1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. پروفیسر رفعت مظہر/
  4. دُھند، اندھا دُھند

دُھند، اندھا دُھند

چمکتے دمکتے چہروں کے ساتھ لیگئے بغلیں بجا رہے ہیں اور تحریکئے نادم نادم سے کہ ڈسکہ الیکشن میں دھاندلی بھی ڈھنگ سے نہ کر سکے۔ اِس ضمنی انتخاب نے یہ ثابت کر دیا کہ اب تحریکِ انصاف کا گزارہ صرف "پھوکے فائروں " پرہے۔ ڈَسکہ میں کیا کچھ ہوااور اِس ساری گیم کے پیچھے کون تھا یہ ابھی دھند میں لپٹا ہواہے اِس لیے "یہ ُدھند یہ غبار چھَٹے تو پتہ چلے۔۔۔۔ سورج کا حال، رات کٹے تو پتہ چلے"۔

ڈَسکہ کے ضمنی انتخاب میں گولیاں چلیں، دہشت گردی ہوئی اور ہر حربہ استعمال کیا گیالیکن "جو چال بھی چلے وہ نہایت بُری چلے"۔ کیونکہ ساری انتظامی مشینری استعمال کرنے کے باوجود جب 337 پولنگ سٹیشنوں کا نتیجہ سامنے آیا تو نوازلیگ کی سیّدہ نوشین افتخار کے 97588 ووٹ نکلے اور علی اسجد ملہی کے 94541۔ صرف 23 پولنگ سٹیشن باقی تھے اور نوشین افتخار کی جیت واضح نظر آرہی تھی۔ یہ بھلا کیسے ممکن تھا کہ چاروں صوبوں کے ضمنی انتخابات میں حکومت "لَم لیٹ" ہو کر اپنے مُنہ پہ کالک مَل لیتی۔ نوشہرہ کا بائی الیکشن تحریکِ انصاف کے جبڑوں سے چھین لیا گیا۔ نوشہرہ وزیرِدفاع پرویز خٹک کا گھر ہے اور یہاں سے 2018ء کے انتخابات میں تحریکِ انصاف کا اُمیدوار ساڑھے 10 ہزار ووٹوں کے فرق سے جیتاتھا لیکن صرف اڑھائی برس بعد ضمنی الیکشن میں نوازلیگ نے یہ سیٹ چھین لی۔ جب پرویز خٹک سے وزیرِاعظم نے اِس کی وجہ پوچھی تو معصومانہ جواب آیا کہ نوازلیگ نے "سائنسی بنیادوں " پر دھاندلی کی۔ پھر بتایا گیا کہ نوازلیگ نے پورے خیبرپختونخوا سے دھاندلی کے ماہرین کو طلب کرکے اُن کے مشورے سے دھاندلی کی۔ پرویزخٹک نے یہ نہیں بتایا کہ اِن ماہرین میں سائنسدان کتنے تھے۔ شاید یہ نام صیغۂ راز میں رکھ کر پرویزخٹک آمدہ انتخابات میں اُن سے استفادہ چاہتے ہوں۔

اِس تکلیف دہ صورتِ حال میں صرف ڈسکہ کا نتیجہ باقی تھا جسے تحریکِ انصاف ہرحال میں اپنے حق میں کرنا چاہتی تھی۔ اِس لیے افراتفری میں 23 پریذائیڈنگ آفیسرز کو دُھند میں گُم کر دیاگیا۔ بات بن جاتی اگر بزرجمہر 2 غلطیاں نہ کرتے۔ پہلی یہ کہ 12 گھنٹے بعد مختلف علاقوں کے گُمشدہ پریذائیڈنگ آفیسرز کو ایک ہی وقت میں گروپ کی صورت میں ریٹرننگ آفیسر کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ اگربزرجمہر اِن پریذائیڈنگ آفیسرز کو وقفے وقفے سے پیش کرتے تو شاید "شورِقیامت" نہ اُٹھتا۔ دوسری غلطی یہ ہوئی کہ اِن گُمشدہ پریذائیڈنگ آفیسرز کے ہر پولنگ سٹیشن کا ٹرن آؤٹ75 سے 80 فیصد تک دکھایا گیا جبکہ باقی 337 پولنگ سٹیشنز کا ٹرن آؤٹ 30 سے 35 فیصد رہا۔ جس نے نا صرف شکوک وشبہات کو ہوا دی بلکہ ریٹرننگ آفیسر بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ نتائج میں ردوبدل ہواہے۔

پھرچیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں انکوائری ہوئی جس میں ڈَسکہ کا ضمنی الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے18 مارچ کو دوبارہ الیکشن کا حکم دے دیا۔ نوازلیگ اِس فیصلے کو اپنی فتح مبیں قرار دے رہی ہے جبکہ تحریکِ انصاف نے اِس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالتوں کا رُخ کر لیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ انصافیوں نے "جھُرلو" پھیرنے کی کوشش کی حالانکہ وہ اِسی جھُرلو کے خلاف میدان میں اُترے تھے۔ "ماسی مصیبتے" نے کہا ہے کہ دُھند کی وجہ سے پریذائیڈنگ آفیسر وقت پر نہیں پہنچ سکے لیکن لیگئے کہتے ہیں کہ اگر دھند تھی تو کیا موبائل فون بھی بند ہوگئے؟ ۔ یہی سوال جب آر او نے پریذائیڈنگ آفیسرز سے کیا تو کسی نے دُھند کا بہانہ بنایا اور کسی نے موبائل فون کی بیٹری ختم ہونے کا۔ ایک صاحب بولے کہ اُن کی عینک گم ہو گئی تھی اور بغیر عینک کہ اُنہیں "کَکھ" نظر نہیں آتا۔ ہم الیکشن کمیشن کو مشورہ دیں گے کہ آئندہ پولنگ عملے کا انتخاب کرتے وقت اُن کی نظر ٹیسٹ لازمی قرار دی جائے۔ یہ "ماسی مصیبتے" بھی عجیب شے ہے کہ مرکزی حکومت کی مشیرِاطلاعات سے "ترقیٔ معکوس" کرتے کرتے پنجاب حکومت کی مشیرِاطلاعات بن گئی لیکن اُسے "جعلی راجکماری" اور کنیزِاوّل، کنیزِدوم جیسے طعنوں کے سوا کچھ نہیں آتا۔ ہم تو خوش تھے کہ ہمارے "عظیم لیڈر" نے شبلی فراز جیسے شخص کو وزارتِ اطلاعات کا قلمدان سونپ کر مستحسن فیصلہ کیا۔ ہمارا خیال تھا کہ عظیم شاعر احمد فراز کے سپوت میں اخلاقیات کی فراوانی ہو گی مگر یہاں تو نشیب ہی نشیب ہے فراز کہیں نہیں۔ واقعی "ہر کہ کانِ نمک رود، نمک شود"۔

الیکشن کمیشن کا فیصلہ نوازلیگ کی جیت ہے نہ تحریکِ انصاف کی ہار بلکہ یہ سچ کی جیت ہے۔ جب نئے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی تقرری ہوئی تو عام خیال یہی تھا کہ حسبِ سابق انتخابات میں دھاندلی کا سدّ ِباب نہیں ہو سکے گا لیکن باضمیر چیف الیکشن کمشنر نے وہ کر دکھایا جس کی ہرگز توقع نہ تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں ڈَسکہ کے NA-75 کا فیصلہ پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ ایسا نہیں کہ اُنہوں نے یہ فیصلہ بیٹھے بٹھائے کر دیا بلکہ حقیقت یہ کہ اُنہوں نے الیکشن میں حصّہ لینے والے کسی بھی اُمیدوار کی باتوں پر دھیان دینے کی بجائے الیکشن کمشنر پنجاب اور اُن کے ڈپٹی الیکشن کمشنر کو انکوائری کے لیے مذکورہ حلقے میں بھیجا اور اُنہی کی رپورٹ پر یہ فیصلہ سامنے آیا۔ اِس فیصلے سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ای سی پی ابھی زندہ و متحرک ہے اور اگر اِس کی سربراہی سکندر سلطان راجہ جیسے شخص کے پاس ہو تو انتخابات میں عشروں پر پھیلی ہوئی دھاندلی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اِن انتخابات کے نتائج نے یہ بھی عیاں کر دیا کہ فی الحال "زورآور" غیرجانبدار ہو چکے کیونکہ عموماََ ہوتا یہی ہے کہ برسرِاقتدارجماعت اسٹیبلشمنٹ کے زور پر ضمنی انتخابات جیت جاتی ہے۔ یہ غیرجانبداری کب تک قائم رہتی ہے، اِس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ملکی سیاست میں اُن کا بہرحال ایک کردار ہے جس سے پیچھے ہٹنے کے لیے وہ ہرگز تیار نہیں۔ اب اُن کی طرف سے منصۂ شہود پر کیا ظاہر ہوتاہے، اِس کا انتظار کرنا ہوگا۔

NA-75 یہ بھی عیاں ہوگیا کہ انتظامیہ کی ڈور پنجاب حکومت کے ہاتھ میں تھی۔ چیف الیکشن کمشنر بار بار کمشنر، ڈپٹی کمشنر، آئی جی، آر پی اواور ڈی پی او کو کالیں کرتے رہے لیکن کسی نے اُن کی کال سننے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ ڈسکہ کی سڑکوں پر غنڈے فائرنگ کرکے لوگوں کی جانوں سے کھیلتے رہے لیکن انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ خوف اور دہشت کی اِس فضا میں ووٹر گھروں کو لوٹ گئے اور کئی پولنگ سٹیشن گھنٹوں بند رہے۔ الیکٹرانک میڈیا نے سارے مناظر لائیو دکھائے۔ اب الیکشن کمیشن نے ڈَسکہ دھاندلی کیس میں ڈپٹی کمشنر ڈسکہ، اسسٹنٹ کمشنر، ڈی پی او اور سَب ڈویژنل پولیس آفیسر کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ کمشنر اور آر پی او کو عہدوں سے ہٹانے کے بعد اُن کے خلاف کارروائی کے احکامات جاری کیے ہیں۔ الیکشن کمشنر نے پنجاب کے چیف سیکرٹری اور آئی جی کو 4 مارچ کو طلب کر لیا ہے جبکہ لاپتہ ہونے والے پریذائیڈنگ آفیسرز کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں 3 سال تک جیل بھی ہو سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے اِس دبنگ فیصلے پر تحریکِ انصاف چیں بچیں ہے حالانکہ فیصلہ آنے سے پہلے وہ ای سی پی کے ہر فیصلے پر آمنا و صدقنا کی دعویدار تھی۔ اب وزیرِاعظم کی منظوری کے بعد لاہور ہائیکورٹ میں 2 پٹیشنز دائر کی جا رہی ہیں۔ ایک پٹیشن میں ای سی پی کا NA-75 کا الیکشن کالعدم قرار دینے کا فیصلہ چیلنج کیا جائے گا جبکہ دوسری پٹیشن میں انتظامی آفیسرز کے خلاف ای سی پی کے فیصلے کو چیلنج کیا جائے گا۔ تحریکِ انصاف کا یہ فیصلہ خود اُسی کے گلے میں پڑنے والا ہے کیونکہ اِس طرح سے وہ سب کچھ بھی سامنے آجائے گا جو تاحال دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ جب انتظامی آفیسرز کی ملازمت داؤ پہ لگی ہوگی تواِن میں سے بہت سے وعدہ معاف گواہ بننے کی دوڑ میں شامل ہو جائیں گے کیونکہ یہی پاکستان کی تاریخ ہے۔