سخن ور، سخن فہم اور سخن شناش افراد کا یکجا ہونا کچھ ایسے بھی اچھنبے کی بات نہیں، کہ گر محنت، خلوص اور فضلِ پروردگار شاملِ حال ہو تو ایسا ہو ہی جاتا ہے۔ سخن کدہ نام ہے اس مقام کا جہاں آپ کو بہترین سخن ور، سخن فہم اور سخن شناس ملیں گے۔ سخن کدہ نے اپنا سفر سال 2016 میں شروع کیا، ابتدا تو ہمیشہ کی طرح مشکلات کا شکار رہی لیکن آنے والے سال سخن کدہ کے لئے ثمر بار ثابت ہوئے۔ آنے والے سالوں میں سخن کدہ بہترین تحاریر کا حامل پلیٹ فارم بن گیا جہاں سائٹ کے ہر گوشے نے اپنا اپنا حصہ سمیٹا۔ سالِ گزشتہ سخن کدہ کے لئے کیسا رہا؟ آئیے ایک جائزہ لیتے ہیں۔
2018 میں سخن کدہ کو عامر ظہور سرگانہ، عبداللہ خلیل، عابد ہاشمی، ابرار خان، احمد الراعی، احسن اقبال، علی اصغر، اشفاق عباسی، آصف علی، اسماء طارق، ایاز رانا، بابا جیونا، باشام باچانی، فیصل فاروق، فرخ شہباز، حماد حسن، حمزہ خلیل، اسماعیل آفتاب، محمد کاشان یعقوب، خالد زاہد، محمد عباس خان، محمد ذوالقرنین، نادیہ فرید، قمر الزمان وڑائچ، رضوان احمد، رضوان خان، ساجدہ اشرف، سلیم احسن، ثناء ہاشمی، سید حسین عباس اور سید ذوہیب حسن بخاری جیسے سخن ور ملے۔
سال 2018 میں سب سے ذیادہ تحاریر طاہر احمد فاروقی نے ارسال کیں جن کی تعداد 62 ہے۔ ان کے بعد علی محمود، خالد زاہد اور اسماء طارق نے 50، 42 اور 30 تحاریر بالترتیب ارسال کیں۔ اس سال سب سے ذیادہ شیئر ہونے والی تحریر سید علی ضامن نقوی کی تھی جس کا عنوان 'شاعرِ آخر الزمان۔ جوش ملیح آبادی' ہے۔ اس تحریر کو 159 مرتبہ شیئر کیا گیا۔ دوسری اور تیسری پوزیشن ثناء ہاشمی اور علی اصغر نے حاصل کی جن کی تحاریر 'ہم ترقی کر گئے'، 'شافع محشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم' جو بالترتیب 128 اور 125 مرتبہ شیئر کی گئی۔
سب سے ذیادہ مرتبہ پڑھی گئی تحریر 'انرجی ڈرنکس کو اپنی زندگیوں سے نکال دیں' جو نجم الثاقب صاحب نے تحریر کی جسے 550 مرتبہ پڑھا گیا۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پہ رضوان خان اور سید تنزیل اشفاق رہے جن کی تحاریر 'مسلمانوں کا علمی عروج و زوال' اور 'ایک کہانی، میری زبانی' بالترتیب 542 اور 472 مرتبہ پڑھی گئی۔
ایسی تحاریر جن پر سب سے ذیادہ کمنٹس وصول ہوئے۔ اس لحاظ سے سید تنزیل اشفاق کی تحریر 'ایک کہانی، میری زبانی' کو پانچ کمنٹس موصول ہوئے اور ان کے بعد نادیہ فرید اور علی اصغر کی 'واہ جی واہ کیا بات ھے' اور 'شافع محشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم' کو بالترتیب 4 کمنٹس موصول ہوئے۔
شاعری سیکشن میں محترمہ فاخرہ بتول نقوی صاحبہ نے میدان مارا ان کی تحاریر 'اُسکو بھولے بنا کوئی چارہ نہیں، وہ ہمارا نہیں'، 'درد کا کاروبار، توبہ ھے'، اور 'دسمبر اب کے آؤ تو' کو بالترتیب 60، 33، 23 مرتبہ شیئر کیا گیا۔ سب سے ذیادہ مرتبہ پڑھی جانے والی شاعری میں فاخرہ بتول نقوی کی 'عشق سر پر سوار کس کا ھے؟' 353 مرتبہ، شاہد کمال صاحب کی 'کبھی کماں تو کبھی دار سے الجھتی ہے' 331 مرتبہ اور پھر فاخرہ بتول نقوی کی 'بعد احمد ص کے جو یثرب میں ہوا بھول گئے' 328 مرتبی پڑھی گئیں۔
افسانہ سیکشن میں محمد اشتیاق صاحب کا 'قادر مطلق' سرِ فہرست رہا جسے 72 مرتبہ شیئرز وصول ہوئے، انکے بعد بابا جیونا کے 'اصلی مجرم' کو 35 شیئرز ملے اور تیسرے نمبر پہ سید تنزیل اشفاق کے 'معافی' کو 32 شیئرز ملے۔ اسی طرح سب سے ذیادہ مرتبہ پڑھا گیا افسانہ بابا جیونا کا 'سبزی سے جسم بیچنے تک کا سفر' ٹہرا جسے 334 بار پڑھا گیا، ان کے بعد محمد اشتیاق کا 'قادر مطلق' 267 بار اور ان کے بعد بابا جیونا کا 'اصلی مجرم' 259 مرتبہ پڑھا گیا۔
سخن کدہ کی اس تحریر میں یہ سب تحریر کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ ہمیں یہ بتانا مقصود ہے کہ کون نمبر ون اور کون نمبر ٹو ہے۔ بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ ہمارے سخن وروں کو ہمارے قاری کتنے پیار سے پڑھتے ہیں اور اسکے بعد ان تحاریر کو مزید پھیلاتے ہیں۔ اس تحریر کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگلے سال ہم اس سے ذیادہ محنت اور لگن سے اپنی تحاریر سنواریں تا کہ ہمارے سخن وروں کی گونج مزید سنائی دے۔
اللہ کریم آپ تمام احباب کی توفیقاتِ خیر میں اضافہ فرمائے۔ آمین۔