زندہ دلان شہر لاہور میں تقریبات کا اہتمام اچھنبا نہیں۔ لیکن بیک وقت عمدہ اور دلچسپ کتب کی تقریب رونمائی اور وہ بھی مشاعرہ کے "تڑکے" کے بغیر، کا اہتمام توجہ کھینچتا ہے۔ صورت آمد و رفت بھی ایسی کہ شہر کا رستہ کھدائی کی نذر ہو اور منتظمین پکارتے ہوں کہ کھدائی سے برآمد شدہ انھی پتھروں پہ چل کر تشریف لائیے۔
ہفتہ کے دن پلاک کے بند گیٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے ذیلی سڑک پر کھلے گیٹ سے داخل ہوتے وقت یقین ہوا کہ ہر بند دروازہ حرف آخر نہیں ہوتا۔ تمام بند دروازوں کے ساتھ ہی کھلے دروازے بھی موجود ہوتے ہیں اور وہ صرف کامیابی کو دکھائی دیتے ہیں۔ قصہ ہے دو اہم شخصیات کی کتابوں کی تقریب رونمائی کا۔ گویا دو تلواریں ایک نیام میں جگمگا رہی تھیں اور عوام مشکل میں کہ ایک تیر سے دو شکار کیسے کیے جائیں۔ نسیم شاہد کی "مسافتوں کی تھکن" اور بینا گوئیندی کی "فضائی آلودگی" کی تقریب جہاں ادبی میلا لگا ہوا تھا۔
چونکہ فضائی آلودگی اور مسافتوں کی تھکن کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ نہ صرف ان کا orbit ایک ہے۔ بلکہ بنیاد میں بے وجہ شناسائی کے رنگ بھی بھرے ہیں۔ صورت تصویر سے سیرت تصویر کے دھاگوں سے ڈیزائن میں بھی یکسانیت ہے۔ عام طور پر کہیں مسافتوں کی تھکن فضائی آلودگی کا باعث بنتی ہے اور کہیں تو فضائی آلودگی مسافت کی تھکن میں اضافہ کر سکتی ہے اور کرتی ہے۔
ملتان سے ادبی محفلوں کو تسخیر کرنے نسیم شاہد نے مظفر گڑھ میں کامیاب تقریب کے بعد لاہور کا رخ کیا۔ صوفی تبسم اکیڈمی کی تقریب میں بھر پور اور کامیاب نظامت کے جھنڈے گاڑے اور مذید ستائش کے لیے بینا کی ادبی تنظیم گھروندہ نے اس تقریب کا اہتمام کیا۔ وہ نسیم شاہد جسے خورشید بیگ میلسی نے "سخن کا خورشید ضوفشاں" کہا ہے اور مجیب الرحمن شامی دور حاضر کا زندہ ولی قرار دیتے ہیں۔ نسیم شاہد کی واکاں شاکاں سے یقین ہوتا ہے کہ ان کی ولایت طویل زندگی پائے گی۔ نسیم شاہد شاعری کو واردات قلبی کی دین سمجھتے ہیں۔ ویسے تو کئی لوگ واردات قلبی کو "دین" بھی سمجھتے ہیں اور ہر قدم ایمان تازہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
"مسافتوں کی تھکن" کا انتساب محبت کرنے والوں کے نام ہے۔ ظاہر ہے یہ تھکن انھی کا مقدر ہے۔ نسیم شاہد لکھتے ہیں۔ "جب تمام تر ترقی و سائنسی ایجادات کے باوجود یورپ اور امریکہ میں ادب و شاعری زندہ رہ سکتی ہے تو ہمارے ہاں کون سے ایسے عجائبات آ گئے ہیں کہ جنھوں نے انسان کے جذبوں اور محسوسات کو ختم کر دیا ہو"۔ ویسے تقریب میں انھوں نے اسے "موت پڑنا" سے تشبیہ دی تھی کہ ہمارے ہاں نفرتوں کو پانی دینے کا رواج کیوں ہے۔ محبت و خلوص کو پروان چڑھانے میں ہمیں کیوں موت پڑتی ہے۔
اپنی ولایت کے ثبوت میں نسیم شاہد نے جب وقت تہجد پیغامات کے تبادلے کا ذکر کیا تو شاہد رضا نے انھیں مبارک باد دی کہ آپ خوش قسمت ہیں ورنہ اسی شبھ گھڑی خلیل الرحمٰن قمر باغ میں پکڑے گئے تھے۔ محترم طحہ قریشی نے بھی یاد دلوایا کہ اگرچہ نسیم شاہد کی محبت بھی انگریز کے زمانے کی ہے۔ لیکن واکاں، شاکاں اور ٹاکاں نے اسے جوان رکھا ہوا ہے۔ ڈاکٹر نجیب جمال نے اپنے شائستہ میٹھے انداز میں خطاب کیا اور زمانہ طالب علمی میں بھی اپنے شاگرد عزیز کی بے ساختگی اور شاعرانہ صلاحیتوں کی گواہی دی۔ ایک استاد کی طرف سے اور وہ وہ بھی ڈاکٹر نجیب جمال جیسے کہنہ مشق استاد کی طرف سے مستند ستائش سرمایہ حیات ہوتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے دور حاضر میں شاعری میں تجارتی رحجان کی طرف بھی اشارہ کیا۔ انھوں نے کہا "نسیم شاہد سکہ بند تجربات سے ہٹ کر شاعرانہ اظہار پر اصرار کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے لگے بندھے تصورات کو ذرا سی الٹی سیدھی تاجرانہ چالاکی سے استعمال میں کا کر شعر کا چہرہ مسخ ہو سکتا ہے۔ شعر تو ایک طرح کی سرتابی ہے۔ چیزوں کو بے نقاب اپنی معصوم اصلیت میں دیکھنے کی سعی ہے"۔
اس تاجرانہ روش کی تشریح نسیم شاہد نے یوں کی کہ یہ وہ مصالحہ ہے جس کا استعمال شاعری کو فی زمانا منفرد اور مقبول بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ تجارتی رویوں نے خالص انسانی اقدار پر ضرب لگائی ہے اور تمام احساسات تڑخنے لگے ہیں۔ جو معاشرت کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کا ذکر نسیم شاہد نے جدید غزل میں کیا ہے۔ جہاں جدید apps تلمیحات کے ذریعہ ایک محاذ سجائے بیٹھی ہیں۔
جو کہنا تھا مجھے ان بوکس کرتے
سٹیٹس میں کیوں تم نے لکھ دیا ہے
نسیم شاہد خالص پاکستانی ہیں۔ حب الوطنی کے امانت دار ہیں۔ ماہر تعلیم اور کالم نگار تو ہیں ہی۔ دلچسپ جملہ سازی پر مبنی نظامت اضافی خوبی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ وطن عزیز اور سماجی رویوں کے حوالے سے اپنے پر فکر احساسات کو چلبلے انداز میں نہاں رکھنے میں مہارت رکھتے ہیں۔
نسیم شاہد کی شاعری میں گل و بلبل کے قصے بھی ہیں۔
وہ شخص کتنے حوالوں سے ہے مرے دل میں
یہ عمر گزری ہے اس کو شمار کرتے ہوئے
میں گر کے ٹوٹ نہ جاتا، سنبھل گیا ہوتا
مرے دھیان سے گر تو نکل گیا ہوتا
دکان عشق میں ہر شے کی اپنی قیمت تھی
اے کاش آنکھ نہ جاتی، یہ دل گیا ہوتا
بینا گوئیندی کی "فضائی آلودگی" پر بھی بات ہوئی۔ بینا چونکہ ماہر نباتات ہے۔ اس نے دور حاضر کےسماجی اثرات پر اثر انداز ہونے والے ایک اہم موضوع پر بات کی ہے۔ فضائی آلودگی انسانی مداخلت اور قدرتی مظاہر دونوں کی وجہ ہے اور فطرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہے۔ ڈاکٹر صائمہ ارم نے بھر پور ادبی اور فلسفیانہ انداز میں دلائل پیش کیے کہ تعمیرات کے کسی بھی معمولی ردو بدل کے نتیجہ میں وسیع تر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ توازن صرف معاشرت کی ساخت کا نہیں، روحانی مسافت کا بھی المیہ ہے۔
ایک نعمت ہے یہی، ایک قیامت بھی یہی
روح کا جاگنا اور آنکھ کا بینا ہونا
تقریب کا حسن یہ تھا کہ بیک وقت دونوں کتابوں پر بات سے نہ تو کسی نے اسے اپنی توہین سمجھا اور نہ ہی ناراضی کا ذکر ہوا۔ ہر طرح کی زود رنجی سے شفاف تقریب میں عدیل برکی کی آواز نے سماں باندھ دیا اور نسیم شاہد کی تقریر نے شدومد سے تمام تر اعتراضات مسترد کرتے ہوئے پر زور دلائل سے سب کے چہروں پر بشاشت بکھیر دی۔