1. ہوم/
  2. مہمان کالم/
  3. سلیم صافی/
  4. مفتی صاحب اور سائنس

مفتی صاحب اور سائنس

مفتی صاحب رات کو سائنس کی برکت سے بننے والے میڈ ان جاپان گھڑیال میں الارم لگا کر آرام سے سو جاتے ہیں۔ انہیں مکمل یقین ہوتا ہے کہ صبح مقررہ وقت پر الارم بجے گا کیونکہ انہیں سائنس پر یقین ہے۔ آنکھ کھلتے ہی وہ سوئٹزر لینڈ کی گھڑی یا پھر امریکہ کے ایجاد کردہ آئی فون میں ٹائم دیکھتے ہیں اور جو وقت اس میں نظر آئے وہ اسی پر یقین کرلیتے ہیں۔ کمرے سے باہر جاکر آسمان کی طرف نہیں دیکھتے کہ یہ جان سکیں کہ افق پر صبح کی روشنی پھیل گئی ہے یا نہیں، انہیں اس گھڑی یا موبائل فون پر مکمل یقین ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ سائنسی اصولوں کے مطابق چلتےہیں۔ انہوں نے گھڑی کے حساب سے فجر کی اذان کا وقت مقرر کیا ہے اور گھڑی ہی کے حساب سے فجر کی اذان دینے کے لئے وضو کرتے ہیں۔ ماضی میں اذان دینے کے لئے موذن کمرے سے باہر آکر کسی بلند جگہ پر کھڑا ہوکر اذان دیا کرتا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک آواز پہنچے لیکن اب سائنس کی وجہ سے یقین ہو گیا ہے کہ لائوڈ اسپیکر کے ذریعے اذان بہت دور تک پہنچ سکتی ہے، اس لئے مفتی صاحب بلند جگہ پر چڑھنے کے بجائے مسجد کے اندر جاتے اور وہاں پر نصب مائیک میں اذان دیتے ہیں۔ دوپہر کی نماز کے وقت کے تعین کے لئے مفتی صاحب کبھی باہر جاکر سورج کی پوزیشن دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے بلکہ سائنس کی برکت سے مسجد کے اندر آویزاں پورے سال کے کیلنڈر کے حساب سے ظہر کی اذان، گھڑی دیکھ کر دیتے اور پھر گھڑی دیکھ کر نماز ادا کرتے ہیں۔ مفتی صاحب کو رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس کے لئے موبائل فون پر کال آجاتی ہے۔ وہ کراچی میں ہوتے ہیں اور کال کرنے والے اسلام آباد میں۔ جب وہ موبائل کی اسکرین پر نام دیکھ لیتے ہیں تو تصدیق کے لئے کسی اور طرف نہیں دیکھتے کہ کال کرنے والے وزارت مذہبی امور کے متعلقہ افسر ہیں یا نہیں۔ انہیں سائنس پر اعتماد ہے اس لئے جو نام یا نمبر ان کے سامنے نمودار ہوتا ہے وہی سمجھ کر ان سے بات کرتے ہیں۔ مفتی صاحب اپنا شیڈول بتا دیتے ہیں اور اس کے مطابق جہاز کا ٹکٹ تیار کرنے کا حکم صادر کردیتے ہیں۔ وہ جاپان کی بنی ہوئی گاڑی میں بیٹھ کر ایئرپورٹ کے لئے نکلتے ہیں اور چونکہ سائنس کی برکت سے انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنی دیر میں ایئرپورٹ پہنچ سکتے ہیں اس لئے کبھی ایسا نہیں کرتے کہ دس گھنٹے قبل ایئرپورٹ کے لئے نکل پڑیں۔ جہاز بہت بھاری چیز ہے اور بظاہر اسے زمین سے اٹھنا نہیں چاہئے لیکن چونکہ یہ اکیسویں صدی ہے اس لئے دوسرے لوگوں کی طرح مفتی صاحب کو بھی یقین ہوتا ہے کہ یہ جہاز زمین سے اٹھ کر ہوا میں بلند ہوگا۔ گھوڑے پر آئیں تو شاید کراچی سے اسلام آباد تک پہنچنے میں ہفتے لگیں لیکن چونکہ سائنس اور جہاز پر یقین ہے اس لئے مفتی صاحب اُسی روز کی فلائٹ بک کراتے ہیں۔ مفتی صاحب دوسرے مسافروں کی طرح جہاز کو خود نہیں چلاتے بلکہ سائنس کی برکت سے انہیں بھی پائلٹ پر یقین کرنا پڑتا ہے اور جب پائلٹ اعلان کرتے ہیں کہ ہم اتنی دیر میں اسلام آباد پہنچیں گے تو مفتی صاحب اسلام آباد میں اپنے خادم کو اطلاع دے دیتے ہیں کہ وہ فلاں وقت پر اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر انہیں لینے آجائیں۔ ایئرپورٹ سے نکل کر مفتی صاحب استراحت کرنے کی نیت سے ہوٹل کی طرف جاتے ہیں۔ ہوٹل کے کائونٹر پر کمرے کی چابی کے بجائے انہیں ایک کمپیوٹرائزڈ کارڈ تھمایا جاتا ہے جسے دروازے کی مقررہ جگہ میں رکھنے سے کمرے کا لاک خود بخود کھل جاتا ہے۔ جب مفتی صاحب کو یہ کارڈ دیاجاتا ہے تو وہ ماضی کی طرح تالے کی چابی نہیں مانگتے کیونکہ انہیں سائنس پر یقین ہے اور ماضی میں وہ کئی بار تجربہ کر چکے ہیں کہ اس کارڈ کے ذریعے کمرے کا لاک خود بخود کھل جاتا ہے۔ یہاں استراحت کے بعد وہ شام کے وقت رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کیلئے مقررہ جگہ پر روانہ ہوجاتے ہیں تاہم یہاں وہ چھت پر چڑھ کر چاند دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ یہاں بھی وہ سائنس کی برکت سے ایجاد ہونے والی دور بین سے مدد لیتے ہیں لیکن رویت ہلال کے معاملے میں ان کا اصرار ہے کہ سائنس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ مفتی صاحب کا اصرار ہے کہ دینی معاملات سے متعلق صرف ان جیسے لوگ رائے دینے کے مجاز ہیں اور میں کبھی ان معاملات میں دخل دینےکی جرات نہیں کروں گا لیکن سوال تو اٹھا سکتا ہوں کہ جس سائنس پرسال کے بارہ مہینے اور چوبیس گھنٹے اعتماد کیا جا سکتا ہے، اس پر سال کے ایک روز کے ایک گھنٹے میں صرف ایک عمل کے حوالے سے اعتماد کیوں نہیں کیا جاسکتا۔ میں یہ سوال بھی نہ اٹھاتا اگر میرا مسئلہ حل کیا جاتا۔ میں تو یہ بھی نہیں کہتا کہ انسانی آنکھوں سے چاند کا دیکھنا ضروری نہیں۔ میں تو پاکستانیوں کو نفاق سے بچانا چاہتا ہوں اور اس کے لئے حل چاہتا ہوں۔ حل پیش کرنے کے بجائے اب کی بار مفتی صاحب کے کیمپ سے میرے جواب میں سید خالد جامعی کے نام سے ایک تفصیلی مضمون لکھوایا گیا ہے جس میں دئیے گئے دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک ہی روز عید منانا ضروری نہیں۔ میں اس رائے کو چیلنج کرنے کے بجائے اس سے بھی اتفاق کرنے کو تیار ہوں بشرطیکہ رویت ہلال کمیٹی ختم کی جائے۔ اگر ایک ہی ملک کے شہریوں کے لئے عید ایک ہی روز منانا ضروری نہیں تو پھر رویت ہلال کمیٹی کو ختم کر کے ہر علاقے کے لوگوں کو آزاد کیوں نہیں چھوڑا جاتا۔ مجھ سمیت ہر کسی کو جس مفتی صاحب کے فتوے پر اعتماد ہوگا اس کے مطابق عید منالے گا۔ اب تو مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ رویت ہلال ریاستی کمیٹی ہے اور ایک مسلمان شہری کی حیثیت سے میں ریاست کے بنائے ہوئے ادارے کا اتباع اپنا اخلاقی اور قانونی فرض سمجھتا ہوں، اس لئے اختلاف کے باوجود اس کی اتباع ضروری سمجھتا ہوں۔ رویت ہلال کمیٹی ختم کرکے مجھے اس پابندی سے آزاد کردیا جائے۔ تب میں نے اگر اس مسئلے پر ایک حرف بھی لکھا یا بولا تو میں مجرم۔ مجھے مفتی صاحب سے کیا لینا دینا۔ بطور عالم دین میرے لئے وہ قابل احترام تھے اور رہیں گے۔ ان کے ساتھ میرا جائیداد کا تنازع ہے اور نہ ان کے ساتھ کہیں مفاد کا ٹکرائو بلکہ بعض حوالوں سے میں ان کے کردار کا بڑا مداح بھی ہوں۔ دوسری طرف فواد چوہدری جس حکومت کے وزیر ہیں، اس حکومت کا میں مداح ہوں اور نہ اس سے کوئی مفاد وابستہ ہے۔