1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حیدر جاوید سید/
  4. سانحہ پارا چنار، شہدا کی تعداد کے حوالے سے متضاد اطلاعات

سانحہ پارا چنار، شہدا کی تعداد کے حوالے سے متضاد اطلاعات

صبح سے سفر میں تھا دوران سفر عزیزم سبحان طوری، مظہر طوری سمیت پاراچنار اور پشاور سے متعدد عزیزوں اور دوستوں نے سانحہ پارا چنار کی اطلاع دی۔ اس سانحہ کے شہدا کی تعداد 38 سے 82 تک بتائی جارہی ہے۔ بعض احباب شہدا کی تعداد 100 سے زائد بتارہے ہیں۔ شہدا میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں عجیب بات یہ ہے کہ پاراچنار سے مسافر بسوں کوچز وغیرہ کا پشاور جانے والا قافلہ سیکورٹی فورسز کی نگرانی میں منزل کی طرف رواں دواں تھا کہ قافلے پر دہشت گرد ٹوٹ پڑے۔

سوالیہ نشان اس بات پر ہے کہ قافلے کی حفاظت سیکورٹی فورسز کے اہلکار کررہے تھے لیکن دہشتگردوں نے کامل اطمینان کے ساتھ قتل عام کیا سیکورٹی فورسز کے اہلکار کیا کررہے تھے؟

گیارہ گھنٹے کا سفر کرکے کچھ دیر قبل منزل پر پہنچا ہوں اب ذرائع ابلاغ کے مختلف اداروں کی ویب سائٹس کے علاوہ نیوز ویب سائٹس پر سانحہ پارا چنار کے حوالے سے خبروں اور رپورٹس کو دیکھا۔

ایک عزیز کی فیس بک وال پر وہ ویڈیو بھی دیکھی جسمیں حملے والی جگہ پر دہشتگردوں کے ہم خیال "جہاد" مکمل ہونے پر خوشی منارہے ہیں۔

کڑوا سچ یہی ہے کہ 25 کروڑ کی آبادی والے ملک کی اکثریت دہشتگردوں کی سہولت کار ہم خیال ہے۔ آج کے المناک واقع نے سیکورٹی فورسز پر بھی سوالیہ نشان لگادیا ہے۔

بہت دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پولیس ہو کہ سیکورٹی فورسز یہ بھی اسی سماج کا حصہ ہیں سردوگرم ہی نہیں ہرچیز کے اثرات سب پر مرتب ہوتے ہیں۔

مجھے معاف کیجئے گا میں ریاست کو مجرم سمجھتا ہوں اس کی قریب ترین وجہ پچھلے ایک ماہ کے دوران دہشتگردوں کی نرسری کا درجہ رکھنے والی ایک کالعدم جماعت کے اسلام آباد اور کرم کے علاقے میں منعقدہ اجتماعات ہیں۔

ان اجتماعات میں شیعہ نسل کشی کو جہاد اسلامی کے طور پر پیش کیا گیا غلیظ ترین نعرے بازی کی گئی لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اب بھی تعزیتوں دلاسوں کے سوا کچھ نہیں ہوگا وجہ ہم میں سے ہرشخص ہی نہیں بلکہ خود ریاست کو بھی پتہ ہے۔

ہماری دانست میں پاراچنار جیسے علاقوں میں تعینات کیئے جانے والے سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کا نفسیاتی ٹیسٹ بہت ضروری ہوگیا ہے، یہی نہیں بلکہ ملک میں دہشتگردی کے خاتمے سے قبل ریاست کے مختلف اداروں میں موجود دہشتگردوں کے ہم خیالوں کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہئے۔

یہ محض فیشنی بات نہیں تلخ حقیقت ہے کہ تشدد پسندوں کے ہم خیال سرکاری اہلکاروں کے ہاتھوں متعدد افراد کا قتل ریکارڈ کا حصہ ہے ایسے میں اگر ریاست نے اپنی منجی کے نیچے ڈانگ نہ پھیری تو دہشت گردی کبھی ختم نہیں ہوگی۔

آج کے سانحہ پاراچنار کے وقت مسافر بسوں اور ویگنوں وغیرہ کی حفاظت پر مامور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کو ان کے انچارجز سمیت فوری طور پر غیر مسلح کرکے تحویل میں لیا جائے اور دیکھا جائے کہ ان اہلکاروں نے تساہل کیوں برتا۔ گو ایسا ہونے کی توقع نہیں پھر بھی عرض کرنے میں کیا امر مانع ہے کوئی بھی نہیں۔