ازدواجی رشتے میں شکل و صورت اور مال و جاہ سے اہم زوجین میں امور خانہ داری اور رشتے پر پڑنے والے سماجی منفی اثرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے احساس ذمہ داری ہے۔
جہاں امور گھرداری کے حوالے سے نرم گرم حالات میں بیوی کی صلاحیتوں کا کڑا امتحان ہوتا ہے۔ وہی شوہر کا اس رشتے پر پڑنے والے منفی بیرونی دباؤ پر بطور ڈھال کردار نمایاں رہتا ہے۔
وہ ڈھال کتنی مضبوط ہے اس کا اندازہ آغاز سے ہی ہو جاتا ہے۔ وہی بچوں کی تربیت، کچن کے معاملات میں کفایت شعاری سے خاتون کتنی سگھڑ اور سمجھدار ہے۔ آغاز میں ہی پیسے خرچ کرنے پر اس کی تربیت منفی یا مثبت نکھر کر سامنے آنے لگتی ہے۔
یہ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب دونوں بجائے دوسروں کو اپنا خیر خواہ سمجھنے کے اپنے معاملات خود سے ترتیب دیں۔ اپنے معاملات کو دوسروں کے کان تک پہنچانے سے گریز رکھیں۔
درحقیقت اصل چیلنج ہمارے متنازعہ ترین مشترکہ خاندانی نظام اور لڑکی کے میکے کی ٹیوشن سنٹر والا کردار ہی نئے شادی شدہ جوڑے کے لیے اصل امتحان ہے کہ کیسے وہ ان سماجی خار دار راستوں سے گزر کر ایک بہتر خاندان کی بنیاد رکھیں۔
جب معاشرے میں الگ فیملی یونٹ کی بنیاد رکھنا معیوب اور ایک بغاوت سمجھا جاتا ہو۔