مسلم لیگ نوازگروپ کے میاں نوازشریف نے بالآخر 21 اکتوبر کو وطن واپسی کا اعلان کردیا۔ اُنہوں نے وطن واپسی سے قبل ہی ایسا کھڑاک کیا کہ تھرتھلی مچ گئی۔ 18 ستمبر کو ویڈیو لنک پر جماعت کے گرینڈ مشاورتی اجلاس سے 90 منٹ کے خطاب میں اُنہوں نے کہا "ہمیں انتقام کی کوئی خواہش نہیں، کسی بدلے کی تمنا نہیں لیکن پاکستان کو یہ بُرے دن دکھانے والوں کا احتساب ضرور ہوگا۔ مٹی پاؤ نہیں چلے گا، یہ مٹی پاؤ والا معاملہ نہیں"۔
اپنے تیسرے دَور کے حوالے سے میاں صاحب نے کہا "4 جج بیٹھ کر کروڑوں عوام کے مینڈیٹ والے وزیرِاعظم کو گھر بھیج دیتے ہیں۔ اِس کے پیچھے جنرل باجوہ اور جنرل فیض تھے۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے آلہ کار ثاقب نثار اور آصف کھوسہ تھے"۔ لندن کے مشاورتی اجلاس میں اُنہوں نے ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ کے ساتھ عظمت سعید کو بھی پاکستان کا مجرم قراردیا۔ حقیت مگر یہ کہ سپریم کورٹ میں پاناماکیس کے حوالے سے تشکیل پانے والا پورا 5 رُکنی بنچ ہی پاکستان کا مجرم ہے کیونکہ وقت نے ثابت کردیا کہ میاں نوازشریف کی نااہلی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کا نتیجہ تھی۔ میاں صاحب شاید بھول گئے لیکن قوم نہیں بھولی کہ میاں صاحب کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ سابق چیف جسٹس عمرعطابندیال کے قلم سے لکھا گیاتھا۔
میاں صاحب نے احتساب کااعلان تو کردیا مگر یہ احتساب کرے گاکون؟ ہم تو پرویزمشرف جیسے آمر کو ایوانِ صدر سے رخصتی پر گارڈ آف آنر بھی پیش کرتے ہیں اور مجبوری کے عالم میں اُسے بیرونِ ملک بھی بھیج دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ درازرسی والے رَبِ لم یزل نے اُسے نشانِ عبرت بنادیا۔ اب البتہ اُمید کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں کیونکہ پاک فوج کی سربراہی ایک سیّد کے پاس ہے اور بلاامتیاز کڑا احتساب اُن کا اعلان۔ سانحہ 9 مئی کے بعد فوج نے اپنے کئی اعلیٰ آفیسرز کے خلاف کارروائی کی جس کا DGISPR نے پریس کانفرنس میں اعلان بھی کیا۔ اِن آفیسرز کا احتساب اُس وقت ہوا جب سانحے میں ملوث لگ بھگ 120 سویلینز آرمی ایکٹ کے تحت فوج کے حوالے کیے جا چکے تھے۔ اِن ملزمان کے خلاف تاحال کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی کیونکہ کیس سپریم کورٹ میں ہے جس کے فیصلے کا انتظار۔ جنرل صاحب اِس وقت چومُکھی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ایک طرف پاک فوج ایک دفعہ پھر
سَراُٹھاتی دہشت گردی کی سرکوبی کے لیے لازوال قربانیاں دے رہی ہے تو دوسری طرف جنرل صاحب معاشی بہتری کے لیے تاجروں کے ساتھ میٹنگز کرکے اُن کی حوصلہ افزائی فرمارہے ہیں۔ یہ کڑاوقت قومی یکجہتی کاہے، تنقیدوتعریض کا نہیں۔ اِس لیے جو شخص بھی مادرِوطن کی عظمت کی خاطر تگ ودَوکرے اُس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
آجکل عدل کے اونچے ایوانوں سے بادِنسیم وشمیم کے جھونکے آرہے ہیں۔ اُمیدوں کی کلیاں کھِل رہی ہیں اور آشاؤں کے دیپ جل اُٹھے ہیں۔ وجہ یہ کہ اب میزانِ عدل اُس قاضی کے ہاتھ میں ہے جس کے نزدیک اوّلیت صرف اور صرف آئین کوحاصل ہے۔ اشرافیہ نے تو آئین کو دَرکی لونڈی، گھر کی باندی بنا رکھاتھا اور ایک آمر کے نزدیک تو آئین سوصفحے کی فضول سی کتاب تھی لیکن اب اُمید ہوچلی ہے کہ فیصلے آئین وقانون کے مطابق ہوں گے۔
بدقسمتی سے صرف جسٹس منیر نے ہی نظریہئی ضرورت نہیں گھڑا، جسٹس عمرعطابندیال نے تو کسی کے عشق میں آئین ہی Re-Wrire کرڈالا لیکن چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے 17 ستمبر کو حلف اُٹھاتے ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر بِل پر سپریم کورٹ کا فُل بنچ بنادیا۔ سابق چیف جسٹس عمرعطابندیال کو وکلاء برادری اور حکومت نے متعدد مرتبہ فُل کورٹ کی درخواست دی لیکن بندیال صاحب کی طرف سے صرف انکار۔ وجہ یہ کہ بندیال صاحب ہم خیال بنچ بناکر ایک سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچانا چاہتے تھے۔ اب قوم کو اُمید ہو چلی ہے کہ دینِ مبیں کے عین مطابق "انصاف بلاامتیاز" ہوگا۔
18 ستمبر کو سپریم کورٹ کا نہ صرف فُل کورٹ بنا بلکہ چیف جسٹس صاحب کے حکم پر کارروائی کی لائیو کوریج بھی ہوئی۔ اُس دن پوری قوم کی نظریں ٹی وی سکرینوں پر جم گئیں کیونکہ پاکستان کی تاریخِ عدل میں پہلی بار کسی کیس کی لائیوکوریج ہورہی تھی۔ اِس لائیوکوریج کا فائدہ یہ ہوا کہ قوم نے وہ سب کچھ آنکھوں سے دیکھا، کانوں سے سُنا جو میڈیا رپورٹرز کی موشگافیوں اور قلابازیوں سے پاک تھا۔ کارروائی کے دوران اُن وکلاء کی اہلیت کا پول بھی کھُل گیا جو پریکٹس اینڈ پروسیجربِل کے خلاف سَردھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے۔ ایک وکیل نے تو یہاں تک کہہ دیا "اگر آپ میراتمسخر اُڑائیں گے تو میں دلائل نہیں دوں گا"۔
اُن کا تمسخر تو خیر کسی نے نہیں اُڑایاالبتہ جسٹس صاحبان کے سوالات کے جواب میں وہ آئیں بائیں شائیں ہی کرتے رہے۔ اب اِس کیس کی کارروائی 3 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی ہے اور چیف جسٹس صاحب نے یہ بھی فرما دیاہے کہ پریکٹس اینڈپروسیجر بِل کے فیصلے تک حساس مقدمات کی سماعت نہیں ہوگی۔ اگر اس کیس کو ناقابلِ سماعت قرار دے دیا جاتاہے تو پھر کیس کی معطلی سے لے کر 16 ستمبر تک "بندیالی کورٹ" کے تمام فیصلے خودبخود کالعدم قرار پائیں گے کیونکہ اِس بِل کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور 2 سینئرترین جسٹس صاحبان کی کمیٹی ہی اَزخودنوٹس اور بنچوں کی تشکیل کا فیصلہ کر سکتی ہے جبکہ بندیال صاحب نے کوئی بنچ بھی دیگر 2 سینئرجسٹس صاحبان کی مشاورت سے تشکیل نہیں دیا۔
عدلیہ کی تاریخ میں ایک دھماکہ 21 ستمبر کو اُس وقت ہوا جب فیض آباد دھرناکیس فیصلے کے خلاف نظرِثانی درخواستوں کی 28 ستمبر کو سماعت کا اعلان ہوا۔ اب چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین اور جسٹس اطہرمِن اللہ پر مشتمل بنچ یہ نظرِثانی کیس سُنے گا۔ 6 فروری 2019ء کو جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائیزعیسیٰ پر مشتمل 2 رُکنی بنچ نے کھلی عدالت میں فیض آباد دھرناکیس کا فیصلہ جاری کیا۔ 43 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قلم بندکیا۔
عدالت نے تحریکِ لبیک پاکستان کی جانب سے فیض آبادانٹرچینج پر دیئے گئے دھرنے کے خلاف فیصلہ جاری کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان، وزارتِ دفاع اور مسلح افواج کے سربراہان کو اپنے اپنے ماتحت افسران کے خلاف قانونی کاروائی کا اِس بنیاد پر حکم دیاتھا کہ اِن ماتحت افسران نے اپنے حلف سے روگردانی کی ہے۔ فیصلے میں پی ٹی آئی اور ایم کیوایم کے خلاف آبزرویشن دیتے ہوئے لکھا گیاکہ سانحہ 12 مئی پر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہ کرنے سے تشدد کے ذریعے ایجنڈے کے حصول کی حوصلہ افزائی ہوئی اور ملوث حکومتی افراد کے خلاف کارروائی نہ کرنے سے بُری مثال ہوئی۔
15 اپریل 2019ء کو وزارتِ داخلہ، دفاع، پیمرا، آئی بی، تحریکِ انصاف، ایم کیوایم اور شیخ رشیدکی جانب سے نظرِثانی کی درخواستیں دائرہوئیں۔ اِسی فیصلے کے اجراء کے بعد وزیرِاعظم عمران خاں نے قاضی صاحب کے خلاف ایک جھوٹا اور بے بنیاد ریفرنس عارف علوی کوبھیجا جسے اُنہوں نے جائزہ لیے بغیر ہی سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوادیا جس نے قاضی صاحب کو بے گناہ قراردیا۔ اب اِسی نظرِثانی پر 28 ستمبر 2023ء کو شنوائی ہوگی۔