میڈیا کے استعمال اور پروپیگنڈے کا معاملہ الگ ہے لیکن گزشتہ پانچ سال کے دوران خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت نے وہی کارنامے سرانجام دئیے جو گزشتہ دو ماہ کے دوران وہ قومی سطح پر سرانجام دے رہی ہے۔ 2018 کے عام انتخابات سے قبل ہر کوئی جانتا تھا کہ جن سیاسی جماعتوں نے اپنی پوزیشن کسی حد تک بحال کی ہے ان میں اے این پی سرفہرست ہے۔ 2013 کے انتخابات کے بعد ضمنی انتخابات میں بھی عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی غلام احمد بلور نے پی ٹی آئی کو ہرا کرپشاور شہر سے کامیابی حاصل کی تھی۔ پشاور میں تحریک انصاف کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے بی آرٹی کا منصوبہ شروع کیا تھا لیکن وہ الٹا ان کی حکومت کے گلے پڑ گیا۔ اس لئے عمران احمد خان نیازی نے پورے پاکستان میں انتخابی مہم چلائی لیکن پشاور کی اس ابتر حالت کی وجہ سے وہاں کوئی انتخابی جلسہ نہ کرسکے۔ ادھر بشیراحمد بلور کے صاحبزادے اور اے این پی کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار ہارون احمد بلور طالبان کے خودکش حملے کی نذر ہوجانے کی وجہ سے اے این پی کو عوام کی ہمدردیاں بھی ملنے لگیں لیکن حیر ت انگیز طور پر جب انتخابات کا نتیجہ سامنے آیا تو پشاور کی ساری نشستیں پی ٹی آئی کی جھولی میں جاچکی تھیں۔ لیکن اب صرف دو ماہ بعد جب ضمنی انتخابات ہوئے تو دونوں نشستیں پی ٹی آئی ہار گئی اور وہ اے این پی کے حصے میں چلی گئیں۔ حکومت پی ٹی آئی کی ہے۔ پشاور شہر کو کئی اہم وزارتیں مل گئیں۔ شاہ فرمان صاحب کو گورنر بنا دیا گیا لیکن ان کی خالی ہونے والی نشست پر ان کے بھائی کو شکست ہوئی۔ اب پشاور کے لوگوں نے 2018 کے عام انتخابات سے قبل ضمنی الیکشن میں بھی اے این پی کے حاجی غلام احمد بلور کو کامیاب کروایا اور اس کے صرف دو ماہ بعد ضمنی انتخابات میں بھی اے این پی کے امیدواروں جتوادیا لیکن درمیان میں نہ جانے عام انتخابات کے موقع پران کے دماغوں نے کیسے پلٹا کھایا کہ اے این پی کا صفایا کرکے پی ٹی آئی پر ووٹوں کی بارش کردی۔ اب یہ بات مجھے سمجھ نہیں آتی کہ پشاور کے لوگ جو پہلے بھی پی ٹی آئی کے مخالف تھے اور صرف دو ماہ بعد بھی مخالف ہوگئے ہیں تو درمیان میں صرف ایک ماہ کے لئے جولائی 2018 میں پی ٹی آئی پر اس قدر مہربان کیسے ہوگئے ؟ بظاہر تو وجہ یہ نظر آتی ہے کہ چونکہ پہلے اور بعد میں ووٹوں کی گنتی پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں ہوئی تھی، اس لئے نتائج کچھ اور تھے اور چونکہ جولائی 2018 کے ووٹوں کی گنتی ان کی عدم موجودگی میں ہوئی تھی جبکہ آرٹی ایس سسٹم نے بھی کام چھوڑ دیا تھا، اس لئے یہ نتائج سامنے آئے۔ ہاں البتہ اگرچیف الیکشن کمشنر صاحب ووٹروں کی سوچ کی اس حیرت انگیز تبدیلی کی کوئی اور منطق سمجھاسکیں تو ان کی بڑی مہربانی ہوگی اور ہم اپنی رائے سے رجوع کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔
ایک اور مثال ملاحظہ کیجئے۔ سوات کے بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ(ن) نے حکمران جماعت پی ٹی آئی کو شکست دی تھی اور وہاں سے ضلعی ناظم اس کا منتخب ہوا۔ پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی میں سے بعض اپنی آبائی یونین کونسل بھی ہار گئے تھے لیکن حیرت انگیزطور پر جولائی 2018 کے عام انتخابات میں پورے سوات کو پی ٹی آئی نے کلین سوئپ کیا۔ عمران احمد خان نیازی صاحب نے سوات پر عنایات کی بارش کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بھی سوات سے نامزد کیا۔ سوات ہی کے محب اللہ کو وزیراعلیٰ نے وزیرزراعت بنا دیا جبکہ معدنیات کی اہم ترین وزارت بھی سوات ہی کے ڈاکٹر امجد کے حصے میں آئی۔ ایک اہم ترین وفاقی وزارت بھی سوات کے مراد سعید کو دے دی گئی۔ یوں تبدیلی کے بعد سب سے زیادہ عنایتیں سوات پر کی گئیں۔ اب ان عنایتوں کے بعد تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ سوات کے عوام ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی پر جولائی کے مقابلے میں زیادہ شدت کے ساتھ ووٹوں کی بارش کردیتے لیکن حیرت انگیز طور پر ضمنی انتخابات میں وزیراعلیٰ کے بھائی بری طرح ہار گئے جبکہ دوسرے امیدوار بھی ہار گئے۔ ضمنی انتخابات میں ایک سیٹ مسلم لیگ (ن) کے حصے میں اور دوسری اے این پی کے حصے میں آئی۔ اب پی ٹی آئی کے مخالفین تو عوام کی سوچ میں اس اچانک اور یکدم تبدیلی کو پی ٹی آئی حکومت کی خراب کارکردگی قرار دے رہے ہیں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ صرف دو ماہ کی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کی رائے اس قدر تبدیل ہوئی ہو۔ کسی اور جگہ اچھی ہو یا بری لیکن سوات میں تو پی ٹی آئی کے اقتدار کی ساری برکتیں سمٹ آئی ہیں۔ مجھے تو اس کے سوا کوئی اور وجہ نظر نہیں آتی کہ جولائی میں آر ٹی ایس نے کام چھوڑ دیا تھا جبکہ ضمنی انتخابات میں وہ کام کررہا تھا یا پھر یہ کہ اس وقت ووٹوں کی گنتی پولنگ ایجنٹوں کی عدم موجودگی میں ہوئی جبکہ اب کی بار گنتی پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں ہوئی لیکن اگر چیف الیکشن کمشنر لوگوں کی سوچ میں اس انقلابی تبدیلی کی وجہ بیان کرسکیں تو میں ان کا شکریہ ادا کرکے اپنی رائے سے رجوع کرنے میں دیر نہیں لگائوں گا۔
ایک اور معاملہ جومجھے سمجھ نہیں آرہا وہ آشیانہ اسکیم میں میاں شہباز شریف کی گرفتاری اور کامران کیانی سے ان کے تعلق کا ہے۔ نیب حکام سے میری اس معاملے پر تفصیلی بات ہوئی ہے اور ان کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ کامران کیانی جو سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بھائی ہیں، کو نوازنے کے لئے شہبازشریف نے لطیف اینڈ سنز کا ٹھیکہ منسوخ کروایا۔ نیب حکام کے پاس واحد لنک یہ ہے کہ 2013ء میں کامران کیانی کے اکائونٹ سے پانچ کروڑ روپے فواد حسن فواد کے اکائونٹ میں ٹرانسفر ہوئے۔ اب پوزیشن یہ ہے کہ کامران کیانی، فواد حسن فواد اور ان کے بھائی کے ساتھ پنڈی کے پلازے میں پارٹنر بنے ہوئے تھے۔ اگر رشوت کی رقم دینی تھی تو پھر انہوں نے بینک میں باقاعدہ چیک کے ذریعے کیوں جمع کرائی۔ اس کا امکان ہے کہ کاروباری پارٹنر اور تعلق دار ہونے کے ناطے فواد حسن فواد نے کامران کیانی کو نوازا ہو لیکن پھر بھی شہبازشریف کا کامران کیانی کو نوازنے کا ثبوت کہاں سے ملتا ہے۔ کامران کیانی کے لنک روڈ کے ٹھیکے کی شہبازشریف کی طرف سے منسوخی کے معاملے کا میں اس لحاظ سے ذاتی گواہ ہوں کہ یہ واقعہ بعینہ اسی طرح میں نے اس وقت جنرل کیانی کی زبان سے بھی سنا تھا جس طرح شہباز شریف نے پارلیمنٹ میں بیان کیا اور یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب جنرل کیانی آرمی چیف تھے اور کامران کیانی کے خلاف کوئی کیس نہیں بنا تھا۔ پھر اس کے ایک گواہ چوہدری نثار علی خان بھی ہیں۔ پھر یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ کامران کیانی کے لنک روڈ کا ٹھیکہ (واضح رہے کہ پورے لنک روڈ کا ٹھیکہ نہیں بلکہ ایک حصہ کا مران کیانی کو چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں دیا گیا تھا) شہباز شریف نے کینسل کرواکر ناراض کیا تھا۔ اب اگر انہوں نے کامران کیانی کوآشیانہ میں نوازنا تھا تو یہاں کیوں ناراض کیا؟۔ پھر یہ کہ آشیانہ اسکیم میں لطیف اینڈ سنز کے ٹھیکے پر اعتراض کامران کیانی (جو دوسرے نمبر کے بڈر تھے) نے نہیں بلکہ ان کے اپنے پارٹنر سبحان جو بعدمیں ان سے ناراض ہوگئے تھے، نے کیا تھااورانہوں نے ہی ریکارڈنگ اور دیگر شواہد متعلقہ اداروں کو دیئے تھے۔ پھر انکوائری رپورٹ میں بدعنوانی ثابت ہونے کے بعد لطیف اینڈ سنز کا ٹھیکہ منسوخ کرکے شہبازشریف نے کامران کیانی کو نہیں بلکہ کاسا کو دے دیا۔ اب نہ تو لطیف اینڈ سنز پر اعتراض کامران کیانی نے کیا، نہ منسوخی کے بعد ٹھیکہ کامران کیانی کو ملا لیکن الزام یہ ہے کہ انہیں نوازنے کے لئے شہبازشریف نے لطیف اینڈ سنز کا ٹھیکہ منسوخ کیا۔ پھر شہباز شریف اور کامران کیانی کا تعلق یہاں سے نکالا جارہا ہے کہ 2013 میں فواد حسن فواد کے اکائونٹ میں کامران کیانی کے اکائونٹ سے پانچ کروڑ روپے ٹرانسفر ہوئے حالانکہ ریکارڈ بتارہا ہے کہ وہ پنڈی پلازہ میں کاروباری پارٹنر تھے۔ اگر ہم مان لیں کہ وہ پانچ کروڑ روپے رشوت کے تھے تو پھر سوال یہ ہے کہ اس رشوت کے جواب میں کامران کیانی کو ملا کیا ہے۔ اب مجھے تو یہ بات سمجھ نہیں آرہی لیکن پھر بھی یہ دعویٰ ہے کہ صاف اور شفاف احتساب ہورہا ہے۔