ریاست مدینہ کی نام لیوا تحریک انصاف حکومت کے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم خان سواتی کے تیز طرار اور باصلاحیت ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ مانسہرہ سے کراچی منتقل ہوئے۔ وہاں سے امریکہ منتقلی کا وسیلہ ڈھونڈا۔ اسی وسیلے کے ذریعے امریکی شہریت حاصل کی۔ وہاں سینکڑوں پاکستانیوں اوربنگالیوں سے رقوم جمع کرکے اربوں روپے کا کاروبار شروع کیا۔ اس قدر تیز تھے کہ ری پبلکن پارٹی میں بھی اپنے لئے جگہ بنائی اور 2001 ء کے انتخابات میں اپنے گھر اور دفتر کو صدر بش کی تصاویر سے بھر دیا۔ جن لوگوں سے انہوں نے رقوم جمع کی تھیں، انہوں نے شور مچایا اور ان کے خلاف مقدمات بن گئے چنانچہ انہیں امریکہ سے بھاگ کر پاکستان آنا پڑا لیکن اپنے ساتھ اربوں ڈالر لے آئے۔ پاکستان آکر انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں دولت کے زور پر ضلع مانسہرہ کی نظامت حاصل کرلی اور ڈالروں والے ناظم کے نام سے شہرت پائی۔ 2002 ء کے انتخابات کے بعد انہوں نے مفتی کفایت اللہ کے ذریعے مولانا فضل الرحمان سے ڈیل کرلی۔ کچھ ایم پی ایز ان کو جے یو آئی نے عنایت کئے اور باقی انہوں نے ایم ایم اے ہی کی صفوں سے خرید کرسینیٹ کی نشست حاصل کرلی۔ امریکہ کا کاروبار انہوں نے اپنے بچوں کے حوالے کیا جہاں وہ صدر بش کی پارٹی کو چندے دے کر اپنا الو سیدھا کرتے رہے لیکن پاکستان میں ایم ایم اے کا سینیٹر بن کر اعظم سواتی امریکہ کو للکارتے رہے۔ کیسز کی وجہ سے تب سے لے کر اب تک اعظم سواتی امریکہ نہیں جاسکتے اور وہ میکسیکو جاکر وہاں اپنے منیجرز بلا کر کاروبار کا حساب کتاب کرکے واپس پاکستان آتے ہیں۔ اس دوران انہوں نے یواے ای میں بھی کاروبار شروع کیا اور وہاں جائیدادیں بھی خریدیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں وہ جے یو آئی کے کوٹے سے گیلانی کابینہ میں وفاقی وزیر بنے۔ جن قوتوں نے پی ٹی آئی کے غبارے میں ہوا بھرنے کا فیصلہ کیا، انہی قوتوں کے کہنے پر اعظم سواتی صاحب پی ٹی آئی میں چلے گئے اور آتے ہی عمران احمد خان نیازی صاحب کو تحفوں اور کروڑوں روپے کے فنڈز کے ذریعے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ 2012ء کے انٹرا پارٹی انتخابات، جن میں اسد قیصر صوبائی صدر بنے، کے دوران انہوں نے بھرپور پیسے کا استعمال کیا اور پی ٹی آئی کے لوگوں کو خریدنے کی کوشش کی جس کی ویڈیوز پی ٹی آئی رہنمائوں کے پاس آج بھی موجود ہیں۔ پیسے کے زور پر وہ 2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے سینیٹر بنادئیے گئے اور پھر انہیں صوبائی صدر نامزد کیاگیا۔ ان کی نامزدگی پر پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکن سخت ناراض تھے لیکن ظاہر ہے ان کی کس نے سننی تھی۔ دھرنوں کے موقع پر جب انہیں پی ٹی آئی کے خیبر پختونخوا کے پارلیمنٹرین کا انچارج مقرر کیا گیا تو خیبر پختونخوا ہائوس میں پارلیمانی پارٹی کے ایک اجلاس کے دوران بعض اراکین قومی اسمبلی نے اپنے چیئرمین سے شدید احتجاج کیا۔ اس موقع پر خیبر پختونخوا کے بعض ممبران نے شکایت کی کہ ایسا شخص جس نے پارٹی انتخابات کے دوران خود انہیں خریدنے کی کوشش کی تھی، کیسے ان کا لیڈر بن سکتا ہے۔ اس پر عمران احمد خان نیازی نے اعظم سواتی کو کچھ دیر کے لئے اجلاس سے باہر نکالا اور پھر اپنے پارلیمنٹرین کو حکمت وتدبر کا لیکچر دیتے ہوئے فرمایا کہ چونکہ بلدیاتی انتخابات میں بہت زیادہ پیسہ خرچ ہوگا اور چونکہ اعظم خان سواتی کے پاس پیسہ بہت ہے، اس لئے انہیں بلدیاتی انتخابات تک برداشت کرلیا جائے۔ گزشتہ عام انتخابات سے قبل پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم میں اعظم سواتی صاحب کا بنیادی کردار تھا۔ کئی لوگوں کو ان کی سفارش پر ٹکٹ سے نوازا گیا اور کئی کو استحقاق کے باوجود محروم رکھا گیا۔ انتخابات کے بعد انہیں سینیٹر بنا دیا گیا اور جب ریاست مدینہ کے نام لیوائوں کی حکومت قائم ہوئی تو اعظم سواتی صاحب سائنس و ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر بنادئیے گئے۔
اعظم خان سواتی نے پی ٹی آئی کے دیگر کھرب پتیوں کی طرح بنی گالہ کے پڑوس میں اپنا ایک عالی شان فارم ہائوس بنا رکھا ہے۔ اس فارم ہائوس کے ساتھ ایک خشک نالہ ہے جس کے دوسری طرف کچی آبادی ہے جس میں باجوڑ ایجنسی سے آئی ڈی پیز بن جانے والے بعض پختون مقیم ہیں۔ ایک روایت کے مطابق اعظم سواتی صاحب کی اس کچی آبادی کی زمین پر بھی نظر ہے اور وہ اسے اپنے فارم میں شامل کرانا چاہتے ہیں جبکہ دوسری روایت کے مطابق اپنے فارم کے قریب کچی آبادی کی موجودگی انہیں یوں ہی اچھی نہیں لگ رہی تھی، اس لئے وہ ان لوگوں کو یہاں سے اٹھانے کی ایک عرصہ سے کوشش کررہے تھے۔ مجھے وہاں پر مقیم باجوڑ کے ان آئی ڈی پیز نے بتایا کہ 26 اکتوبر کے واقعے سے قبل بھی جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے، پولیس ان کو بہت تنگ کررہی ہے۔ اعظم خان سواتی کے مطابق 26 اکتوبر کو کچی آبادی میں مقیم نیاز خان کی گائے نے گستاخی کامظاہرہ کرتے ہوئے ان کے باغ میں پودوں کو نقصان پہنچایا۔ ایف آئی آر میں انہوں نے مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی بلکہ یہ لکھا ہے کہ پہلے ان کی گائے نے دراندازی کی اور پھر نیاز خان اپنی بیوی، بیٹی اور کمسن بچوں سمیت ان کے گھر پر حملہ آور ہوئے جس کے نتیجے میں ان کے گارڈز زخمی ہوئے۔ میں نے جب نیاز خان کے کمسن بچے سے احوال پوچھا (اس کی ویڈیو میرے فیس بک اور ٹویٹر پر موجود ہے) تو بچے نے کہا کہ گائے کی گستاخی کے بعد اعظم سواتی کے مسلح لوگ ان کے گھر پر حملہ آور ہوئے اور جب انہو ں نے ان کی والدہ (نیاز خان کی اہلیہ) کو گالی دی اور ان پر ہاتھ اٹھایا تو اس پر طیش میں آکر ان کے بچوں نے ردعمل ظاہر کیا۔ کوئی بھی علاقے کا دورہ کرکے دیکھ سکتا ہے کہ جو کچھ ہوا ہے وہ فارم ہائوس میں نہیں بلکہ نیاز خان کی جھونپڑی میں ہوا ہے۔ اعظم سواتی کے بندوں نے گائے کے جرم پر چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا اور فائرنگ بھی کی لیکن اس کے بعد پولیس سے ان کا مطالبہ تھا کہ وہ پورے گھرانے کو اٹھا کر جیل میں ڈال دے۔ اس مقصد کے لئے اعظم سواتی نے وزیر داخلہ شہریار آفریدی کومتحرک کررکھا تھا اور اسی لئے وہ وزیراعظم سے سفارشیں کروارہے تھے۔ پولیس کا موقف یہ تھا کہ گائے کے جرم میں اتنی بڑی سزانہیں ملنی چاہئے اور وہ نیاز خان وغیرہ کو تھانے بلا کر معافی دلوادیں گے لیکن سواتی صاحب ان کے خلاف ایف آئی آر کٹواکر جیل میں ڈالنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اس جرم میں انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد، جو اس وقت بیرون ملک تھے کو تبدیل کردیا گیا۔ چنانچہ نیاز خان، ان کی اہلیہ، بیٹی اور دو بیٹوں جن میں ایک کی عمر بارہ سال ہے کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی اور انہیں اڈیالہ جیل میں بند کردیا گیا۔ یہ ہے ریاست مدینہ کے نام لیوائوں کا وہ انصاف جس کا وعدہ کرکے عوام کو گمراہ کیا گیا تھا۔ نیاز خان کے کمسن بیٹے سے ملاقات اور اس کی زبانی روداد سن کر میں نے ٹی وی پر خاتون اول سے اپیل کی کہ وہ مداخلت کرکے کم ازکم نیاز خان کی اہلیہ اور بیٹی کو رہا کروادیں کیونکہ پختون روایات کے مطابق کسی خاتون کو جیل بھجوانا پورے قبیلے کی بے عزتی سمجھی جاتی ہے لیکن افسوس کہ کچھ نہ ہوسکا۔ میں نے خود وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری سے بھی بات کی اور قائمقام آئی جی سے بھی رابطہ کیا لیکن جھونپڑی میں پڑے تین معصوم بچوں، جن میں سب سے بڑا بارہ سال کا تھا، کو اس رات ان کی ماں اور بہن واپس نہ دلواسکا۔ رات کو پڑوسیوں اور فاٹا یوتھ جرگہ کے ریحان زیب نے ان بچوں کی رکھوالی کی جبکہ نظام الدین سالارزئی نے ان کے لئے وکیل وغیرہ کا انتظام کیا۔ آج صبح اعظم سواتی کے بیٹے نے دبائو ڈلواکر راضی نامہ کروادیا جس کے بعد نیاز خان اور ان کے اہل خانہ ضمانت پر رہا ہوجائیں گے۔
نئے پاکستان میں پاک پتن کے ڈی پی او کو اس بنیاد پر اوایس ڈی بنایا گیا کہ نگرانی کے لئے ہی سہی لیکن ان کی موبائل نے خاتون اول کی بیٹی کا پیچھا کیوں کیا جبکہ آئی جی اسلام آباد کو اس لئے گھر بھیج دیا گیا کہ انہوں نے فوری طور پر اعظم خان سواتی کی انا کی تسکین کے لئے فوری طور پر ایک قبائلی خاتون، ان کی جواں سال بیٹی اور کمسن بچوں کو جیل میں کیوں نہیں ڈالا۔ اگر یہ ڈرامہ بازی نہیں تو پھر سلطان راہی بننے والے وزیرداخلہ شہریار آفریدی اس معاملے میں ظالم اعظم سواتی کے ساتھ کیوں کھڑے نظر آئے۔ وزیراعظم صاحب چونکہ اعظم سواتی کے زیراحسان ہیں اس لئے وہ کچھ نہیں کرسکیں گے لیکن میری خاتون اول صاحبہ سے التجا ہے کہ وہ باجوڑ کے اس مظلوم اور بے گھر خاندان کے ساتھ ہونے والے ظلم کا حساب لیں۔ خاتون اول صاحبہ ایک لمحے کے لئے سوچ لیں کہ اگر خاکم بدہن نیاز خان کی اہلیہ کی جگہ وہ خود ہوتیں یا پھر اگر اڈیالہ جیل میں رات گزارنے والی نیازخان کی بیٹی کی جگہ ان کی بیٹی ہوتی یا پھر اگر رات کو ماں باپ سے محروم رہ کر جھونپڑی میں بے آسرا معصوم بچوں کی جگہ ان کے بچے ہوتے تو اس صورت میں ان کا کیا ردعمل ہوتا؟