1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. امجد عباس/
  4. الحاد کا مقدمہ

الحاد کا مقدمہ

انڈیا سے ہمارے دوست، محترم ڈاکٹر نفیس اختر صاحب سماج میں بڑھتے ہوئے الحادی رجحانات کے اسباب کی بابت لکھتے ہیں کہ الحاد کی بہت ساری وجوہات میں اہل مذہب کی فکری و عملی غلطیوں کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔

الحاد کا سب سے مضبوط مقدمہ مذہبی متون کی کسی خدا کی طرف نسبت کا اہل مذہب کی طرف سے اطمینان بخش ثبوت فراہم نہ کر پانا ہے۔

دوسرا مذہب کی تعلیمات کا عصری سماجی اقدار کے مقابلے میں Primitive اور جدید سماجی ڈھانچہ میں Irrelevant ہونا ہے۔

تیسرا مذہبی متون کے بعض بیانات کا دریافت شدہ حقائق کے برعکس ہونا۔

پہلی وجہ پر ہمارے یہاں سے جو دلائل دیے گئے وہ تین قسم کے ہیں:

اول یہ کہ اس جیسا کلام انسانوں کی طرف سے نہ پہلے کبھی پیش کیا جا سکا نہ اب پیش کیا جا سکتا ہے۔ کسی دعویٰ کی دلیل کا خود محتاجِ دلیل ہونا اسے دلیل کی صفت سے عاری کر دیتا ہے۔

دوم نبی کی صداقت ان کے دور میں دوست اور دشمن دونوں کے درمیان مسلم امر تھی اس لیے دعویٰ کے ثبوت کے لیے مدعی کا سچا ہونا ہی دلیل ہے۔ یہ دلیل دراصل دلیل نہ ہونے کا گویا اعتراف ہے۔

سوم یہ کہ قرآن میں جو حقائق بیان کیے گئے ان کی نوعیت سائنسی پیش گوئیوں جیسی ہے یعنی جو باتیں آج سائنس نے دریافت کی ہیں وہ قرآن میں چودہ، پندرہ سو سال پہلے سے مذکور ہیں، پس خدا کے علاوہ کس نے رسول کو ان حقائق سے واقف کرایا!

ذرا سے تأمل سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ساری سائنسی پیش گوئیاں مذہبی متون کی تحریف سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔

دوسری وجہ الحاد کے تعلق سے بھی ہم نے تاویل و تحریف کے ذریعہ ہی دفاعِ مذہب کا کام لیا ہے، مثلاً جدید سماجی اقدار جیسے غلامی کا خاتمہ، عورتوں کے حقوق، جمہوریت، حقوقِ اطفال وغیرہ کے متعلق جدید فہم کے نتائج کو عین مقاصد قرآن ثابت کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔

تیسری وجہ الحاد پر بحث کے متعلق ہم اب تک (Denial Mode) میں رہے ہیں۔ ازالہ کی اطمینان بخش مساعی انجام نہیں دی گئیں۔

الحاد کی ایک اور وجہ مذہبی میٹا فزکس بالخصوص مذہبی تصورِ خدا بھی ہے مگر اس کی نوعیت ذرا زیادہ پیچیدہ ابحاث کی سی ہے اس لیے اس کے مخاطب نہایت کم لوگ ہیں۔

اس معاملہ میں ہم کائنات کی علة العلل کے جیسے تیسے ثبوت فراہم کرکے انھیں کو مذہبی خدا اور مذہبی مابعد الطبیعیات کے ثبوت باور کرانے لگتے ہیں۔

اس موضوع پر اہلِ اسلام کی طرف سے بحث و تحقیق کا کوئی خاص کام اب تک نہ ہوسکا ہے۔ جو کچھ ہوا ہے وہ محض مسیحی اپالوجی کے کام کا چربہ ہے جس کی نقالی نے ہمارے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے اور زیادہ مشکلات پیدا کی ہیں۔ کاش کچھ مردانِ خدا اس فرض کفایہ کو مستقبل قریب میں کامیابی کے ساتھ انجام دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ یقیناً اللہ کسی نہ کسی سے تو اپنے دین کا کام لے گا ہی۔