دُنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس میں کوئی نہ کوئی خوبی نہ ہو اور یہ اللہ تعالیٰ کی ودیعت ہے کہ حضرتِ انسان کو کسی خاص وصف یا مجموعہ اوصاف کا حامل بنا کر دُنیا میں شرف و تکریم سے مزیّن کرکے اشرف المخلوقات قرار دے دیا۔ خونی رشتوں کی جبلّت تو محض تعارف اور پہچان ہے اور اس پہچان میں وہ صرف اپنے قبیلے اور خاندان کی حد تک محدود رہتا ہے مگر مشیتِ یزداں ہے کہ حضرتِ انسان اوصافِ حمیدہ اور فنونِ لطیفہ کی عطائی اساس پر روز افزوں ارتقائی سفر پہ گامزن رہے، چنانچہ ہمچوں نفوس زمانے کی دوڑ میں وسعتِ صحرا کے خُوگر بن کر تکیہ ایزدی پہ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں تو ذاتِ الوہیت ان کی محنت کا پاسِ خاطر محفوظ رکھ کر انہیں شہیر الاسم بنا دیتے ہیں۔ پھر دُنیا کسی خاص وصف یا کنز الاوصاف کے توسّل سے انہیں جاننے لگ جاتی ہے اور ایسی ناموری حاصل کر لیتے ہیں کہ پھر اپنے قبیلے، خاندان، اپنی ریاست کا وجہ تعارف ہو جاتے ہیں۔ محولہ بالا کیفیات کے حصار میں کشمیر لٹریرری فورم مظفر آباد، آزاد کشمیر نے ایک بہترین ریت قائم کرتے ہوئے ماہر تعلیم، معروف شاعر واحد سراج کی کتاب شعری مجموعہ روشنی ایک حادثہ ہے، کی تقریبِ پذیرائی کی پُروقار تقریب کا انعقاد خورشید نیشنل لائبریری، مظفرآباد میں کیا۔
کشمیر لٹریرری فورم نے ہمیشہ اہلِ کتاب اور اہلِ قلم کی حوصلہ افزائی فرمائی، یہ اہلِ علم کا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔ خونی جبلّتیں ہی محض رشتے نہیں ہوتے بلکہ باہمی یا انفرادی یکطرفہ تعلق بھی قائم ہو جاتے ہیں جو محبت، سچائی، تعاون، اخلاص اور بے لوثیت سے بھی قائم ہوتے ہیں، تعلق وہی بچتا ہے جو تفاہم، اعتماد و اعتبار، احترام کے باریک دھاگے کے انسلاک اور ہم آہنگی کی ڈوری سے بندھا ہو، کسی کے پاس جو کچھ ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی ودیعت اور امانت ہے کسی کا ذاتی کچھ نہیں ہے عزت، دولت، شہرت، نیک نامی، جاہ و حشمت، منصب و قلمدان و اختیار اور کرسی سائے کی مانند ہے جو بالآخر ڈھل جاتا ہے دوام کسی کو حاصل نہ ہے۔ گردشِ ایام میں جب وقت اور حالات کے تصادم کے تھپیڑے لگنے لگیں تو عافیتِ زیست اضطرار و اضطراب کی رجعت سے ایامِ زیستن غیر متوازن ہو جاتے ہیں اس وقت کام آنے والی چیز کا نام خدمت خلق ہے۔
تقریب کے میزبان، معروف شاعر، مصنف اور صدر کشمیر لٹریرری فورم احمد عطاء اللہ، سیکرٹری حکومت، معروف شاعرہ، مصنفہ، ڈاکٹر سیدہ آمنہ بہار اور معروف شاعر، مصنف پروفیسر اعجاز نعمانی، سیکرٹری کشمیر لٹریرری فورم تھے۔ پر وقار تقریب کی صدارت نامور شاعر اور ادیب احمد حسین مجاہد نے کی، صاحبِ کتاب واحد سراج، جانِ عالم، تاج الدین تاج، اور طاہر بلوچ، محمد یامین، ڈاکٹر عادل سعید، معروف شعراء کرام جن میں بیرسٹر یاسر عباس، حق نواز مغل، فرہاد احمد فگار، عبدالوحید بسمل، پروفیسر عدیل شاہ، طاہر بلوچ، تاج الدین تاج، پروفیسر آصف شاہ، ڈاکٹر فرزانہ فرخ، فراق احمد فراق، حمزہ سعید، شاکر نقوی، جنید راجپوت، اسد بلوچ سمیت ہزارہ اور کشمیر کی سیاسی، سماجی، ادبی شخصیات، طلبا و طالبات بھی رونقِ محفل تھے۔
تقریب کی نظامت کے فرائض ماہرِ نفسیات اور ریڈیو براڈ کاسٹر ماریہ ہارون نے سر انجام دئیے۔ صاحبِ کتاب واحد سراج جیسی شخصیت جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کِسی درد مند کے کام آ، کِسی ڈوُبتے کو اُچھال دے کے عین مطابق اپنی زیست خدمت خلق کے نام وقف کر رکھی ہے۔ ایبٹ آباد میں کینسر کے مریضوں، معذور افراد کے لئے خصوصی سنٹر قائم کر رکھے ہیں۔ ان کا تعلق وادی کشمیر سے ہے۔ قیامت صغریٰ زلزلہ 2005 میں انہوں نے سی ایم ایچ اور امبور ہسپتال میں بے شمار بے سہارا افراد کی دِل کھول کر مدد کی ان کی سماجی خدمات کے ساتھ ہی ان کی شاعری میں بھی وہ درد موجود ہے۔ "جو لوگ تصنیف کے درد سے آگاہ ہیں، وہ جانتے ہیں کہ کلام میں لذت اور مقبولیت پیدا نہیں ہوسکتی جب تک اس کے ایک ایک لفظ میں خونِ جگر کی چاشنی نہ ہو(حیاتِ سعدی بر صفحہ 73)"۔
"روشنی ایک حادثہ ہے "میں زبان وبیان کی چاشنی، لطف اندوزی کی گہرائی وگیرائی سے بھر پور، سلاست، فصاحت و بلاغت کی آئینہ دار ہے۔ انہوں شاعری کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ امن پسندی، آزادی، انصاف پسندی، فکری و فنی رحجانات کو نہایت دِل نشیں پیرائے میں بیان کیا۔ ان کی شاعری اطراف و اکناف میں ہونے والے تمام تغیرات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ان کی قلم سے لکھے گئے الفاظ شکستہ دِلوں کی آواز، صدائے قلب گداز ہونے کے ساتھ ہی شاعری میں ایک خوشگوار تازہ ہوا کا جھونکا اور بوئے عنبر ہے۔ وہ ذات کے نہیں حیات کا شاعر ہیں۔ انسانی محبت، وحدت بشر، امن عالم اور ترک تعصبات جیسی قدروں کا علم بردار ہیں۔ وہ اپنے اردگرد پھیلی مسموم فضا سے کبیدہ خاطر نہیں، بلکہ انہیں یقین ہے کہ ان کا کلام زہریلے اثر کو زائل کرنے کے لئے تریاق کا کام کرے گا۔
زیست کی سچی قدروں سے ان کی گہری وابستگی ہے، وہ نا امیدی کو نکال کر خوبصورت مستقبل کی صورت گری کرتے ہیں۔ "روشنی ایک حادثہ ہے" میں زندگی کے کئی رنگ و آہنگ، زاویے اور رویے موجود ہیں۔ شستہ زبانی، شیریں بیانی، ہمہ دانی مصرعوں میں روانی، عملی و ممکنہ کہانی اور شاعری کی بدولت ہمیں واحدسراج کی کاوشوں پر ناز رہے گا۔ ان کی کتاب سے چند اشعار قارئین کی نذر: بقا ہو یا ہو فنا، کچھ نہیں ہے رہنے کا، بجز خدا بخدا، کچھ نہیں ہے رہنے کا۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں: عیسیٰ کی صلیب سے، میری چھت کا شہتیر بنا، حسین پہ اٹھنے والی تلوار سے، میرے تمغے ڈال لے گئے، میری چھاگل میں، وہ پانی ہے، جو ننھے علی اصغر کو نہ مل سکا۔ ان کی کتاب کی تقریب بیرون ممالک بھی ہوچکی، انہیں اس کتاب پر کشمیر لٹریری فورم کی جانب سے احمد شمیم ایورڈ 2024ء پیش کیا گیا۔
احمد عطاء اللہ، اعجاز نعمانی اور ڈاکٹر سیدہ آمنہ بہار کی یہ کاوش قابلِ تحسین ہے کہ وادی کشمیر میں پہلی مرتبہ احمد شمیم ایورڈ 2024 کا اجراء کیا گیا۔ جس سے اہل کتاب اور قلم جن کی اس وقت میں بہت ہی کم حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، حوصلہ افزائی نہ ہونے کے باعث کتاب کو ایک لاحاصل مشق اور سستی شہرت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔