حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جنگ کا سا سماں ہے اور عدلیہ عمران خان کی حمایت میں سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے۔ سارے سیاسی فیصلوں کے لیے صرف ہم خیال ججز کا بنچ ہی تشکیل دیا جاتا ہے جس کی بنا پر معزز چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال کی طرف انگلیاں اُٹھنے لگی ہیں۔
گزشتہ ایک سال میں سپریم کورٹ نے 84 سیاسی کیسز سنے جن میں سے 83 کا فیصلہ تحریکِ انصاف کے حق میں آیا۔ اگر یہ فیصلے سپریم کورٹ کے مختلف ججز کے بنچز نے کیے ہوتے تو قوم یقیناََ اِن فیصلوں کو قبول کرتی لیکن یہ تمام فیصلے ہم خیال جسٹس صاحبان ہی کے عطا کردہ ہیں اِس لیے عدلیہ پر قوم کا اعتبار اُٹھ چکا۔ ویسے بھی کچھ فیصلے تو ایسے ہیں جن کے بارے میں عام لوگوں کا تاثر بھی یہی ہے کہ یہ یکطرفہ فیصلے ہیں۔
آرٹیکل 63-A کی جو تشریح چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں قائم 5 رُکنی بنچ کے 3 معزز جسٹس صاحبان نے کی اُس کو 2 جسٹس صاحبان نے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ یہ آئین کو RE-WRITE کرنے کی کوشش ہے جبکہ سپریم کورٹ کے پاس صرف آئین کی تشریح کا اختیار ہے۔ اِسی متنازع فیصلے کی بنیاد پر حمزہ شہباز سے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ چھین کر چودھری پرویز الٰہی کی جھولی میں ڈالی گئی اور وہ جوڈیشل وزیرِاعلیٰ پنجاب کہلائے۔
25 مئی 2022ء کو جب عمران خان لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کی طرف رواں دواں تھے تو اِسی سپریم کورٹ کے معزز 3 رُکنی بنچ نے حکم دیا کہ وہ ڈی چوک اسلام آباد کے بجائے ایچ نائن پارک جائیں گے۔ عمران خاں کے وکلاء نے سپریم کورٹ کو باقاعدہ یقین دہانی بھی کرائی کہ عمران خان کا لانگ مارچ ڈی چوک کے بجائے ایچ نائن پارک اسلام آباد جائے گا۔ یہ خبر جب عمران خان تک پہنچی تو اُنہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ہوا میں اُڑاتے ہوئے اپنے کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کا حکم دیا۔
کچھ کارکن ڈی چوک پہنچے اور درختوں کو آگ لگا کر افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کی جس پر پولیس نے قابو پا لیا۔ جب عمران خان 26 مئی کی صبح جلوس کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچے تو اُنہیں بتایا گیاکہ ڈی چوک خالی پڑا ہے اِس لیے اُنہوں نے ڈی چوک سے ایک کلومیٹر پہلے ہی جلوس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کو 6 دن کا ایلٹی میٹم دیا اور لوٹ گئے۔ وہ 6 دن طول پکڑتے پکڑتے 6 ماہ میں تبدیل ہوئے اور نومبر میں عمران خان نے دوبارہ لانگ مارچ کا آغاز کیا۔
یہ لانگ مارچ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت ہی عجیب تھا۔ عمران خان ہر روز زمان پارک سے نکل کر جی ٹی روڈ راولپنڈی کے کسی منتخب شہر میں پہنچتے اور تقریر کرکے لوٹ آتے البتہ کنٹینر اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جاتا۔ 2 نومبر کو وزیرآباد میں عمران خان پر حملہ ہوا جس میں وہ معمولی زخمی ہو کر شوکت خانم ہسپتال لاہور میں داخل ہوئے۔ بعد کی کہانی سبھی کو معلوم۔
26 مئی کو ہی چیف جسٹس عمرعطابندیال صاحب کی سربراہی میں 5 رُکنی بنچ نے عمران خاں کیخلاف توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کی۔ کارروائی کے آغاز میں ہی چیف جسٹس صاحب نے فرمایا کہ ہوسکتا ہے عمران خاں تک درست عدالتی حکم نہ پہنچا ہو۔ چیف صاحب نے 2 تحقیقاتی اداروں کو ایک ہفتے کے اندر تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کارروائی مؤخر کر دی۔ اُن اداروں کی رپورٹس مقررہ مدت میں سپریم کورٹ میں جمع کرا دی گئی لیکن 11 ماہ گزرنے کے باوجود توہینِ عدالت کی کارروائی تاحال مؤخر ہے۔
مثالیں اور بھی موجودجن میں عدل کا پلڑا عمران خان کی طرف جھکتا ہوا صاف نظر آتا ہے لیکن موجودہ تنازع ایسا ہے جس نے حکومت اور عدلیہ کو ایک دوسرے کے مدِمقابل لا کھڑا کیا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ میں بھی 2 گروپ واضح ہوچکے اور ہر روز ایسی خبریں سامنے آرہی ہیں جن کی بڑھتی حدت میں کسی کا بھلا نہیں ہوگا۔ صورتِ حال یہ ہے کہ حکومت ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار ہے نہ عدلیہ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اِس تصادم میں ایک دفعہ پھر ملکی فضائیں"میرے عزیز ہموطنو!" کی آواز سے گونج اُٹھیں۔
یہ تصادم پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کی تحلیل سے شروع ہو۔ آئین کی رو سے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر نئے انتخابات کرانا ضروری ہیں۔ اِن انتخابات کی تاریخ کا اعلان متعلقہ گورنر کرتا ہے لیکن نہ تو پنجاب کے گورنر صاحب نے تاریخ کا اعلان کیا اور نہ ہی کے پی کے کے گورنر صاحب نے۔ انتخابات کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے 9 رُکنی بنچ تشکیل دیا جو گھٹتے گھٹتے 5 رُکنی بنچ تک پہنچا اور فیصلہ 3 ججز کی اکثریت سے ازخود نوٹس کے حق میں آیا۔ جبکہ 2 ججز نے اِس کی مخالفت کی۔
اُنہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ وہ بنچ سے علیحدہ کیے جانے والے جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے اَزخود نوٹس کو مسترد کرتے ہیں اِس لیے یہ اَزخودنوٹس 4 ججز کی اکثریت سے مسترد کیا جاتا ہے۔ یہ جھگڑا ابھی درمیان میں ہی تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر صدر عارف علوی نے پنجاب میں نئے انتخابات کے لیے 30 اپریل کی تاریخ کا اعلان کر دیا اور الیکشن کمیشن نے الیکشن شیڈول بھی جاری کر دیا۔ اِس دوران مطلوبہ فنڈز اور الیکشن سکیورٹی عملے کی عدم دستیابی کو مدِنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر کو انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا۔
اِس اعلان کے بعد ایک دفعہ پھر 5 رُکنی بنچ تشکیل دیاگیا جس سے 2 ججز الگ ہوئے اور 3 ہم خیال ججز نے نہ صرف 14 مئی کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا بلکہ وہ انتخابی شیڈول جو صرف الیکشن کمیشن کا استحقاق ہے، اُس کا بھی اعلان کر دیا۔ اِس کے ساتھ ہی حکومت کو 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے جاری کرنے کا حکم جاری کیا۔ حکومت نے یہ بِل پارلیمنٹ کے سامنے رکھا جس نے اِسے یکسر مسترد کر دیا۔
13 اپریل کو چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں 3 رُکنی بنچ نے چیف صاحب کے چیمبر میں کیس کی سماعت کی جس میں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پارلیمنٹ نے بِل مسترد کر دیا ہے اور حکومت پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر سٹیٹ بینک کو فنڈز کے اجرا کا نہیں کہہ سکتی۔ اٹارنی جنرل کے اِس بیان کے بعد عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے قائم مقام گورنر سٹیٹ بینک کو الیکشن کمیشن کو براہِ راست فنڈز جاری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
اب یہ آئینی ماہرین ہی بتا سکتے ہیں کہ آیا سٹیٹ بینک براہِ راست فنڈز جاری کر سکتا ہے یا نہیں۔ اِس معاملے میں وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کو پیسے ملنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جب تک تمام سٹیک ہولڈرز کا اتفاق نہ ہو الیکشن کا عمل بے سود ہوگا۔ اُنہوں نے کہا "سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ اور وفاقی حکومت کو ایک طرف کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ براہِ راست تمام معاملات چلانے کا عندیہ دے رہی ہے۔ اب سپریم کورٹ ہی ملک کا بجٹ بھی پاس کر دے"۔
وزیرِداخلہ نے کہا کہ اِس دفعہ ہائیکورٹ نے الیکشن کے لیے عملہ دینے سے معذرت کر لی ہے۔ فوج نے سکیورٹی دینے سے منع تو نہیں کیا مگر واضح کر دیا ہے کہ وہ الیکشن کے لیے کتنے سکیورٹی اہلکار دے سکتی ہے۔ جس الیکشن میں فوج شامل ہو نہ عدلیہ اس الیکشن کے نتائج کو کون تسلیم کرے گا؟ پریکٹس اینڈ پروسیجر بِل کی معطلی پر رانا ثنا اللہ نے کہا کہ تمام بار ایسوسی ایشنز نے سپریم کورٹ کے اِس فیصلے کو مسترد کیا ہے۔ حتیٰ کہ تحریکِ انصاف کے حامی وکلاء نے بھی 8 رُکنی بنچ کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ جب صاف ظاہر ہورہا ہو کہ چیف جسٹس صاحب نے چُن چُن کر ججز کا 8 رُکنی بنچ تشکیل دیا ہے تو پھر اِس بنچ کے فیصلے کو کون تسلیم کرے گا۔
سنیارٹی کے لحاظ سے سینئر موسٹ ججز کو الگ کرکے 4، 5، 7، 8، 10، 11، 14، 15 نمبروں پر آنے والے جسٹس صاحبان کو اِس بنچ میں شامل کیا گیا ہے۔ جج خواہ سینئر موسٹ ہو یا جونیئر موسٹ، جج ہی ہوتا ہے اور اُس کا فیصلہ بھی آرڈر آف دی کورٹ ہوتا ہے لیکن ایسا انتخاب جس کے بارے میں ایک عامی بھی جانتا ہو کہ کیا فیصلہ آنے والا ہے اُس بنچ کے فیصلے کو کون تسلیم کرے گا۔ اِس کے علاوہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بِل کا تعلق چونکہ براہِ راست چیف جسٹس صاحب کے اختیارات سے ہے اِس لیے اِس 8 رُکنی بنچ کی سربراہی چیف صاحب کسی دوسرے سینئر جج کو دینی چاہیے تھی کیونکہ اصول اور روایت یہی ہے۔