اس ریگ زارِ زیست کا عنصر نہیں ہوں میں
اک خواب ہوں کہیں بھی مکرر نہیں ہوں میں
اک سوچ کا ثمر ہوں جو بکھری ہوں چار سو
کہنے کو آفتاب کا منظر نہیں ہوں میں
وادی میں گونجتے ہوئے نغمے کا ساز ہوں
سر بستہ ایک راز ہوں صرصر نہیں ہوں میں
درویش کی منڈیر پہ جلتا ہوا چراغ۔۔
منزل نشاں نہیں، کوئی رہبر نہیں ہوں میں
اس شہرِ بے اماں میں وفا کی نہ تھی امید
تیرے گمان و وہم پہ ششدر نہیں ہوں میں
مقدور بھر تو یاد رکھا ہے تمہیں حضور
بھولا ہوا خیال ہوں ازبر نہیں ہوں میں