1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. پروفیسر رفعت مظہر/
  4. لیڈر کی پکار

لیڈر کی پکار

وہ جو کہتے تھے "ڈَٹ کے کھڑا کپتان" اُنہیں نوید ہو کہ اب کپتان اپیلوں پراُتر آیا ہے۔ گزشتہ روز آئی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خاں نے نَومنتخب برطانوی وزیرِاعظم اسٹارمر سے اپیل کرتے ہوئے فرمایا "مجھے 7فٹ چوڑی اور 8فٹ لمبی موت کی کوٹھڑی میں قید رکھاگیا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جو بالعموم دہشت گردوں اور اُن لوگوں کے لیے مختص ہوتی ہے جنہیں سزائے موت سنائی گئی ہو"۔

جس وقت خاں صاحب یہ انٹرویو دے رہے تھے اُس سے پہلے وہ تُخم ملنگا اور گوند کتیرامیں چقندر کاجوس ملاکر ناشتہ فرما رہے تھے اور اِس کے ساتھ ہی دیسی گھی میں دیسی مُرغی کے انڈوں کا آملیٹ ڈبل روٹی کے ساتھ کھارہے تھے۔ اِس کے علاوہ وہ ہفتے میں 3بار دیسی بکرے اور تین بار دیسی مرغ کے گوشت کا دیسی گھی میں پکاہوا سالن نوش فرماتے ہیں۔ اُنہیں 2ماہر باورچی بطور مشقتی ملے ہوئے ہیں۔ ایک ڈاکٹر روزانہ اُن کا کھانا چیک کرتا ہے۔

خاں صاحب نے فرمایاکہ وہ ورزش سے طاقت حاصل کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خاں جیسا قدآور شخص 7فُٹ چوڑی اور 8فُٹ لمبی کوٹھڑی (جہاں اُن کا بستربھی ہے) میں ورزش کرسکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ صرف عمران خاں کے لیے 7بیرکس کو توڑکر 2بیرکس اُن کی رہائش، 2بیرکس میں اُن کی ورزش کا سامان اور باقی 3بیرکس چہل قدمی کے لیے مختص ہیں۔

ہم انہی کالموں میں اُن تمام سہولیات کاذکر کرچکے ہیں جو ہائیکورٹ میں جمع کروائی گئیں۔ اگر اِن سہولیات کو مدِنظر رکھا جائے تو پاکستان کی تاریخ میں کسی عام قیدی توکجا کسی سابق وزیرِاعظم کوبھی اتنی سہولیات میسر نہیں جتنی ہائیکورٹ کے حکم پر عمران خاں کو دی جارہی ہیں۔ اِس کے باوجود بھی وہ اپنے انٹرویو میں مظلومیت کالبادہ اوڑھے جھوٹ کی آڑھت سجائے بیٹھے ہیں۔

عمران خاں نے کہا "میری مستقل نگرانی کی جارہی ہے اور پرائیویسی جیسی ہرچیز اُدھیڑ کے رکھ دی گئی ہے"۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیامیں کوئی ایسی جیل بھی ہے جہاں قیدیوں کی مستقل نگرانی نہ کی جاتی ہو؟ کیا قیدیوں کی بھی کوئی پرائیویسی ہوتی ہے؟ جب 3بار کے منتخب وزیرِاعظم میاں نوازشریف اور محترہ مریم نوازجیل میں تھے تب تو اُن کی ویڈیوز بناکر عمران خاں کو پیش کی جاتی تھیں اور وہ اُن ویڈیوز کودیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ اب تو خاں صاحب کی جیل مینوئل کے مطابق صرف نگرانی کی جارہی ہے اور اِس نگرانی میں بھی بہت سے رخنے ہیں جن کا میں آگے چل کرذکر کروں گی۔

خاں صاحب کہتے ہیں کہ وہ تنہائی کاشکار ہیں۔ یہ کیسی تنہائی ہے جس میں محض ایک سال میں وہ 1700 افراد سے ملاقاتیں کرچکے ہیں جن میں وکلائ، سیاسی دوست، فیملی کے افراد اور میڈیا شامل ہے۔ قوم کاحافظہ اتنا کمزور نہیں کہ وہ اُس سانحے کوبھول جائے جب میاں نوازشریف نے گھبراہٹ کے عالم میں جیلر سے درخواست کی کہ اُنہیں لندن میں بسترِمرگ پہ پڑی اپنی اہلیہ محترمہ کلثوم نوازکی خیریت دریافت کرنے کے لیے کال کرنے کی اجازت دی جائے۔ جیلر کاجواب تھاکہ وزیرِاعظم (عمران خاں) کی اجازت نہیں۔ اِس کے 2گھنٹے بعد میاں نوازشریف کو محترمہ کلثوم نوازکی رحلت کی خبر سنادی گئی۔

جب سے جنرل (ر) فیض حمیدکے گرد فوج کاشکنجہ کساہے تب سے عمران خاں بہت مضطرب اور مایوس ہیں کیونکہ فیض حمیدکی موجودگی میں عمران خاں کا بیرونی دنیاسے رابطہ کبھی ٹوٹاہی نہیں۔ فیض حمیدکا خاص بندہ ڈپٹی سپریٹنڈنٹ جیل محمداکرم اور اُس کے کچھ ساتھی عمران خاں کے سہولت کار تھے۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے ذریعے عمران خاں ہروقت فیض حمیداور بشریٰ بی بی کے نہ صرف رابطے میں رہتے تھے بلکہ اُنہیں اندرکی خبریں بھی ملتی رہتی تھیں۔

سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمیدنے ملازمت کے دوران اپناایک نیٹ ورک بنایا ہواتھا جس میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجیوں کے علاوہ عدلیہ، سیاستدان اور میڈیا کے کچھ لوگ بھی شامل تھے۔ یہ نیٹ ورک فیض حمیدکی ریٹائرمنٹ کے بعدبھی فعال رہا۔ اِسی نیٹ ورک کے ذریعے فیض حمیدتک اندر کی خبریں پہنچتی رہیں جنہیں عمران خاں تک پہنچایا جاتارہا۔ فیض حمید کی گرفتاری کے فوراََ بعد عمران خاں نے رَدِعمل دیتے ہوئے کہاکہ سیاسی معاملات میں اُن کا فیض حمیدسے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اگلے ہی دن اُنہوں نے عالمِ اضطراب میں فرمادیا "جنرل فیض حمید ہمارا اثاثہ تھے اُنہیں ضائع کردیا گیا"۔

یہ توایک عامی بھی جانتا ہے کہ وزارتِ عظمیٰ کے دوران فیض حمید عمران خاں کی پُشت پرتھے۔ یہ عمران خاں کے اپنے الفاظ ہیں کہ اپوزیشن کی طرف سے آمدہ تحریکِ عدم اعتماد کوناکام کرنے کے لیے اُنہیں فیض حمید کی ضرورت تھی۔ اِسی لیے وہ جنرل باجوہ کوکہتے رہے کہ فیض حمید کو فی الحال ڈی جی آئی ایس آئی رہنے دیا جائے لیکن جنرل باجوہ نہیں مانے۔

آئی ٹی وی کے انٹرویو میں عمران خاں نے برطانوی وزیرِاعظم اسٹارمرکو مخاطب کرکے یہ بھی کہا "میں وزیرِاعظم اسٹارمر اور اُن کی کابینہ، جنہوں نے واقعی عوام کی حقیقی مرضی سے بغیرکسی انتخابی ہیراپھیری کے کامیابی حاصل کی ہے، سے کہتاہوں کہ ذرا تصور کریں کہ آپ کی یہ غالب فتح ہی چُرالی جائے۔ جہاں پارٹی کانشان ہی چھین لیاگیا ہو اور آپ کے رَہنماؤں کویا تو حراست میں لیاگیا ہویا اُنہیں اُس وقت تک ایذا دی گئی ہوجب تک یاتو وہ اپنی وفاداریاں تبدیل نہ کرلے یاپھر سرے سے سیاست کو خیرباد کہہ دے"۔

عمران خاں کی برطانوی وزیرِاعظم اسٹارمر کواِس "دردمندانہ" اپیل کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ خاں صاحب نے حقائق کونہ صرف توڑمروڑ کرپیش کرنے کی کوشش کی بلکہ اُن میں جھوٹ کی آمیزش بھی کی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں سانحہ 9مئی فوج کے خلاف ایک ایسی بغاوت تھی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ بغاوت ناکام ہوئی اور اِس کے ذمہ داروں اورحصہ لینے والوں کی پکڑدھڑ شروع ہوئی۔ اِس پکڑدھکڑ میں نہ صرف سویلین بلکہ فوج کے کچھ اعلیٰ آفیسرز بھی شامل تھے۔ کئی لوگ مفرور ہوئے جوتاحال مفرور ہی ہیں۔ اِس سانحے میں ملوث کچھ خواتین کوبھی حراست میں لیاگیا جن کی اکثریت ضمانت پررہا ہوچکی ہے۔

پارٹی کانشان اِس لیے چھین لیاگیا کہ الیکشن کمیشن کے باربار کہنے کے باوجود پارٹی انتخابات نہیں کروائے گئے اور اگر کروائے بھی گئے توجعلی۔ تحریکِ انصاف کے کسی ایسے رَہنماء کو گرفتار نہیں کیاگیا جواِس سانحے میں ملوث نہیں تھا۔ یہی نہیں بلکہ تحریکِ انصاف کے زیرِحراست رَہنماؤں کوبھی عام انتخابات میں حصہ لینے دیاگیا۔ اگر الیکشن کمیشن نے انتخابی دھاندلی کی ہوتی توپھر خیبرپختونخوا میں تحریکِ انصاف کے ارکانِ قومی وصوبائی اسمبلی کی کبھی غالب اکثریت نہ ہوتی۔ یہ وہی "پینتیس پنکچرز" والے عمران خاں ہیں جنہوں نے کبھی انتخابات کو تسلیم نہیں کیا۔