1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. پروفیسر رفعت مظہر/
  4. بلوچستان خونم خون

بلوچستان خونم خون

26 اگست کو پورے بلوچستان میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ بلوچ لبریشن آرمی نامی (بی ایل اے) کالعدم تنظیم نے اِس کی ذمہ داری قبول کرلی۔ اِس کے دہشت گرد وں نے بلوچستان کی سڑکوں پر قبضہ کیا۔ فوجی اور نیم فوجی اداروں کے کیمپوں پر حملہ کیا۔ بے گناہ لوگوں کوبسوں سے اُتارکر قتل کیا۔ ریلوے کے پُل اور گاڑیوں کوتباہ کرکے بلوچستان کاباقی ملک سے رابطہ منقطع کردیا۔ 20گھنٹوں کی اِن دہشت گردانہ کارروائی میں 54سے زائد افراد شہید ہوئے جن میں سکیورٹی فورسزکے 14جوان بھی شامل تھے۔

یہ حملے ایک طے شدہ سازش کے تحت بی ایل اے کے 150 سے زائد دہشت گردوں نے کیے۔ اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاک فوج کے جوان چومُکھی لڑائی لڑتے ہوئے نہ صرف وطنِ عزیزکی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں بلکہ بی ایل اے، بی ایل ایف، ٹی ٹی پی اور اُن جیسی دوسری دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہتے ہیں۔ سوال مگریہ ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسیوں سے کہاں چوک ہوئی جو 26اگست کواِن دہشت گردوں نے بلوچستان کوخونم خون کردیا۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق کئی دہشت گردوں کوواصل جہنم کردیا گیا۔ یہ حملہ بلوچستان کا باقی ملک سے زمینی اور ریل رابطہ ختم کرنے کے لیے کیاگیا۔ لازمۂ انسانیت سے تہی اِن دہشت گردوں نے نہتے شہریوں، خواتین اور بچوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ حیرت یہ ہے کہ انسانی حقوق کی بزعمِ خویش علمبردار خواتین، ایمان مزاری، ماہ رنگ بلوچ اور دیگر کواِن معصوموں کے خونِ ناحق پر مذمت کی توفیق کیوں نہ ہوئی اور نہ ہی لبرلز کی طرف سے افسوس کا اظہار ہوا۔ چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھانے والی یہ تنظیمیں تو کسی معمولی واقعے پرتلواریں سونت کرباہر نکل آتی ہیں لیکن اتنے بڑے سانحے پرانہوں نے چُپ کاروزہ رکھا ہوا ہے۔

اِس دہشت گردی میں تاک تاک کر پنجابیوں کونشانہ بنایا گیا۔ اُنہیں پہلے بسوں سے اُتارکر اُن کی شناخت کی گئی اور پھر شہید کردیا گیا۔ اِس سے پہلے بھی بلوچستان میں یہ دہشت گرد تنظیم پنجابیوں کوشہید کرتی رہی ہے۔ اُن کامقصد صرف پنجابیوں کو طیش دلاکر لسانی آگ کو ہوادینا ہے۔ ہم مگرصبر کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے۔ ہم صرف پاکستانی ہیں اور پاکستان ہماری دھرتی ماں۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ معصوم بلوچ اُتنے ہی محبِ وطن ہیں جتناکہ کوئی اوراِس لیے اِن دہشت گردوں کا لسانی فسادات کایہ مکروہ منصوبہ ان شاء اللہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ تحریکِ ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور بی ایل ایف سبھی پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیمیں ہیں جنہیں کیفرِکردار تک پہنچانا ہمارا اولین فرض۔

اِس دہشت گردانہ کارروائی میں خواتین نے بھی حصہ لیا جن میں ماہل بلوچ نامی تُربت یونیورسٹی کی ایل ایل بی کی 23سالہ خودکُش بمباربھی تھی۔ اِس خودکُش بمبارکا کیس ہمارے نظامِ عدل اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ فوجی کیمپ کونشانہ بنانے والی ماہل بلوچ کو 2023ء میں ہمارے سکیورٹی اداروں نے گرفتار کیاتھا۔ اُس پرالزام تھا کہ وہ خودکُش بمبارہے اور اُس سے خودکُش جیکٹ بھی برآمد ہوئی ہے۔ تب انسانی حقوق کی تنظیمیں ماہل بلوچ کے حق میں احتجاج کرتی ہوئی باہر نکل آئیں۔ اُس کی گرفتاری پرعالمی سطح پربھی مظاہرے کیے گئے لیکن سکیورٹی ادارے اپنے مؤقف پرڈٹے رہے کیونکہ اُن کے پاس ثبوت موجود تھے۔

یہ ہمارا نظامِ انصاف ہی تھاجس نے اُس خودکُش بمبارکو باعزت بَری کردیا۔ آج اُس خودکُش بمبارکو باعزت بری کرنے والے قوم کوکیا جواب دیں گے۔ پوری قوم کے لیے یہ بھی لمحۂ فکریہ ہے کہ سکیورٹی فورسزکی مختلف کارروائیوں میں ایسے دہشت گردبھی مارے گئے جنہیں"مِسنگ پرسنز" کالبادہ اوڑھایا گیا تھا۔ ہم خوداِس امرکے قائل ہیں کہ اگرکوئی شخص ملک دشمن کارروائیوں میں ملوث ہے تواُسے غائب کرنے کی بجائے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ سوال مگریہ ہے کہ ایک طرف تووہ لوگ اپنا گھربار چھوڑ کربی ایل اے میں شامل ہوگئے جبکہ دوسری طرف اُن کے عزیزواقرباء اُنہیں مسنگ پرسن قرار دے کر سڑکوں پربیٹھ گئے، اُن کی شناخت کیسے ہوگی کہ کون دہشت گردہے اور کون معصوم؟

اب ہمارے ریاستی ادارے یہ ہوشربا حقائق سامنے لارہے ہیں کہ ملک دشمن بی ایل اے دراصل سی پیک کے ترقیاتی منصوبوں کو ثبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سڑکوں اور شاہراہوں کوتباہ کرکے صوبے کی ترقی کو بربادیوں میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ یہ تنظیم 70کی دہائی میں ذوالفقارعلی بھٹوکے پہلے دَورِحکومت میں وجود میں آئی اورتب سے پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد کررہی ہے۔ صرف جنرل ضیاء الحق کے دَورمیں مذاکرات کے نتیجے میں کچھ عرصے تک یہ تنظیم پس منظرمیں چلی گئی۔

اب یہ تنظیم بھارت سے نہ صرف فنڈز حاصل کرتی ہے بلکہ بھارتی خفیہ ایجنسی "را" سے تربیت بھی حاصل کرتی ہے۔ بھارت کوسی پیک جیسا گیم چینجر منصوبہ کسی صورت قبول نہیں، بھارت سمیت دنیا کی نظریں گوادر پر ٹکی ہوئی ہیں۔ اب بی ایل اے ایک سازش کے تحت خصوصی طورپر چینی انجینئرز کو ٹارگٹ کرتی ہے۔