1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. بات وہی ”بڑے جانور“ والی ہے

بات وہی ”بڑے جانور“ والی ہے


بات وہی ”بڑے جانور“ والی ہے


مئی 2011ء میں اسامہ بن لادن کو ایک سنسنی خیز فوجی آپریشن کے ذریعے ہمارے ایبٹ آباد میں ہلاک کردینے کے بعد امریکہ اس خطے کے معاملات سے تقریباً لاتعلق ہوا نظر آرہا تھا۔ ڈونلڈٹرمپ کے وائٹ ہاﺅس پہنچ جانے کے بعد مگر صورتِ حال بدل چکی ہے۔ اس کالم میں گزشتہ دنوں سے کئی بار میں نے ان ٹھوس حوالوں کا ذکر کیا ہے جو ایک طویل وقفے کے بعد امریکی حکومت کی جنوبی ایشیاءمیں بڑھتی ہوئی دلچسپی کے واضح اشارے دے رہے تھے۔
اتوار کے دن امریکی صدر کا مشیر برائے قومی سلامتی جنرل میک ماسٹر اب افغانستان پہنچ گیا ہے۔ وہاں دو دن گزارنے کے بعد وہ پاکستان آئے گا اور راولپنڈی، اسلام آباد میں چند اہم ملاقاتوں کے بعد بھارت روانہ ہوجائے گا۔افغانستان،بھارت اور پاکستان کو نظر بظاہر امریکی انتظامیہ ایک تثلیث کی صورت ایک دوسرے سے جڑے ہوئی دیکھ رہی ہے۔ پاکستان کے لئے یہ بات اطمینان کا باعث ہونا چاہیے ۔ بھارت اگرچہ پریشان ہوجاتا ہے۔ اسے فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ امریکہ،پاک -بھارت معاملات کو سلجھانے کے لئے ”ثالثی“ کا کردار ادا کرنا شروع کردے گا اور ممکنہ ”ثالثی“ کشمیر کا ذکر کئے بغیر ممکن ہی نہیں۔امریکہ مگر ایک لطیفہ والا ”بڑا جانور“ ہے۔ اس کی مرضی ہے کہ ”بچہ دے یا انڈہ“۔
یاد رہے کہ اس ”بڑے جانور“ نے جنرل میک ماسٹر کے افغانستان پہنچنے سے محض 72گھنٹے قبل پاکستان کی افغانستان سرحد کے بالکل قریب واقع اچین کے ایک مقام پر وہ خوفناک بم گرایا جسے ”تمام بموں کی ماں“ کہا جاتا ہے۔تقریباََ جوہری ہتھیاروں جیسی مہلک قوت کے حامل اس بم کے ذریعے زمین دوز سرنگوں کے اس طویل سلسلے کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے جنہیں امریکی انتظامیہ کے بقول داعش سے جڑے عناصر افغانستان میں ایک فوجی ہیڈکوارٹر کی صورت استعمال کررہی تھی۔
اس بم کو استعمال کرنے کے ذریعے لیکن میری دانست میں ”بڑے جانور“ نے درحقیقت افغانستان،پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ اپنی ترجیحات کے حصول کے لئے اس خطے میں وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ سفارت کاری کی زبان میں ایسے رویے کو Negotiating from a Position of Strength کہا جاتا ہے۔ مختصر الفاظ میں ایک جارحانہ رویہ ہے جہاں دوسرے فریق کے پاس لیت ولعل کی گنجائش باقی نہیں رہنے دی جاتی۔
افغان میڈیا سے بات کرتے ہوئے جنرل میک ماسٹر نے پاکستان کو واضح الفاظ میں یہ تلقین بھی فرمائی کہ وہ خطے کے ممالک یعنی افغانستان اور بھارت کے ساتھ اپنے معاملات کو ”صرف سفارت کاری“ کے ذریعے سلجھائے۔ ”صرف سفارت کاری“ پر اصرار کرتے ہوئے Proxies کا ذکر بھی ہوا۔ افغانستان اور بھارت کی حکومتیں اس ذکر سے بہت خوش ہیں۔ پاکستان میں اپنے قیام کے دوران البتہ مجھے پورا یقین ہے کہ یہی جنرل کچھ ایسے کلمات بھی ادا کرے گا جو ہمیں مطمئن اور ان دونوں ممالک کو پریشان کردیں گے۔ بات وہی”بڑے جانور“ والی ہے۔
فی الوقت میرے لئے سب سے حیران کن بات البتہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیاءکا سفر شروع کرنے سے چند ہی گھنٹے قبل جنرل میک ماسٹر نے پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ٹیلی فون پر طویل گفتگو کی۔ اصولی طورپر اسے یہ فون اپنے پاکستانی ہم منصب جنرل (ریٹائرڈ) ناصر جنجوعہ کو کرنا چاہیے تھا۔مان لیتے ہیں کہ جنجوعہ صاحب،میک ماسٹر جتنے بااختیار نہیں ہیں۔ اس صورت میں ٹیلی فون پر بات چیت ہمارے آرمی چیف کے ساتھ ہونا چاہیے تھی۔ لیکن اگر امریکہ کو پاکستان میں ”سول بالادستی“ کو اجاگر کرنا مقصود تھا تو یہ گفتگو سرتاج عزیز صاحب سے ہونا چاہیے تھی۔
ناصر جنجوعہ،جنرل باجوہ اور سرتاج عزیز صاحب کو نظرانداز کرتے ہوئے اسحاق ڈار سے امریکی مشیر برائے قومی سلامتی کی براہِ راست گفتگو یہ اشارہ دیتی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنے وزیر دفاع جنرل Mattis کی تجاویز کی روشنی میں پاکستان کو معاشی حوالوں سے ”کچھ دینے“ کو تیار ہے بشرطیکہ ہم امریکہ کو افغانستان کی دلدل سے نکالنے میں کوئی ”مثبت کردار“ ادا کرنے کو تیار ہوجائیں۔ اسحاق ڈار سے ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو کے بعد ”تمام بموں کی ماں“ کو پاکستانی سرحد کے بالکل قریب پھینکا گیا ہے۔ اس مہلک ہتھیار کا پہلی بار استعمال اپنی جگہ ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ پاک، امریکہ تعلقات کے حوالے سے لیکن میری نظر میں یہ ایک اہم پیغام بھی تھا۔پاکستان کو تقریباََ بتادیا گیا ہے کہ تمہارے وزیر خزانہ کو جو کچھ بتایا گیا ہے اس پر خوب غور کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کرلو۔ دوسری صورت”ورنہ“ والی ہے جسے اچین پر بم برساکر سمجھایا گیا ہے۔
پاک، امریکہ تعلقات میں لہٰذا ایک بار پھر ”بہت اہم“ موڑ آگیاہے۔ پارلیمان میں بیٹھے ہمارے نام نہاد عوامی نمائندوں نے مگر اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔”ذرائع“ کی مہربانیوں سے ہمیں دفاعی امور اور سفارت کاری کی پیچیدگیاں سمجھانے والے ”ماہرین“ بھی اس جانب دیکھ نہیں پائے۔مجھ ایسے دو ٹکے کے رپورٹروں نے تو یہ تردد بھی نہیں کیا کہ جنرل میک ماسٹر اور اسحاق ڈار کے مابین ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو کی تفصیلات معلوم کی جائیں۔
جنرل میک ماسٹر اور اسحاق ڈار کے درمیان ہوئی یہ گفتگو اس لئے بھی بہت اہم ہے کہ آئندہ ماہ ہمارے وزیر خزانہ کو 2017-18 کا بجٹ تیار کرنا ہے۔ نواز شریف کی تیسری حکومت کا یہ آخری بجٹ ہوگا۔ جس کے بعد عام انتخابات ہوں گے۔ان سے قبل یہ حکومت یقینا بے تاب ہوگی کہ آئندہ آنے والے بجٹ کے ذریعے کچھ ایسے اقدامات کئے جائیں جنہیں عوام،حکومت کا ”تحفہ“ سمجھتے ہوئے شاداں ہوجائیں۔
حکومتی خزانے میں لیکن عوام کو ”ریلیف“ دینے کے لئے خاطر خواہ رقم ہی موجود نہیں ہے۔بجلی بنانے والوں کا گردشی قرضہ ایک بار پھر 500 ارب روپے کی خوفناک حد تک چلا گیا ہے۔ ہماری برآمدات میں پریشان کن حد تک مسلسل کمی ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔گزشتہ بجٹ میں طے کئے محاصل کے اہداف بھی حاصل نہیں ہوئے۔
حکومتیں جب ٹیکسوں اور برآمدات کی بدولت وافر رقوم حاصل نہ کرپائیں تو خسارے کے بجٹ بنانا پڑتے ہیں۔اس ”خسارے“ کو غیر ملکی امداد یا قرضے جو بھی کہہ لیجئے کی بدولت برابر کیا جاتا ہے اور آئندہ ہفتے اسحاق ڈار واشنگٹن میں عالمی بینک کے اہم لوگوں سے ملاقاتیں کررہے ہوں گے۔ان سے ملاقاتیں کرنے والے پاکستان کے ساتھ ٹھوس اور مثبت گفتگو صرف اس صورت کریں گے اگر ٹرمپ کا وائٹ ہاﺅس ہمیں ”دوست“ شمار کرے اور ہماری مدد کرنے کو تیار ہو۔
پنجابی محاورے والی ”گدھی“ ہر طرف گھومنے کے بعد ایک بار پھر ”برگد کے اسی درخت تلے“ آچکی ہے۔اس کے بعد کیا ہونا ہے اس کا اندازہ کم از کم مجھے تو ہرگز نہیں ہے۔ڈار صاحب جانیں اور عالمی بینک۔ فی الوقت اگرچہ بہت سنجیدگی سے دیکھنا یہ ہوگا کہ جنرل میک ماسٹر پاکستان میں اپنے قیام کے دوران کیا پیغام دے گا۔