جس شہر سے اس کے باشندے ایک جذباتی تعلق(جسے Topophilia کہا جاتا ہے) محسوس نہیں کرتے، یا تو وہ باشندے اس شہر کی ثقافت ومزاج میں رچ بس نہیں سکے یا پھر شہر اپنی مخصوص شناخت سے محروم ہوگیا ہے۔
بوگدان بوگدا نووچ کے مطابق: "شہر کو سمجھنا اور شہر سے محبت کرنا لازم و ملزوم ہے۔ ہم اس شے سے محبت کرتے ہیں جو ہماری سمجھ میں آتی ہے اور اس شے سے خوف کھاتے ہیں جو ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ ("شہر اور موت" مشمولہ حسن اور سفاکی کی سرزمینیں، ترجمہ وترتیب: اجمل کمال)
سوال یہ ہے کہ شہر کو سمجھا کیسے جاتا ہے؟ اس کے جواب میں بوگدان بوگدانووچ کہتاہے کہ "شہر وجود میں آتے ہی اپنی ذات میں ایک طاقتور بالاے لسانی (supra-linguistic) تحریری نظام کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ایک بامعنی متن (ideography) جسے جدید دور کا انسان انتہائی قدیم آثار کی باقیات کی مدد سے بغیر کسی غیر معمولی دقت کے پڑھ سکتا ہے"۔
اسی سے ملتی جلتی بات اتالو کالوینو نے اپنے ناول "نایددہ شہر" میں لکھی ہے۔ "شہر اپنا ماضی بتاتا نہیں، بلکہ اسے ہاتھ کی لکیروں کی مانند لیے ہوئے ہوتا ہے۔ شہر کا ماضی گلیوں کے کونوں، کھڑکیوں کے چھجوں، زینوں کے دستی آنکڑوں، برقی قمقموں کے آہنی انٹینوں، پرچموں کے ڈنڈوں اور جملہ کنگروں، خراشوں نقشی پارچوں پر رقم ہوتا ہے۔
لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہر شخص شہر کو ایک ہی طرح سے نہیں پڑھتا۔ شہر کی قدیم و جدید عمارتیں، آثار، علامتیں ہر ایک پر جدا انداز میں کھلتی ہیں۔ شہر کو پڑھنا، دراصل شہر کی تعبیر کرنا ہوتا ہے۔ شہر کے ہر معبر کے ساتھ، شہر کی تعبیر بدل جایا کرتی ہے۔
یہ کہ شہر ایک متن ہے، جسے پڑھا جاتا ہے، اور لوگوں نے بھی یہی بات لکھی ہے۔ رولاں بارت، شہر کو پہلے ایک ڈسکورس، پھر ایک نظم کہتا ہے۔ "شہر ایک ڈسکورس ہے، اور یہ ڈسکورس حقیقت میں زبان ہے۔ شہر اپنے باسیوں کو مخاطب کرتا ہے، اور ہم اپنے شہر سے بات کرتے ہیں۔ وہ شہر جہاں ہم ہیں، جہاں ہم رہ رہے ہیں، اس کی سیر کرتے ہوئے اور اس پر نظر ڈالتے ہوئے۔
اصل مسئلہ وہ زبان ہے، جس سے شہر ہم سے مخاطب ہوتا ہے۔ یہ زبان، شہر میں رائج زبانوں سے الگ زبان ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ شہر کی ہر شے، ہر سرگرمی، ہر واقعہ لوگوں سے کچھ نہ کچھ کہتا ہے۔ اس کے کچھ نہ کچھ معانی ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں تک کوئی بات پہنچاتا ہے، اورا س کی مدد سے لوگوں سے ذاتی سطح پر ایک تعلق قائم کرتا ہے۔ (جو شخص یہ زبان نہیں سمجھتا، وہ شہر میں اجنبی رہتا ہے)۔
ظاہر ہے شہر کی یہ زبان صرف وہی سمجھتے ہیں جو ایک طرف یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہر شے، اپنے شے ہونے ہی میں ایک مقصد اور معنی کی حامل ہوتی ہے، دوسری طرف شے جس فضا میں گھری ہوتی ہے، وہ بھی بے معنی نہیں ہوتی۔ شہر میں ہر شے کا ہونا، کسی مقصد ومعنی کے تحت ہونا ہے۔ ناصر کاظمی نے بہت پہلے کہا تھا:
ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے
کبھی تم بھی سنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے
تاہم شہر کی زبان کو ہر شخص اپنے ذاتی میلان، تمدنی زندگی کے علم، اپنی صلاحیت اورشہر کے فنون کے ذوق کے مطابق ہی سمجھ پاتا ہے۔ نیز وہ شہر کو اپنے کسی چھوڑی ہوئی بستی کے ناستلجیا کی مدد سے یا خود اسی شہر سے گہرے پر جوش تعلق کی مدد سے سمجھتا ہے۔
رولاں بارت شہر کو ایک نظم بھی کہتا ہے۔ لیکن کلاسیکی نظم نہیں، جو ایک موضوع پر مرکوز ہوتی ہے۔ شہر ایک نظم کے طور پر کسی ایک مخصوص موضوع، مسئلے، سوال، شناخت پر مرکوز نہیں رہتا، وہ اپنی متنوع ہیئت اور کثیر اسالیب کا جشن مناتا ہے۔
شہر کی نظم اپنی اصوات، امیجز، پیرایہ بیان کے انوکھے تجربوں کو اہمیت دیتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ تجربے بڑے نہ ہوں، مگر یہ تخلیقی جرأت مندی، ایجاد پسندی، تنوع پسندی اور نئے پن کی جستجو کے ضرور حامل ہوتے ہیں۔ جدید شہر کا ان کے بغیر تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ علاوہ ازیں شہر کی نظم اپنے پڑھے اور سراہے کی متمنی رہتی ہے، مگر یہ قرأت وتفہیم وتحسین کا کوئی واحد، مستند کینن مہیا نہیں کرتی، نہ اس پر اصرار کرتی ہے کہ اسے کسی ایک لہجے، کسی ایک سیاق و تناظر میں پڑھا جائے۔