پنجاب سے اتنا تعلق ضرور ہے کہ پیدائش اسی علاقے میں ہوئی، مادری زبان بھی پنجابی ہی ہے، تاہم پنجابی رسم الخط گورمکھی سے آشنائی نہیں ہے یوں حضرت بابا جی گرو نانک (م: 1539ء) اور آپ کے جانشینوں نیز برصغیر کے مسلم و غیر مسلم صوفیا کے کلام پر مشتمل عظیم پنجابی مقدس کتاب "گرنتھ صاحب" پڑھنے سے قاصر ہوں، اسے پانچویں سکھ گرو ارجن دیو (م: 1616ء) نے 1604ء میں مدون کروایا۔ گرنتھ صاحب کو پڑھنا، ایک خواہش ہے، نجانے یہ کب پوری ہو!
پنجابی زبان پر بھی مکمل عبور نہیں ہے، ہمیں تو "ہیر وارث شاہ" بھی مشکل سے سمجھ میں آتی ہے، آج ہی سوچا ہے کہ گرنتھ صاحب سے پہلے، ہیر وارث شاہ ہی پڑھ لی جائے لیکن اسے سمجھنے کے لیے اردو ترجمے سے مدد لینا ہوگی، اسی طرح پنجابی صوفی شعرا جیسے بابا فرید گنج شکر (م: 1265ء) کا کلام بھی سمجھنا خاصا دشوار لگتا ہے، ہاں خواجہ غلام فرید (م: 1901ء) کا کلام نسبتاً آسان ہے اور اسے گایا بھی بہت گیا ہے۔
بابا پٹھانے خان مرحوم نے خواجہ صاحب کا کلام بہت گایا ہے، خاص کر کافی میڈا عشق وی توں، میڈا یار وی توں..
تو بابا جی نے خاص وجد میں گائی، جسے جب بھی سنا، مزا آیا۔ فیصل آباد کے صوفی شاعر بابا بری نظامی کا پنجابی کلام نصرت فتح علی خان اور عطا اللہ عیسیٰ خیلوی نے عمدہ انداز سے گایا ہے۔ نصرت فتح علی خان نے دسویں سکھ گرو گوبند سنگھ جی (م: 1708ء) کا کلام متر پیارے نوں حال مریداں دا کہنا عقیدت کے ساتھ گایا ہے۔ شاہ حسین (م: 1599ء) اور بابا بلھے شاہ (م: 1757ء) کا پنجابی کلام بھی عام فہم ہے اور گایا بھی گیا ہے، اسی طرح باہو سلطان (م: 1691ء) اور میاں محمد بخش (م: 1907ء) کا کلام بھی آسان اور عام فہم ہے۔
پہلے برصغیر پر قابض انگریز پھر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی "مہربانی" سے پنجاب کی نسبت (پنجابی) معیوب قرار پا چکی ہے، تاہم اس سے قطع نظر، پنجاب کے صوفیا خاص کر بابا جی گرو نانک کی مذہبی ہم آہنگی اور سماجی اقدار کے فروغ کی کاوشیں ناقابلِ فراموش ہیں، ہمیں اس دھرتی کے صوفی منش بزرگوں سے عقیدت ہے، اسی سبب سے اب پنجابی ادب کو بھی پڑھنے کو بھی جی کرتا ہے۔