گزشتہ دس دن بڑے سکون سے گزرے۔ پاکستانی ٹی وی ٹاک شوز سے بھی نجات ملی رہی اور پاکستانی سیاست پر قابض سیاسی نابالغوں کی تو تو میں میں سے بھی۔ نہ کوئی کفر کا فتویٰ سننے کو ملا اور نہ غداری کا الزام۔ نہ زبان درازی دیکھنے کو ملی اور نہ زبان بندی کی کوششوں کا سامنا کیا۔ کم انسانوں اور زیادہ رقبے پر مشتمل وسیع و عریض اور خوبصورت ملک آسٹریلیا میں رہا۔ پہلے خوبصورت اور چھوٹے شہر ایڈیلیڈ میں لکھنے پڑھنے کے ذریعے ذہنی سکون حاصل کرتا رہا اور پھر میلبورن اور سڈنی کے حسین قدرتی نظاروں سے لطف اٹھاتارہا۔ پاکستانی میڈیا سے نجات حاصل کرکے میں ان دنوں صرف آسٹریلین میڈیا دیکھتا رہا۔ ان دس دنوں میں نہ تو کوئی جلسہ دیکھا، نہ جلوس اور نہ سیاستدان ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے نظر آئے۔ اس پورے عرصے میں آسٹریلیا کی کسی ایک جگہ سے بھی کسی انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان کے قتل کا واقعہ رونما نہیں ہوا۔ وہاں کروڑوں کی تعداد میں گائیں اور پالتو جانور ہیں لیکن کوئی گائے یا بھینس موضوع بحث نہیں تھی۔ لاکھوں لوگوں نے کتے پال رکھے ہیں لیکن کوئی کتا زیر بحث تھا اور نہ کوئی ترجمان مخالفین کے خلاف بولتا نظر آیا۔ ان دس دنوں میں آسٹریلیا کی سیاست اور میڈیا پر اسٹرابیری کا ایشو چھایا رہا۔ ہوا یوں کہ جنوبی آسٹریلیا کے قصبے یارک (York) میں اسٹرابیری کے ایک دانے میں سوئی نکل آئی اور یہ خطرہ پیدا ہوا کہ اگر کوئی انسان اس کو کھالے تواس کے زخمی ہونے کا خدشہ ہے۔ چنانچہ اس خبر کے منظر عام پر آتے ہی سوائے مغربی آسٹریلیا کے، باقی پورے ملک کے اسٹوروں سے اسٹرابیری کا سارا اسٹاک اٹھا لیا گیا۔ حکومت کی طرف سے بھرپور تشہیری مہم چلائی گئی جس میں شہریوں کو بتایا جارہا تھا کہ وہ اسٹرابیری کھاتے وقت احتیاط کریں اور سالم دانہ کھانے کی بجائے اسے کاٹ کر کھایا کریں۔ حکومت کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ اسٹرابیری کے دانے میں سوئی رکھنے والے ملزم کی نشاندہی کرنے والے کو ایک لاکھ ڈالر انعام دیا جائے گا۔ اس مسئلے سے متعلق، متعلقہ وزیروں، اسٹرابیری اگانے والے کاشتکاروں کی تنظیموں کے عہدیداروں کی ملاقاتیں اور پریس کانفرنسز ہورہی تھیں۔ پارلیمنٹ اور سیاست میں اسی موضوع پر بحث ہورہی تھی۔ حکومت سرگرداں تھی کہ کس طرح دانے میں سوئی بند کرنے والوں کا سراغ لگایا جائے اور کیسے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آئندہ کسی دانے سے کوئی سوئی برآمد نہ ہو۔ حکومت کی طرف سے یہ پابندی لگا دی گئی کہ اب مارکیٹ میں جو بھی اسٹرابیری آئے گی، وہ پہلے میٹل ڈکٹیٹر سے ہوکر گزرےگی جبکہ اس مقصد کے لئے حکومت کی طرف سے کاشتکاروں اور تاجروں کوبڑے پیمانے پر میٹل ڈکٹیٹر مشینوں کی فراہمی شروع کی گئی تھی۔ اپوزیشن اس بنیادپر تنقیدکررہی تھی کہ حکومت نے صرف بڑے اسٹوروں سے اسٹرابیری کے اسٹاک کو اٹھا دیا ہے حالانکہ اسے چاہئے تھا کہ گھروں سے بھی اٹھالیا جاتا۔ اسی طرح اسے وزارت زراعت و صحت کی ناکامی سے بھی تعبیر کیا جارہا تھا کہ اس کی خراب کارکردگی کی وجہ سے اسٹرابیری کے دانے میں پائی جانے والی سوئی سے شہریوں کی زندگی خطرے میں پڑ گئی اور جو خوف و ہراس پھیل گیا ہے اس کی وجہ سے اسٹرابیری کے کاشتکاروں کی معیشت پربرا اثر پڑ سکتا ہے۔ یوں میں جتنے دن آسٹریلیا میں رہا، اسٹرابیری اور سوئی کا ہی تذکرہ سنتا رہا۔
اسلام کے نام پر بننے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان، جہاں آج کل ریاست مدینہ کے نام لیوائوں کی حکومت ہے، واپس پہنچا تو حسب عادت غیرحاضری کے دنوں میں میڈیا کی سرگرمیوں پر نظر دوڑانی شروع کی تو دیکھا کہ یہاں کی سیاست اور میڈیا پر گزشتہ دس دنوں کے دوران جو ایشوز چھائے رہے ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو پاکستان کے حقیقی مسائل یا انسانی زندگیوں سے متعلق ہو۔ مجھے لگا کہ میں اکیسویں صدی کے کسی ملک سے ماضی کے بغداد میں آگیا ہوں۔ وہ بغداد جسے تاتاریوں کی یلغار کا سامنا تھا لیکن وہاں اس موضوع پر مناظرے ہورہے تھے کہ سوئی کے ناکے میں سے فرشتہ گزر سکتا ہے کہ نہیں۔ پاکستان پہنچا تو دیکھا کہ سینیٹر فیصل جاوید وزیراعظم ہائوس میں موجود بھینسوں کے ساتھ بڑے شاہانہ انداز میں ویڈیو بنا رہے ہیں (انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو وزیراعظم کا اے ڈی سی لگوا دیا ہے اس لئے وہ ان خوش قسمتوں میں سے ایک ہیں جن کو وزیراعظم ہائوس تک زیادہ سے زیادہ رسائی حاصل رہے گی) اور پھر ان بھینسوں کو پالنے والے وزیراعظم ہائوس کے مزدور کے ساتھ حاکمانہ اور عالمانہ انداز میں گفتگو فرمارہے ہیں۔ پھر ایک اور ویڈیو دیکھی جس میں جہانگیر ترین کے معاون بابر بن عطا کی سانس پھولی ہوئی ہے۔ وہ کیمرے کے ساتھ وزیراعظم ہائوس کے اندر وزیراعظم کی رہائش گاہ کے ایک ایک حصے میں جارہے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ قوم کو پے درپے بریکنگ نیوز دے رہے ہیں کہ ماضی کے وزرائے اعظم کہاں سوتے اور کیسے ٹوائلٹ استعمال کرتے تھے۔ میں انتظار کرتا رہا کہ اب ویڈیو میں وہ پورا وزیراعظم ہائوس بھی دکھادیں گے جہاں ان کے وزیراعظم عمران خان رہ رہے ہیں لیکن انہوں نے وہ دکھایا اور نہ ایم ایس کا وہ مکان جس میں وہ بسیرا کرتے ہیں۔ میں انتظار کرتا رہا کہ اب وہ بنی گالہ کے اندر کی ویڈیو بھی بنا کر قوم کو بتادیں گے کہ موجودہ وزیراعظم کس طرح چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے لیکن بابر صاحب نے اس حوالے سے بھی مایوس کیا۔ اس کے بعد خاتون اول صاحبہ کے انٹرویو کا ایک کلپ دیکھنے کو ملا جس میں وہ وزیراعظم صاحب کے کتے کےدکھوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرما رہی ہیں کہ کس مجبوری کے تحت اس کتے کو وہ اپنے ساتھ بنی گالہ سے وزیراعظم ہائوس لاتے اور پھر واپسی پر دوبارہ بنی گالہ لے جاتے ہیں۔ آسٹریلیاجانے سے قبل میں نے جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں قوم کو یہ خوشخبری سنائی تھی کہ کس طرح وزیراعظم صاحب کے ساتھ ساتھ ان کا کتا بھی ہیلی کاپٹر میں آتا جاتا ہے۔ چنانچہ خاتون اول صاحبہ نے ٹی وی انٹرویو میں یہ وضاحت ضروری سمجھی۔ چونکہ یہ وی آئی پی کتا زیربحث تھا اس لئے میں نے معلوم کیا کہ اس کے پروٹوکول کا آج کل کیا عالم ہے تو پتہ چلا کہ میری خبر کے بعد ہیلی کاپٹر میں ان کو لانے لے جانے کا سلسلہ توبند ہوگیا ہے لیکن اب ان کے لئے خصوصی طور پر ایک سرکاری نمبر پلیٹ والا ڈالا سرکاری خرچ پر تیار کیا گیا ہے۔ جب وزیراعظم صاحب، وزیراعظم ہائوس آتے ہیں تو اس وی آئی پی کتے کو ڈالے میں بٹھا کر بنی گالہ سے وزیراعظم ہائوس منتقل کیا جاتا ہے اور جب بنی گالہ جاتے ہوئے وہ ہیلی کاپٹر میں روانہ ہوتے ہیں تو کتا صاحب ڈالے میں تشریف لے جاتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ فیصل جاوید صاحب اور بابر بن عطا صاحب اگلی ویڈیو، نئے وزیراعظم کے کتے کے پروٹوکول اور وزیراعظم ہائوس میں اس کی سرگرمیوں سے متعلق جاری کریں گے۔ ظاہر ہے قوم کو ماضی کے وزرائے اعظم کی بھینسوں کے مقابلے میں حال کے امیرالمومنین کے کتے کےشب و روز سے زیادہ دلچسپی ہے۔ اسی طرح قوم کو اگر ماضی کے وزرائے اعظم کے ٹوائلٹ اور نہانے کے ٹب دکھائے جاتے ہیں تو اس کا یہ بھی حق ہے کہ اسے نئے وزیراعظم کے کتے کا ڈالہ اور اس کا سرکاری ڈرائیور بھی دکھا دیا جائے۔ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن مجھے ڈر ہے کہ خاکم بدہن کہیں یہ لوگ اسے تاتاریوں کے وقت کا بغداد نہ بنا دیں۔