اقبال نے ”حقیقتِ منتظر“ کی ترکیب وضع کی تھی جسے وہ ”لباس مجاز“ میں دیکھنا چاہ رہے تھے۔ ان کے اس مصرعہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے خیال آیا ہے کہ Government in Waiting کو ”حکومتِ منتظر“ بھی تو کہا جاسکتا ہے۔ زبان وبیان کے اصولوں کے مطابق یہ ترکیب قابلِ قبول ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف فی الوقت ”حکومتِ منتظر“ ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ 25 جولائی2018ء کے بعد جب اس کی صورت نمایاں ہونا شروع ہوجائے گی تو عمران خان صاحب کو وزارتِ عظمیٰ ملنے کے امکانات بھی توانا تر ہونا شروع ہوجائیں گے۔ تحریک انصاف کے سربراہ کو لہذا ان دنوں ممکنہ وزیر اعظم والا رویہ اختیار کرنا ہوگا۔
بی بی سی کی زینب بداوی کوانٹرویو دیتے ہوئے لیکن وہ اس حوالے سے کافی کمزور نظر آئے۔ ان کے دشمن اور حاسدین مذکورہ انٹرویو سے خان صاحب کو ”پٹری سے اتارنے والے“ سوالوں کے جوابات میں حیران وپریشان لمحات کو سوشل میڈیا پر کلپس کی صورت پھیلارہے ہیں۔ یہ کالم لکھنے سے تھوڑی دیر قبل اپنے فون پر سوشل میڈیا کو Activate کیا تو ایسی کلپس کی بھرمار نظر ا ٓئی۔
خان صاحب کے مداحین کا اصرار رہا ہے کہ ان کے ممدوح ”نواز شریف کی مانند پرچیوں کی مدد سے“ گفتگو نہیں کرتے۔ عالمی نشریاتی اداروں کے روبرو تو ان کا اعتماد دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔ ”گوری چمڑی“ سے وہ ہرگز متاثر نہیں ہوتے۔ مشکل سے مشکل سوال کا آکسفورڈ میں پالش ہوئی انگریزی میں ترنت جواب دیتے ہیں۔ انہیں انٹرویو کرنے والے صحافی عموماََ ان کے جارحانہ انداز اور کرشمہ ساز شخصیت کے رُعب تلے پریشان ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
زینب بداوی ”گوری“ نہیں مگر لہجہ اور زبان اس کے مستند Oxbridge ہیں۔ انٹرویو اس نے بی بی سی کے مشہور Hardtalk پروگرام کے لئے کیا۔ اس پروگرام کا Format خان صاحب جیسے سیاست دان کے لئے حیران کن نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اینکر کی جانب سے انہیں شرمندہ کرنے کی دانستہ کوشش اس انٹرویو میں اگرچہ نظر نہیں آتی۔ انگریزوں کے مخصوص Understated انداز میں ٹھوس حقائق کی طلب ہوئی۔ بجائے سیدھے جوابات فراہم کرنے کے خان صاحب دائیں بائیں Divertکرنے کی کوشش کرتے نظر آئے۔ زینب نے محض آنکھوں میں وہ چمک اور ہونٹوں میں ایسی مسکراہٹ سے واضح جوابات نہ ملنے کا لطف اٹھایا جسے Knowing کہا جاتا ہے۔ عمران خان صاحب کے مداح اس انٹرویو سے یقینا شرمندہ ہوئے ہوں گے۔
میں لیکن اصرار کرتا ہوں کہ مذکورہ انٹرویو میں خان صاحب کی شرمندگی کا اصل سبب ان کا Out of Practice ہونا ہے۔ ان کی میڈیا ٹیم نے کئی برسوں سے یہ طے کررکھا ہے کہ ان کا One on One انٹرویو کسی اینکر کے لئے ریٹنگز کی شرطیہ گارنٹی فراہم کرتا ہے۔ چند مستثنیات کو چھوڑ کر اینکر خواتین وحضرات جب خان صاحب کے انٹرویو کی درخواست کرےں تو پذیرائی میں بہت دیر لگتی ہے۔ چند سفارشی ڈھونڈنا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ انٹرویو کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی ٹیم سمیت بنی گالہ پہنچے۔ وہاں کے ماحول اور Ratings کی خواہش تلے دبے اینکرخواتین وحضرات کیمرے پر ان سے مرعوب ہوئے نظر آتے ہیں۔ زینب بداوی کی طرح انہیں اپنے سوال کے جواب پر اصرار کرتے ہوئے خان صاحب کو Pin Down کرنے کی سہولت میسر نہیں ہوتی۔
برسوں سے مقامی چینلوں کو ایسے انٹرویو دیتے ہوئے خان صاحب نے فاسٹ باﺅلر والی وہ جارحیت کھودی ہے جو Hardtalk جیسے Format کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ ”حکومتِ منتظر“ کے ممکنہ سربراہ ہوتے ہوئے خان صاحب کو اب مقامی اینکر خواتین وحضرات کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے کہ وہ ان سے کھل کر سوالات پوچھنا شروع کردیں۔
25 جولائی 2018ء کے بعد خان صاحب جب وزیر اعظم بن گئے تو ابتدائی چند مہینوں تک مقامی میڈیا ان کے رُعب تلے دبے رہنے پر مجبور ہوگا۔ بحیثیت وزیر اعظم مگر خان صاحب کو ہر دوسرے تیسرے مہینے کسی غیر ملک بھی جانا ہوگا۔ دریں اثناءکئی بین الاقوامی اجتماع بھی ہونا ہیں۔ مثال کے طورپر ستمبر2018ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا شروع ہونے والا سالانہ اجتماع۔ کئی دیگر ممالک کے سربراہوں کی طرح پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد خان صاحب کا اس اجتماع سے خطاب ضروری تصور کیا جائے گا۔ خان صاحب نیویارک پہنچیں گے تو ان سے عالمی میڈیا گفتگو کرنے کو بے چین ہوگا۔ ان پر کئی مقامات پرسوالات اچھالے جائیں گے۔ خان صاحب کو اس سب کے لئے ابھی سے تیاری شروع کردینا ہوگی۔
میں ذاتی طورپر سیاست دانوں کے One on One انٹرویو سے گریز کرتا ہوں۔ میری دانست میں صحافی کو انٹرویو کے ذریعے کسی سیاست دان سے چند ٹھوس معلومات کے ضمن میں نپے تلے جوابات حاصل کرنا ہوتے ہیںتاکہ ”خبر“ بنے۔ سیاست دانوں کو سخت سوالات سے پنجابی زبان والا ”لما پا لینا“ میرا مقصد نہیں رہا۔ گزشتہ چند مہینوں میں صرف دو سیاستدانوں سے انٹرویو کئے ہیں۔ 2016ء میں آصف علی زرداری اور اس کے ایک برس بعد بلاول بھٹو زرداری۔
ان دونوں نے انٹرویو سے قبل مجھ سے ہرگز نہیں پوچھاکہ میں کیا سوالات کروں گا۔ دونوں کے ساتھ میرے انٹرویز One Go میں ہوئے اور انہیں ٹی وی پر میرے کسی سوال یا ان کے جواب کا ایک لفظ کاٹے بغیر As It Is دکھایا گیا تھا۔ خان صاحب سے مجھے ایسے انٹرویو کی کبھی توقع نہیں رہی۔ آج سے چند برس قبل لیکن ایک چینل نے مجھے Ratings کی خاطر مجبور کردیا۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ میری درخواست پر خان صاحب فوراََ تیار ہوگئے اور بہت خوش دلی سے سٹوڈیوز میں Live انٹرویو دینے تشریف لائے۔ مائیک لگاتے ہوئے لیکن انہوں نے فرمائش کی کہ میں اپنے پروگرام کے فارمیٹ کے مطابق ناظرین کی Live کال نہ لوں۔ میں نے ان کی خواہش کا احترام کیا۔ وقفے کے دوران انہوں نے اپنے فون کو دیکھتے ہوئے یہ بتاکر مجھے بہت حیران کیا کہ ان کے پاس موجود Data کے مطابق ان دنوں کس اینکر کی کیا Ratings چل رہی ہے۔
میں ان کی Ratings کے حوالے سے جمع کئے Data سے متاثر ہوا۔ دل ہی دل میں طے کرلیا کہ کنیڈی، ریگن، کلنٹن اور اوبامہ کی طرح ہمارے خان صاحب بھی ٹی وی کو اپنا پیغام پہنچانے کے لئے ایک کارآمد Tool کے طورپر استعمال کرنے کے ہنر سے خوب واقف ہیں۔
ٹیلی وژن کی مگر بدقسمتی یہ بھی ہے کہ وہ بہت جلد Overkill کا شکار ہوجاتا ہے۔ خان صاحب نے دھرنے کے دنوں میں اس میڈیم کو Over Use کیا۔ وقت بدلا تو اب زینب بداوی کے Hardtalk میں ”پھس“ ہوتے نظر آئے۔ انہیں TVمیڈم کی حرکیات کو سمجھنے کے لئے ایک بار پھر تھوڑا ہوم ورک کرنا ہوگا۔ ایسا کرتے ہوئے اگرچہ انہیں ان کلاکاروں کی ”دانش“ سے فاصلہ رکھنا ہوگا جنہوں نے ریحام خان صاحبہ کی جانب سے لکھی کتاب کے مبینہ اقتباسات کو گھر گھر پہنچادیا ہے۔ اگرچہ مقصد یہ تھا کہ ایسی ”گندی، بیہودہ اور بے بنیاد باتیں“ شائع ہی نہ ہوں۔ استرا بندر کے ہاتھ لگ جائے توزخم لگتے ہیں فائدہ ہرگز نہیں ہوتا۔