ملکی حالات جوں کے توں، بدلا کچھ بھی نہیں، وہی پکڑ دھکڑ اور وہی دھوم دھڑکا۔ ہم اپنے کالموں میں پرانی باتیں دہراتے دہراتے تھک بلکہ "ہپھ"چکے۔ اِس لیے سوچا کہ "ویہلے" بیٹھنے کی بجائے کوئی علمی وادبی کام کرتے ہیں۔ عمرِ رفتہ کو آواز دیتے ہوئے ہم نے دیوانِ غالب کھولا تو پہلی نظر ہی اِس شعر پر پڑی کہ
عجز ونیاز سے تو وہ آیا نہ روہ پر
دامن کو اُس کے آج حریفانہ کھینچئے
ہمارے نزدیک یہ شعر وزیرِاعظم میاں شہباز شریف پر فِٹ بیٹھتا ہے۔ اُنہیں وزیرِاعظم بننے کا شوق ہی بہت تھاجوکچھ لوگوں کی مہربانی سے پورا بھی ہوگیا لیکن شومئی قسمت عمران خاں نے اُنہیں ایک پَل بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ عمومی خیال تو یہی تھا کہ میاں شہباز شریف بہت دبنگ اور جذباتی شخص ہیں۔
ماضی میں وہ "گھسیٹنے" کی باتیں کرتے ہوئے مائیک گراتے رہے لیکن "دَورِ عمرانیہ" میں وہ بالکل مختلف روپ میں سامنے آئے اور اپنی وزارتِ عظمیٰ کے ایک سال میں اُنہوں نے شرافت کی ایسی "بُکل" ماری کہ دنیا حیران رہ گئی۔ یہ ایک سال گواہ ہے کہ میاں صاحب کو اپنوں کی طرف سے بھی "بُزدلی" کے طعنے ملتے رہے لیکن مجال ہے جو اُن کے کان پر جاں تک رینگی ہو۔ جب پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تو پھر اچانک میاں صاحب کی حمیت نے انگڑائی لی اور وہ عجز ونیاز کی "بُکل" اُتار کر لاڈلے کے دامن کو حریفانہ کھینچنے پر تُل گئے۔
ثبوت اُس کا یہ کہ 27 اپریل کو اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد ہمیں پُرانے میاں شہباز شریف نظر آئے۔ اُنہوں نے جذباتی خطاب کرتے ہوئے ڈائس پر زور سے ہاتھ بھی مارا، مائیک کو لرزہ بَر اندام بھی کیا اور یہ بھی فرمایا کہ اگر اُن پر توہینِ عدالت کا کیس بنتا ہے تو اِس معزز ایوان کی خاطروہ ایک نہیں ہزار مرتبہ گھر جانے کو تیار ہیں۔ شاید یہ سپریم کورٹ کے 3 رُکنی ہم خیال بنچ کے لیے لمحہ فکریہ ہوکہ پورے ایوان نے بیک زبان کہا کہ اب کوئی وزیرِاعظم "ہتھوڑے" کے زور پر گھرنہیں جائے گا۔
جب ہماری نظر غالب کے اِس شعر پر پڑی کہ
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
تو ہمیں عمران خاں یاد آئے جنہوں نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ تونئے آرمی چیف سید عاصم منیر سے ملاقات کے مشتاق ہیں لیکن اُدھر سے متواتر بیزاری کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اُنہوں نے تو صدر عارف علوی کے ذریعے بھی جنرل صاحب کو ملاقات کے لیے عرضی بھیجی لیکن نامہ بَر بھی اپنا سا مُنہ لے کے رہ گیا۔ اُنہوں نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ پتہ نہیں ملاقات سے انکار کی وجہ کیا ہے حالانکہ وجہ بلکہ وجوہات تو ایک عامی بھی جانتا ہے۔
یہ وہی محترم سیّد عاصم منیر ہیں جنہیں بطور ڈی جی آئی ایس آئی اپنے فرائضِ منصبی سے روکتے ہوئے عمران خاں نے اُن کی جگہ جنرل فیض حمید کا انتخاب کیا۔ یہ وہی حافظ سیّد عاصم منیر ہیں جنہیں چیف آف آرمی سٹاف بننے سے روکنے کے لیے عمران خاں نے ہر حربہ آزمایالیکن ناکام ہوئے۔ جب کچھ بَن نہ پڑا تو یہ الزام بھی دھر دیا کہ جنرل صاحب میاں نوازشریف کی پسند ہیں کیونکہ اُنہوں نے میاں صاحب سے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ آرمی چیف بن گئے تو عمران خاں کا "مَکو ٹھَپ" دیں گے۔ عمران خاں کا یہ الزام سرے سے بے بنیاد ہے کیونکہ میاں نوازشریف سمیت اتحادی جماعتوں نے بہت پہلے سے یہ طے کر لیا تھا کہ سنیارٹی لسٹ میں جو پہلے نمبر پر ہوگاوہی آرمی چیف بنے گا۔ اب چونکہ لاڈلے کی دال نہیں گلی اِس لیے وہ یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو
اپنی وضع بدلتے ہوئے خاں صاحب تو ہر وقت سبک سَر بننے کو تیار ہیں لیکن آگے سے کوئی اُنہیں گھاس ڈالے تو تب ناں۔ خان کا فوج سے بَس ایک ہی مطالبہ ہے کہ اُنہیں ایک دفعہ پھر گود لے کر دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیرِاعظم بنا دیا جائے لیکن فوج تو نیوٹرل ہو چکی۔
جب ہم نے غالب کا یہ شعر پڑھا کہ
تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پُرزے
دیکھنے ہم بھی گئے واں پہ تماشا نہ ہوا
تو ہمارے تصور میں 27 اپریل گھومنے لگا۔ یہ وہ دن تھا جب سپریم کورٹ کے 3 رُکنی ہم خیال بنچ نے اتحادی جماعت اور اپوزیشن کو بلا رکھا تھا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کو پنجاب میں انتخابات کے لیے 21 ارب روپے بہرصورت جمع کروانے تھے اور عدم ادائیگی کی صورت میں توہینِ عدالت کا خطرہ تھا۔ حتمی تاریخ سے ایک دن پہلے پارلیمنٹ نے حکومت کو ادائیگی سے روک دیا اور بلاول بھٹو زرداری نے جذباتی خطاب کرتے ہوئے کہا "آج بھی پارلیمنٹ اجازت دے تو پیسے دیں گے۔ تاریخ میں آئے گا کہ کیا ہم ڈرے یا کھڑے رہے"۔
اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اُن کے خیال میں پارلیمنٹ کی توہین ہوئی ہے، استحقاق مجروح ہوا ہے۔ بلاول بھٹو نے سپیکر صاحب کو مخاطب کرکے کہا "سپیکر صاحب! آپ کی ایک استحقاق کمیٹی ہے۔ اِس معاملے کو استحقاق کمیٹی میں اُٹھانا چاہیے۔ ہم نے بہت برداشت کیالیکن آخر کب تک برداشت کریں گے۔ اگر سپریم کورٹ اپنی حدود میں کام کرے اور پارلیمنٹ کو اپنی ڈومین میں کام کرنے کی اجازت ملے تو اچھا ہوگا"۔ اِس جذباتی تقریر کے بعد تو تحریکِ انصاف کے زعماءبغلیں بجا رہے تھے کہ اب تو وزیرِاعظم پر توہینِ عدالت لگے ہی لگے۔
ہوا مگر یہ کہ معزز 3 رُکنی بنچ نے بڑے سکون کے ساتھ اٹارنی جنرل اور پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کے دلائل سنے۔ اِس دوران شاہ محمود قریشی نے بلاول بھٹو کی 26 اپریل کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے معزز بنچ کو بھڑکانے کی کوشش بھی کی لیکن محترم چیف جسٹس نے اُنہیں شٹ اَپ کال دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ سیاسی معاملہ ہے اِسے سیاست تک محدود رہنے دیں۔
مذاکرات کے بارے میں چیف صاحب نے فرمایا کہ وہ حکومت اور اپوزیشن کو مذاکرات کے لیے رائے دے رہے ہیں، حکم نہیں۔ اِس تمام کارروائی کے دوران صرف چیف جسٹس صاحب ہی کے کمنٹس سامنے آتے رہے اور معزز بنچ کے دیگر 2 ارکان، محترم جسٹس اعجاز الاحسن اور محترم جسٹس منیب اختر مکمل طور پر خاموش رہے۔ اِس کے بعد عدالتی کارروائی غیرمعینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ اب قارئین خود ہی فیصلہ کر لیں کہ "پُرزے کِس کے اُڑے" حکمرانوں کے یا تحریکِ انصاف کے جس کے ہاں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔
اب چلتے چلتے مرزا غالب کا یہ شعر بھی سنتے جائیں
پنہاں تھا دامِ سخت قریب آشیان کے
اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہوئے ہم
حکومتی اتحاد اور تحریکِ انصاف نے سپریم کورٹ کی تجویز پر مذاکرات کا ڈول تو ڈالا مگر یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی کیونکہ جو دامِ سخت لاڈلے نے بچھا رکھا ہے اُس سے بچ کر نکلنا محال۔ اُنہوں نے تو پہلے دن ہی اعلان کر دیاکہ اگر حکومت عام انتخابات کے لیے اگست، ستمبر کی بات کرے تو مذاکرات کی کوئی ضرورت نہیں۔ حقیقت یہ کہ تحریکِ انصاف کی مذاکراتی کمیٹی مکمل طور پر بے بس، بے اختیار اور لاڈلے کے اشارہ ابرو کی منتظر ہے۔ اُس کے پاس "کچھ لو، کچھ دو" کا اختیار ہی نہیں۔ اِس لیے مذاکرات کی ناکامی اظہر مِن الشمس۔
مزید برآں 28 اپریل کی رات تحریکِ انصاف کے تازہ بہ تازہ صدر چودھری پرویز الٰہی کے گھر اینٹی کرپشن اور پولیس نے مشترکہ آپریشن کیا۔ اِس آپریشن کا مقصد چودھری پرویز الٰہی کی گرفتاری تھی لیکن 8 گھنٹے کے طویل آپریشن کے باوجود چودھری صاحب ہاتھ نہیں آسکے۔ اِس چھاپے کی تحریکِ انصاف کے رہنماؤں نے شدید مذمت کی اور عمران خاں نے 29 اپریل کو اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ اب دیکھتے ہیں کہ مذاکرات ہوتے ہیں یا مذاق رات۔