استعاراتی اور علامتی معانی کے ساتھ، نیز ماحول کو لاحق خطرات کی طرف اشارے بھی کیے جاتے رہے ہیں۔ پوری دنیا کی بر بادی کا خوف بھی ادب کا موضوع بنا ہے۔
مجھے اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبے کی دعوت دی گئی تھی۔ ڈاکٹر عرشیہ جبیں اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد جنھوں نے اس اہم ترین موضوع پر یہ کانفرنس منعقد کی۔
اپنے مضمون کا اففتاحی ٹکڑا یہاں شئیر کررہا ہوں۔
"میں یہ سطور لاہور میں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں، اور لاہور ہی سے آپ سب سے مخاطب ہوں۔ لاہور، جس کے بارے میں ملکہ نورجہاں نے کہا تھا:
لاہور رابہ جان برابر خریدہ ایم
جان دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
یعنی لاہور کو ہم نے اپنی جان کے برابر قیمت دے کر خرید لیا ہے۔ ہم نے جان قربان کی، اور ایک نئی جنت خرید لی۔ یہی بہشت مثال شہر، اس وقت دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سر فہرست ہے۔ یہاں کی فضا پر سموگ نام کی ایک بلا مسلط ہے۔ دھند اور دھویں سے بنا ایک عفریت۔ اس نے اس شہر بے مثال و پرکمال میں رہنا بسنا، چلنا پھرنا، سانس لینا عذاب بنا دیا ہے۔ بلا، عفریت، اور عذاب کے الفاظ میں نے حقیقی معنوں میں استعمال کیے ہیں۔ تاہم یہ صورتِ حال صرف لاہور سے مخصوص نہیں ہے۔ پوری دنیا، کم یا زیادہ اس کی لپیٹ میں ہے۔ میر نے تو کہا تھا:
جن بلاؤں کو میر سنتے تھے
ان کو اس روزگار میں دیکھا
میر کے زمانے کی بلائیں اور تھیں۔ جنگوں سے بستیاں برباد ہوتی تھیں۔ قحط اور وبائیں آتی تھیں۔ جنگ سے، ایک بستی کی بربادی، وہاں کی آبادی کی بربادی بھی ہوا کرتی تھی۔ لوگ ہجرت پر مجبور ہوتے۔ خود میر نے لکھنؤ کا رخ کیا تھا۔ مگر ہمارے زمانے کی بلائیں اور ہیں، اور زیادہ بڑی ہیں۔ البتہ کچھ بلاؤں کو ہم نے بھی سن، پڑھ رکھا تھا، دیکھ اب رہے ہیں۔
پانچ ہزار پہلے کے رزمیہ گل گامش میں میں ایک ضمنی قصہ اُتنا پِشتم کا ہے۔ دیوتا انسانوں کے اعمال سے ناراض ہوتے ہیں تو وہ انسانوں کو سزا دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ دیوتا سیلاب عظیم بھیجتے ہیں۔ اتنا پشتم کشتی بناتا ہے اور اپنے خاندان، دوستوں اور ہر جان دار کے ایک جوڑے کو کشتی میں سوار کرکے محفوظ بناتا ہے۔ یہی کہانی، بائبل کی کتاب پیدائش میں دہرائی گئی ہے۔ اتنا پشتم کی جگہ پیغمبر نوح ہے۔ قرآن میں بھی کشتی نوح کا ذکر ہوا ہے۔ ویدک ادب میں یہی کہانی، منو اور ماتسیا مچھلی کے قصے میں ملتی ہے۔
سیلاب، بلا کی مانند، زمین کو برباد کرنے آتا ہے۔ زمین کی بربادی کا مطلب، زمین پر موجود تمام انواع کی بربادی ہے۔ ان قدیم کہانیوں میں، بربادی کا ذمہ دارانسانی اعمال ہی کو ٹھہرایا گیا ہے۔ آج سے پانچ ہزار سال پہلے، انسان اپنے اعمال سے فطرت میں کتنی مداخلت کرتا ہوگا؟ اس نے جنگلوں کو کاٹا ہوگا تاکہ ان کی لکڑی جلا کر پختہ اینٹیں تیار کرسکے۔ لیکن اس کا ملال بھی اسے تھا اور یہ خوف بھی کہ دنیا ختم ہوسکتی ہے۔
فطرت کے ایک قانون کو توڑ نے سے، وہ فطرت کے غضب کو دعوت دے سکتا ہے۔ دنیا کے خاتمے کی قدیم کہانیاں، انسان کے احساسِ جرم اور خوف کی پیدا وار کہی جاسکتی ہیں۔ لیکن، اب، انسان مجموعی طور پر احساسِ جرم سے نجات پاچکا ہے۔ احساس جرم سے نجات پانے کے لیے، اسے ایک طرف اپنی برتری، اور دوسری طرف فطرت کی تسخیر اور ترقی کے نظریات وضع کرنے پڑے ہیں، مگرا نھیں کے نتیجے میں، اسے کرہ ارض کے خاتمے کا محض خوف نہیں، حقیقی خطرہ نظر آنے لگا ہے۔
اس صدی کے آغاز میں (2000ء) امریکی ماہر حیاتیات یوجین سٹورمر(Eugene Stormer) اور ولندیزی ماہر موسمیات پال کروٹزن (Paul Crurtzen) نے پہلی بار انتھروپوسین کی اصطلاح استعمال کی۔ اس سے مراد نیا زمینی عہد ہے۔ زمینی وقت (Geological Time) کو چٹانوں کی تہوں میں تبدیلیوں کی نسبت سے ناپا جاتا ہے۔ ساڑھے گیارہ ہزار سال پہلے ہولوسین عہد کا آغاز ہوا تھا، جب برفانی عہد کا خاتمہ ہوا۔ اسے زمین پر انسان کا عہد کا بھی کہا جاتا ہے، جب انسان نے تاریخ، تہذیب، ٹیکنالوجی ایجا دکی، اور جن کے سفر کے نتیجے میں موجود دہ دنیا وجود میں آئی۔ موجودہ دنیا میں ماحولیاتی نقطہء نظر سے تبدیلیوں کا آغاز 1945ء میں ہوا، جب ایٹمی تجربے اور ایٹمی دھماکے کیے گئے۔
گویا یہی وہ سال تھا، جب ہولوسین کا خاتمہ اور انتھروپوسین کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے زمین جن تبدیلیوں سے گزری، وہ فطری تھیں، 1945ء میں جن تبدیلیوں سے زمین دوچار ہوئی، وہ انسان کی برپا کی ہوئی تھیں۔ گویا اگر ہولوسین، انسان کا عہد تھا تو انتھروپوسین، انسان ہی نہیں، پورے کرہ ارض کے خاتمے کا عہد ہوسکتا ہے، اگر فطرت کی بربادی کے اس عمل کو روکا نہ گیا، اور اس عمل کا باعث بننے والے نظریات کو تبدیل نہ کیا گیا۔ ہماری رائے میں اینتھروپوسین کا آغاز بیسویں صدی سے کہیں پہلے ہوا۔ استعماریت نے اٹھارویں اور انیسویں صدیوں میں انسانی آبادیوں کے ساتھ ماحول کو بھی کوکو نائز کرنا شروع کیا تھا۔
اب ہمارا سامنا جن بلاؤں سے ہے، ان میں گلیشئیر کے پگھلنے سے آنے والے سیلاب ہیں، زلزلے ہیں، سمندری طوفان ہیں، اوزون کی تہ کا پھٹنا، درجہ حرارت کا بڑھ جانا اور فضا کا زہریلا ہوجانا ہے۔ فطرت کے توازن کا بگڑ جانا ہے۔ ہم ان سب بلاؤں کو دیکھ رہے ہیں، ان کا نشانہ بن رہے ہیں اور بے بس ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ماحول کی بربادی کی یہ بلا، انسانوں کی پیدا کردہ ہے۔ انسانوں کا اپنا بنایا ہوا فرینکسٹائن، جو انھی پر حملہ آور ہے۔
واضح رہے کہ ماحول کی اس بربادی کے ذمہ دار تمام انسان نہیں، بلکہ وہ طبقات اور ممالک ہیں جن کے پاس طاقت اور اختیار ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا اس خوف سے کانپتی رہی کی تیسری عالمی ایٹمی جنگ چھڑی کہ چھڑی۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکی ایٹمی حملے کے بعد یہ خوف لوگوں کے لاشعور میں گھر کر گیا تھا کہ وہ شاید زمین پر آدم کی آخری نسل ہیں۔ دنیا کے خاتمے کا خوف، ٹیکنالوجی کی ترقی کے متوازی موجود رہا ہے۔ چناں چہ اس کے نتیجے میں مغرب میں، ڈسٹوپیائی فکشن لکھا گیا۔ یعنی ایسا فکشن، جس میں دنیا کو ختم ہوتے دکھایا گیا ہے، اور محض ایک شخص بچا ہے۔ میری شیلے کا دی لاسٹ میں، یوجینی زمائتن We.
آلڈس ہکسلے کا بریو نیو ورلڈ۔ جارج آرویل کا 1984۔ حوزے سارامگو کا "اندھے لوگ"، بھی ڈسٹوپیائی فکشن کی مثال ہیں۔
خود ہمارے خطے نے بھی خوف کو پیدا کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔ جب 1999ء میں بھارت اور پاکستان نے بالترتیب چھ اور سات ایٹمی دھماکے کیے۔ ان دھماکوں نے قوم پرستی کے جذبے کو کتنا بڑھایا، ہم نہیں کہہ سکتے، مگر یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ان کے نتیجے میں زمین کا سینہ دوزخ بن گیا تھا اور وہاں پانی ہی ختم نہیں ہوا، کئی انواع ہی ختم ہوگئیں۔ پاکستان میں ایک برس بعد، ضمیر نیازی نے "زمین کا نوحہ" (حسن منظر کے افسانے سے ماخوذ عنوان)کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی، جس میں ایٹمی جنگ کے خطرے اور تباہ کاری کے حوالے سے شاعری اور فکشن کا انتخاب شامل کیا گیا۔ اس کتاب کو اردو میں ماحولیاتی تنقید کی پہلی کتاب کہنا چاہیے۔ (بعد میں مولا بخش اور اورنگ زیب نیازی نے تفصیل سے لکھا)
اگرچہ ضمیر نیازی سے ایٹمی جنگ کو عمومی ترقی پسندی کے زاویے سے دیکھا تھا، یعنی دفاع اور جنگوں پر اخراجات کے نتیجے میں جنم لینے والے افلاس اور فلاکت کے بیان پر توجہ مرکوز رکھی تھی مگر اس میں کچھ ایسی کہانیاں ہیں، جن میں ماحول کی بربادی کا نوحہ بھی ملتا ہے۔ انتظار حسین کا مشہور رپورتاژ نما افسانہ "مورنامہ" اس میں شامل ہے۔ ضیا جالندھری کی نظم "عرض داشت" بھی شامل ہے جو اس انتخاب کا محرک بنی تھی۔ اس کی چند لائنیں دیکھیے:
اک بھیانک گرج اور اچانک
دھویں کے شجر
خاک سے اوج افلاک تک چھا گئے
اور زمیں کے پرخچے اڑے
بحرو بر، کوہ ودشت
آگ کے دیو ہیکل پرندوں کی صورت
خلاؤں میں گرتے ہوئے بجھ گئے
اور آدم کی اولاد کا آخری کارنامہ مکمل ہوا"