چین اور پاکستان کے مابین سی پیک منصوبے کی اصل بنیاد پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں رکھی گئی۔ تفصیلات اگست 2014 میں دونوں حکومتوں کے مابین طے ہوئیں اور ان پر باقاعدہ دستخط ستمبر کے مہینے میں چینی صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر ہونے تھے۔ یہی وہ وقت تھا کہ سی پیک سے متعلق میاں نوازشریف کی حکومت کے کرتوتوں کا راستہ روکا جاتا۔ اسی عرصے میں جیو نیوز اور جنگ کے ’’جرگہ‘‘ میں اس طالب علم نے سی پیک کو موضوع بحث بنایا اور مغربی روٹ کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ نوازشریف حکومت معاملات کو پردے میں رکھ کر اور تمام پروجیکٹس کا رخ ایک مخصوص علاقے کی طرف موڑ کر سی پیک کو متنازع بنارہی ہے۔ اسی وجہ سے میں میاں نوازشریف صاحب اور احسن اقبال صاحب کی نظروں میں دشمن بن گیا اور وفاقی وزراء تک چینی دوستوں کو یہ کہہ کر میرے خلاف ورغلاتے رہے کہ میں نعوذباللہ انڈین لابی کے ایما پر سی پیک کے حوالے سے حکومتی رویے پر تنقید کررہا ہوں۔ 9 دسمبر 2014ء کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونیوالے کالم میں عرض کیا کہ ’’چند ماہ قبل جب مجھے اصل منصوبے میں اس مجوزہ تبدیلی کا علم ہوا تو میں نے اسے بالواسطہ عمران خان صاحب اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک صاحب کے کانوں تک پہنچایا لیکن افسوس کہ انہوں نے پختونخوا اور بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کیساتھ ہونیوالی اس زیادتی پر کوئی توجہ نہیں دی۔ کسی فورم پر اس کو اٹھایا اور نہ دھرنے میں اس کا ذکر سننے کو ملا۔ اسکے بعد میں نے خصوصی مہم کے تحت مختلف حکومتی اور اپوزیشن رہنمائوں تک یہ فریاد پہنچائی ‘‘۔
جب عمران احمد خان نیازی کنٹینر پر کھڑے ہوکر پارلیمنٹ پر لعنتیں بھیج اور پرویز خٹک انکے ساتھ جھوم رہے تھے تو میں سی پیک کے معاملے پر نوازشریف حکومت کیساتھ جنگ میں مصروف تھا۔ دھرنوں ہی کے دنوں میں اپنا لیپ ٹاپ لے کرمیں نے پرویز خٹک کو سی پیک سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔ مراد سعید اور شبلی فراز جیسے لوگوں سے ہر روز یہی درخواستیں کرتا رہا کہ وہ کنٹینر پر کھڑے اپنے لیڈر سے سی پیک کا معاملہ اٹھوائیں اور اس میں پختونخوا، گلگت بلتستان اور بلوچستان کے حق کے لئے آواز اٹھائیں لیکن یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ دھرنوں کے دوران نیازی صاحب نے ایک مرتبہ بھی سی پیک کا نام نہیں لیا اور الٹا ان کے دھرنوں کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ پاکستان ملتوی ہوگیا۔ ان کی عدم دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ کنٹینر پر کھڑے ہوکر چینی صدر کے دورے سے متعلق یہ غلط بیانی کی کہ چینی صدر پاکستان آہی نہیں رہے ہیں۔ دوسری طرف اس عرصے میں صوبے کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے پرویز خٹک نے سی پیک کے معاملے کو کسی بھی فورم پر وفاقی حکومت کے ساتھ نہیں اٹھایا۔ چنانچہ نوازشریف حکومت نے یکطرفہ طور پر چینی حکومت کے ساتھ مل کر سارے سودے طے کئے۔ پھر جب 2015 میں چینی صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر باقاعدہ اعلان ہوا تو سب کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ دھرنوں کے ڈرامے سے فارغ ہوکر پی ٹی آئی کی قیادت کو بھی سی پیک یاد آگیا اور تب پرویز خٹک نے دھمکیاں دیناشروع کردیں لیکن افسوس کہ پی ٹی آئی کی قیادت اس وقت حکومت کے ساتھ اپنا مک مکا کرکے خاموش ہوگئی۔ میرے کالم ریکارڈ پر ہیں (انہیں ان شاء اللہ اب میں سی پیک سے متعلق اپنی کتاب کا بھی حصہ بنارہا ہوں) کہ میں تسلسل کے ساتھ مطالبہ کرتا رہا کہ (۱) نوازشریف حکومت سی پیک کے معاملات کو شفاف بنا کر تمام معاہدے پارلیمنٹ کے سامنے رکھ دیں، (۲) جے سی سی میں تمام صوبوں، گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر کے وزرائے اعلیٰ کو ممبر بنادیں۔ ورکنگ گروپ میں بھی وفاق کے ان تمام یونٹوں کو نمائندگی دے اور (۳) مغربی روٹ کو ہی اصل روٹ بنا دیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن پی ٹی آئی کی قیادت خیبر پختونخوا کے لئے ایک اکنامک زون اور ایک پروجیکٹ (اس کی ڈیلنگ کے اختیار سمیت) ہتھیا کر اور پارلیمنٹ کی سی پیک کمیٹی میں اسد عمر اور شبلی فراز کو ممبر بنا کر رام ہوگئی۔ اس مک مکا کے بعد پرویز خٹک اسی طرح وکالت کرنے لگے جس طرح کہ پہلے احسن اقبال کرتے تھے۔ ہم جیسے لوگوں کو حکومت جواب دے کر خاموش کرتی رہی کہ پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی سی پیک کے منصوبوں کی نگرانی کررہی ہے اور اس کمیٹی میں پی ٹی آئی کے اسد عمر اور سینیٹر شبلی فراز موجود ہیں۔ یوں اس کے بعد اگر کوئی گناہ ہوا ہے تو اس میں پی ٹی آئی بھی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ شریک رہی۔ یوں ہم جیسے لوگ تو کچھ نہیں کرسکے لیکن میں یہ بات ٹی وی پروگراموں اور اپنے کالموں میں بار بار ریکارڈ پر لاتا رہا کہ سی پیک کو نواز حکومت جس طرح سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کررہی ہے، اس کے پیش نظر یہ بات یقینی ہے کہ کسی وقت یہ پروجیکٹ ان کے گلے کا طوق بنے گا۔ اسی طرح میں یہ بھی عرض کرتار ہا کہ جب سی پیک کے سودوں کے قصے باہر آئیں گے تو لوگ پانامہ کو بھول جائیں گے لیکن پی ٹی آئی کی قیادت اور ملک کے اصل حاکم دیگر ایشوز میں الجھے رہے۔
سی پیک کا معاملہ 2014 میں شروع ہوا تھا اور آج 2018 ہے۔ اب کوئی بھی منصوبہ واپس نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری طرف یہ پروجیکٹ معاشی سے زیادہ تزویراتی (Strategic) پروجیکٹ بن چکا ہے۔ ہم نے اس پروجیکٹ کا اتنا ڈھنڈورا پیٹا کہ چین اور پاکستان کے دشمنوں کی نظروں میں یہ وقت سے پہلے کھٹکنے لگا ہے۔ اس کی وجہ سے امریکہ جیسی طاقتیں ہماری دشمن بن گئی ہیں اور ہم ہر حوالے سے چین کے محتاج بن گئے ہیں تو پی ٹی آئی کی حکومت نے اس معاملے پر اس انداز میں بحث شروع کردی کہ اس سے چین کا ناراض اور پاکستان دشمن طاقتوں کا خوش ہونا یقینی ہے۔ اگر سی پیک کی بنیاد پر میاں نوازشریف اور ان کی ٹیم کا احتساب ہو تو مجھ سے زیادہ خوش کوئی نہیں ہوگا۔ سی پیک کے منصوبوں میں کمیشنوں اور کک بیکس کے معاملات کی بھی چھان بین ہونی چاہئے۔ مغربی روٹ کے معاملے پر مسلم لیگی لیڈر شپ نے جو ظلم کیا، اس کی تلافی بھی ہونی چاہئے اور چینی دوستوں سے مل کر مغربی سڑک کو مغربی روٹ بنا دینا چاہئے۔ بلوچستان اور گلگت بلتستان کے ساتھ سی پیک کی مد میں جو زیادتی ہوئی اس کی تلافی کرکے پہلی فرصت میں ان دو علاقوں کو سی پیک سے مستفید کروانا چاہئے۔ اسی طرح جے سی سی میں تمام صوبوں اور گلگت بلتستان یا آزاد کشمیر کو بھی نمائندگی دینی چاہئے۔ جو سودے یکطرفہ ہیں، ان پر بھی نظرثانی ہونی چاہئے لیکن یہ سب کام خاموشی کے ساتھ، چینی دوستوں کے ساتھ مل کر، باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ متعلقہ فورمز پر ہونے چاہئیں۔ یہاں تو چین کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جارہا ہے جیسے وہ چین نہیں امریکہ ہے۔ اقتدار میں آتے ہی وزیراعظم عمران احمد خان نیازی نے کابینہ کی سطح پر فیصلہ کیا کہ سی پیک کے منصوبوں کو ری اوپن کیا جائے گا اور ظاہر ہے یہ خبر چینیوں کے لئے کسی بم شیل جبکہ امریکہ وہندوستان کے لئے خوشخبری سے کم نہیں تھی۔ آخرکابینہ کی سطح پر فیصلہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کام خاموشی کے ساتھ بھی کیا جاسکتا تھا۔ اسی وجہ سے تشویش میں مبتلا ہوکر چینی وزیرخارجہ نے پاکستان کے دورے کا فیصلہ کیا اور خلاف روایت ان کا استقبال دشمن ملک کے وزیر خارجہ کی طرح کیا گیا۔ سعودی وزیر اطلاعات کے استقبال کے لئے تو وفاقی وزیرا طلاعات فواد چوہدری ائیرپورٹ پر گئے اور پھر ایئرپورٹ ہی سے انہوں نے ان کو الوداع کہا لیکن چینی وزیرخارجہ کا ایئرپورٹ پر استقبال دفتر خارجہ کے ایک معمولی افسر سے کروایا گیا۔
پھر پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکرات کے بعد وہ ابھی وطن واپس نہیں پہنچے تھے کہ مشیر تجارت عبدالرزاق دائود کا فنانشل ٹائمز میں یہ انٹرویو سامنے آیا کہ سی پیک کے منصوبوں پر ایک سال کے لئے کام روکنا پڑے گا۔ اس روش اور ان واقعات سے پاکستان اور چین کے اسٹرٹیجک معاملات کو کتنا بڑا دھچکا لگ گیا، یہ صرف وہی لوگ جانتے ہیں جو ان معاملات کی حساسیت کو سمجھتے ہیں۔ لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ جو لوگ ان معاملات کی حساسیت کو سب سے زیادہ سمجھتے ہیں، انہو ں نے عمران احمد نیازی کو یہ حساس معاملات بھی نہیں سمجھائے ہیں۔ کم ازکم ان کو اتنا تو سمجھا دیا جائے کہ ان حالات میں جبکہ ہم نے چین کی خاطر امریکہ کو اپنا دشمن بنا دیا ہے، اس کے ساتھ تعلقات خراب کرنا قومی خودکشی کے مترادف ہے۔ پاکستان کے سادہ لوح عوام تو انہیں امریکہ مخالف سمجھ رہے تھے لیکن وہ تو پہلے دن سے امریکہ کا کام آسان کرنے لگے ہیں۔