ہم "ایویں خوامخواہ" اپنے آپ کو عظیم تجزیہ نگار سمجھتے ہوئے آئی ایس پی آرکے سابقہ سربراہوں جنرل پاشا، جنرل ظہیر الاسلام اور جنرل عاصم باجوہ کے رسا ذہنوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے رہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ اِن صاحبانِ فکرونظر کی بدولت ہمیں عمران خاں جیسا ہیرا مل گیاجو "نیا پاکستان" بناکر نہ صرف ملک کی تقدیر بنا دے گابلکہ نوازلیگ اور پیپلزپارٹی جیسی سیاسی جماعتوں سے بھی نجات مل جائے گی جنہوں نے باریاں باندھی ہوئی تھیں۔ یہ حقیقت کہ لاڈلے جیسا پودااِنہی اصحاب کے ہاتھوں لگا اوراِنہی کی نرسری میں پَلابڑھا۔
حقیقت مگریہ بھی کہ اِس نخلِ نَوکو تَن آوردرخت میں ڈھالنے کاسہرا جنرل فیض حمیدکے سَر ہے۔ جنرل صاحب کے رَساذہن پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ اُنہوں نے ایک ایسا نیٹ ورک تشکیل دیاجس میں نہ صرف فوج کے متعدد اذہان شامل تھے بلکہ اعلیٰ عدلیہ کی معقول تعداد اور بکاؤ صحافی بھی اُن کی اُنگلی کے اشاروں پرناچتے رہے۔ مثالیں موجود کہ جس کسی نے رُوگردانی کی اُسے نشانِ عبرت بنادیا گیا۔ حیرت تویہ کہ بشریٰ بی بی جیسی تیزوطرار خاتون بھی اُنہی کے مشوروں پرعمل کرتی رہی۔
اِس سلسلے میں سرگوشیاں توکافی عرصے سے جاری تھیں لیکن سرِعام بات کرنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔ وہ تو اللہ بھلاکرے سیّدصاحب کاجن کے عزمِ صمیم نے سارانیٹ ورک پاش پاش کردیا۔ ہم سمجھتے تھے کہ فوج بقول شیخ رشید ستّوپی کرسوئی ہوئی ہے کیونکہ ہم خرگوش کی طرح چوکڑیاں بھرنے کے قائل تھے لیکن سیّد جنرل عاصم منیر کچھوے کی چال چلتے ہوئے اِس نیٹ ورک کے اندرتک گھُس گئے تھے۔
ویسے ہم عمران خاں پر الزامات کی بھرمار توکرتے رہتے ہیں لیکن قصور اُس کا "کَکھ" نہیں کہ بقول صدر پی ٹی آئی چودھری پرویزالٰہی فوج نے اُسے گودسے اُترنے ہی نہیں دیا اِس لیے سیاست کی اُسے خاک سمجھ آنی تھی۔ چودھری صاحب کی بات میں وزن اِس لیے ہے کہ اکتوبر 2011ء سے اُس کی وزارتِ عظمیٰ تک اور بعدازاں وہ اشاروں پرہی ناچتا رہا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اِس نیٹ ورک کے بانی تو درحقیقت بشریٰ بی بی اور فیض حمید تھے کیونکہ فیض حمیدکو بطور آئی ایس آئی چیف جو اطلاعات ملتی تھیں وہ بشریٰ بی بی کو پہنچا دی جاتی تھیں۔
بشریٰ بی بی وہ ساری اطلاعات یہ کہتے ہوئے عمران خاں تک پہنچاتی تھی کہ اُس کے مؤکلوں نے یہ سب بتایا ہے۔ جب دوچار دنوں میں وہ سب سچ ثابت ہوجاتا تھا تو عمران خاں کابشریٰ بی بی پر اعتماد اوربھی پُختہ ہوجاتا تھا۔ اُدھر بشریٰ بی بی نے اپنا ایک الگ نیٹ ورک بھی تشکیل دیاہوا تھا جس کے ایکٹو رُکن فرح گوگی اور زُلفی بخاری جیسے لوگ تھے۔ یہ نیٹ ورک ملک کو لوٹنے کے لیے تشکیل دیاگیا تھا۔
حقیقت یہ کہ بشریٰ بی بی کے نیٹ ورک میں وہ سارے نامی گرامی لوگ شامل تھے جنہوں نے عمران خاں کے گرد گھیرا تنگ کیاہوا تھا۔ وجہ اِس کی یہ کہ بُشریٰ بی بی کے "مؤکلوں"ہی کے حکم پرتقرریاں کی جاتیں اور عُہدے بانٹے جاتے۔ اِس نیٹ ورک کو فیض حمیدکی مکمل آشیرباد حاصل تھی۔ اسی نیٹ ورک نے ملک ریاض کو "پھانک" کرنے کی کوشش کی مگر ملک ریاض جیسا کائیاں شخص بھلا اُن کے قابو میں کہاں آنے والا تھا۔ اُس نے بھی بہتی گنگامیں خوب ہاتھ دھوئے۔ ہم سمجھتے ہیں عمران خاں تو قصوروار ہے ہی، بشریٰ بی بی اور فیض حمید کے نیٹ ورک کہیں بڑھ کرمجرم ہیں۔
میاں نوازشریف اِن نیٹ ورکس سے بخوبی آگاہ تھے۔ اُن سے جب بھی سوال کیاجاتا کہ لاڈلے کے سلسلے میں حکومت ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کیوں بیٹھی ہے، تو وہ مسکراتے ہوئے جواب دیتے کہ سسٹم آٹو پرلگا ہواہے انتظار کریں۔ اب بھی 15اگست کواپنی جماعت کی میٹنگ کی سربراہی کرتے ہوئے اُنہوں نے فرمایا کہ فوج جانے اور فیض حمید جانے "سانوں کی"۔ ہمارا خیال ہے کہ میاں نوازشریف صاحب اپنے بیانات میں باربار جن 5افراد کو ملک وقوم کامجرم گردانتے رہے اُن کے گرد شکنجہ کَسا جاچکا ہے۔
جنرل فیض کے نیٹ ورک کادائرہ اڈیالہ جیل، حاضر اور ریٹائرڈ فوجیوں تک پھیلاہوا تھا۔ شنید ہے کہ فیض حمید کے ساتھ 52دیگر افراد بھی فوج کی حراست میں ہیں جن میں سویلین اور فوجی، دونوں شامل ہیں۔ اڈیالہ جیل کاڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محمداکرم بھی فیض حمیدہی کا بندہ تھاجو عمران خاں کی سہولت کاری کرتے ہوئے اُن کے ہرحکم کی تعمیل کرتا رہا اور اُنہیں ہروہ "شے" پہنچاتا رہاجس کی اُنہیں ضرورت ہوتی۔ وہ اپنے موبائل فون سے نہ صرف عمران خاں اور فیض حمید کورابطے میں رکھتا بلکہ شنیدہے کہ اُس کے موبائل فون سے عمران خاں بیرونِ ملک بھی کالیں کرتے رہے۔ جب جون میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محمد اکرم کاتبادلہ ہواتو عمران خاں اِس تبادلے پر چیخ اُٹھے حالانکہ ہرجگہ روٹین میں ایساہی ہوتا ہے۔ عمران خاں مگر اپنے اِس سہولت کارکے چھِن جانے کو برداشت نہ کرتے ہوئے احتجاج پر اُتر آئے۔ اب محمداکرم نہ صرف خود گرفتار ہوچکا بلکہ اُس کے ساتھی چنداور سہولت کاربھی فوج کی تحویل میں ہیں۔
جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری کے بعدجیل میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے عمران خاں نے کہا "ہمارا اِس سے کچھ لینادینا نہیں"۔ حقیقت مگریہ کہ اِس جملے کاآدھا حصہ درست اور آدھا غلط۔ عمران خاں ساری زندگی لیتے ہی رہے دینے کاتو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کرکٹ کی تاریخ میں اُن کے دَورکے کرکٹر گواہ کہ خاں صاحب کھانے کے بہت شوقین تھے مگر کسی دوسرے کی جیب سے۔ اگرکوئی بنی گالا میں اُن سے ملاقات کے لیے آجاتا تواُسے چائے تک نہ پوچھتے۔ جو وزیرِاعظم ایوانِ وزیرِاعظم سے کراکری تک اُٹھاکر لے جائے اُس سے یہی توقع کی جاسکتی ہے۔ رہا لینے کا معاملہ توفیض حمید نے اُن کے لیے کیاکچھ نہیں کیا۔
یہ الگ بات ہے کہ فیض حمیدخود چیف آف آرمی سٹاف بننے کے چکر میں تھے۔ غالباََ فیض حمید جیسا کائیاں شخص عمران خاں کی فطرت سے بخوبی واقف تھااسی لیے جب اُس نے دیکھاکہ عمران خاں کی حکومت ڈانواں ڈول ہے تووہ چیف آف آرمی سٹاف کی کرسی کے لیے میاں نواز شریف کو قسمیں اُٹھااُٹھا کر یقین دلانے کی کوشش کرتارہا کہ اگر اُسے چیف آف آرمی سٹاف بنادیا گیاتو وہ عمران خاں کو "فِکس" کردے گا۔ جب اُس کی ایک نہ چلی اور سیّد جنرل آصف منیر چیف آف آرمی سٹاف بن گئے تووہ مستعفی ہوکر بھاگ گیا کیونکہ اُسے یقین تھا کہ اگروہ فوج میں رہاتو اُس کا کورٹ مارشل ہونا اظہرمِن الشمس۔ بات اگر یہیں پررہتی تو شاید بچت ہوجاتی لیکن وہ تو ہمہ مقتدر بننا چاہتا تھااِس لیے اُس نے گھر بیٹھ کر سازشوں کے جال بُننا شروع کر دیئے۔
جنرل فیض حمید کاخیال تھا کہ وہ اپنے گردایسی آہنی دیواریں کھڑی کرچکا ہے کہ کوئی اُس کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرأت بھی نہیں کرے گا۔ خصوصاََ جب سانحہئی 9مئی کے بعد ایک عرصے تک مقتدر حلقوں کی طرف سے گھمبیر خاموشی طاری رہی تواُس نے کھُل کھیلنا شروع کردیا۔ یہیں پروہ مار کھا گیا۔ وہ جانتا ہی نہیں تھاکہ اُس کی ریٹائرمنٹ کے فوراََ بعد ایجنسیاں متحرک ہوچکی ہیں اور اُس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھی جارہی ہے۔ اب وہ اوراُس کے ساتھی فوج کی حراست میں اپنے انجام کے منتظر ہیں۔ یقیناََ اِس نیٹ ورک کاخاتمہ اُسی صورت میں ممکن ہے جب عمران خاں سمیت نیٹ ورک کے ہررُکن کومنطقی انجام تک پہنچایا جائے۔