پاکستان ایک خوبصورت مُلک ہے جس میں ہر رنگ و نسل اور مذہب سے تعلق رکھنے والا آباد ہے۔ بات اگر پاکستانی تاریخ کی کی جائے تو اسے دو قسم سے بیان کیا جاتا ہے۔ ایک تو اسلام کی آمد سے پہلے کی اور دوسری اسلام کی آمد کے بعد کے لحاظ سے بیان کیاجاتا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ پہلی قسم یعنی اسلام سے پہلے کی تاریخ کو کبھی بھی یہاں زیرِ موضوع نہیں لایا گیا اور نہ ہی اس پر زور دیا جاتا ہے۔ جبکہ وہ تاریخ بھی اس مُلک کے ساتھ جُڑی ہے اور اُس تاریخ سے جُڑی کئی اہم شخصیات کو آج مغرب میں ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے اور آج ہماری نسل کوبھی وہ اہم تاریخ جاننے کی اشد ضرورت ہے۔ حرفِ عام میں ایک ہی سطر مشہور ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیسی زندہ قوم؟ وہ قوم کہ جس کو نہ تو اپنے ورثے کا پتہ ہو اور نہ ہی اُ س سے مُحبت ہے؟ پاکستان کے ورثے کا بغور مشاہدہ کرنے سے پتہ چلتاہے کہ کبھی یہ ورثہ تمام تر دُنیا کی توجہ کا مرکز تھا اور آج وہی ورثہ ہم سب کی توجہ کا مُنتظر نظر آتا ہے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ آج اُن تمام تر آثار قدیمہ کی ماہرین کی عزت کی جائے جو اس ورثے کو بچانے میں لگے ہیں۔ اُن کا یہی عمل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ آج بھی اس مُلک میں اچھے لوگ موجود ہیں جو کہ اپنی حُب اُلوطنی کا اس طرز سے اظہار کرتے ہیں کہ اُس کے اصل ورثہ کی نہ صرف حفاظت کریں بلکہ اُس کی بقا کی جانب مزید منازل کی جانب قدم رنجا فرمائیں۔ افسوس اُن ریاستی حُکام پر جو حُب الوطنی کے اس عمل میں اُن ہی ماہرین کی زرہ معاونت کرتے بھی نظر نہیں آتے ہیں۔ آثار قدیمہ کا مضمون تمام عالم میں اپنی پہچان آپ ہے اور ہر دور کی سائنسی ایجادات سے لے کر نقطہ ایمان، قدیم روایات اور مُختلف ثقافتوں میں اپنی شاخیں پھیلائے ایک تب آور درخت کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ ہمارے مُلک میں ایسے درختوں کی تازگی اور پھل سے نہ تو کوئی استفادہ لے کر آرکیالوجی کو یہاں پروموٹ کرتا ہے بلکہ حکومتی ادارے تو پہلے سے موجود ایسے کئی درختوں کی جڑیں تک کاٹ رہی ہے۔ کیا ان ماہرین کا قصور اس مُلک کا قیمتی ورثہ اور سرمایہ بچانے کا ہے؟ KPK کا آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ باقی صوبوں کی نثبت قدرے بہتر ہے اور باقی تمام صوبوں کی آرکیالوجی کی خستہ حالت پر تو نوحہ کے سوا اور کُچھ کیا نہیں جا سکتا ہے۔ آرکیالوجیسٹ کو صحیح معنوں میں کام کرنے میں بہت مُشکل آتی ہے۔ اسی لیے حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ جوان آرکیالوجست نہ صرف سراہا جائے بلکہ اس امر میں اُنکی بھرپور معاونت بھی کی جائے۔ نہ صرف یہ بلکہ اُن کے لیے ان آرکیالوجسٹ کے نوکریوں کے مواقع کے ساتھ ساتھ سکولوں اور کالجوں میں اس کی پیشکش کی جائے۔ اُس تاریخ سے بھی موجودہ اور آنے والی نسل کو روشناس کروایا جائے جس سے آج بھی بہت سے لوگ مُنہ موڑتے نظر آتے ہیں۔ وہی دریائے سندھ کی تاریخ کی جو آج بھی ہمارے لیے باعث فخر ہے اور ہمسایہ مُلک اُسی پر فلمیں بنا کر اپنا لوہا منوا رہاہے۔ وہی گندھارا کی تاریخ جس میں بہت سے مذاہب موجود تھے۔ یہ تہزیب اس تصویر کو ہی پیش کرتی کہ پاکستان کا یہ علاقہ اُس وقت بھی کتنے ہی رنگ و نسل اور مزاہب کے لوگوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھا۔ یہاں ہمیں ہندومت، جائن، سکھزم، یہودیت، مسیحت، اسلام اور پارسی مزہب کے آثار ملتے ہیں جو اس بات کا مُنہ بولتا ثبوت ہے کہ اس دھرتی نے ہمیشہ ہر مذہب کو قبول کیا ہے۔ یہاں ہر مزہب کا احترام کیا گیا اور اب بھی کیا جاتا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ یہاں بسنے والے تمام افراد نےان آثار کو نقصان نہیں پہنچایا ہے۔ کیوںکہ آج بھی یہ اس ورثے کی دل سے عزت کرتے نظر آتے ہیں۔ ہماری مُلکی قیادت کو بھی اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ آج کے دور کی جنگ ہتھیاروں کی نہیں بلکہ یہ جنگ ذہنی و علمی ہے۔ ہم آج بھی اس ورثے کو سنبھال کر عوام کے لیے کھول سکتے ہیں جس سے اس مُلک کی معیشت اور زیادہ مضبوط ہو سکتی ہے۔ ہمیں اوپن ایئر میوزیمز بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ سکھوں، مسیحیوں، یہودیوں، ہندوٶں اور جائن مذہبی مقامات کو عوام کے لیے کھولنے کی ضرورت ہے جو نہ صرف ان کے باہمی فاصلے ختم کر کے ایک دوسرے کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگی بلکہ یہ معیشت کو بھی استحکام بخشے گی۔ اس سے ہم اپنے ہمسایہ مُلک سے آنے والے یاتریوں کو بھی پاکستان کا سافٹ امیج دکھا سکتے ہیں۔ پاکستان میں آج بھی بہت سے گُردوارے موجود ہیں جو سکھ مت کی پہلی بادشاہت سےتعلق رکھتے ہیں اور سکھ مت کے لیے اُن کی جان سے زیادہ قیمتی سمجھے جاتے ہیں۔ ہم اُن گُردواروں کومحفوظ اور اُن کی مُرمت سے اُن کو سکھ بہن بھائیوں کے لیے کھول سکتے ہیں۔ بہت سے ہندوٶں کے مندر جیسا کہ کٹاس راج یہاں موجودہیں جن کو ہندوٶں کے لیے کھولا جا سکتا ہے۔ مسیحت کے ابتدائی رہنماوں میں سے مسیح کے ایک حواری حضرت توما کی بھی ایک رائل پیلیس یہاں موجود ہے جس کو پروموٹ کرنے کی بہت ضرورت ہے کہ بین الاقوامی مسیحی یہاں آ کر اُس کو دیکھیں جس سے پاکستان کا نام روشن ہوگا۔ اس کے علاوہ جینزم سے تعلق رکھنے والی ایسی چیزیں آج بھی پاکستان میں موجود ہیں جو پوری دنیا کے لیے توجہ کا باعث ہو سکتی ہیں۔ ہمیں ماضی کی ان تمام تر چیزوں کومحفوظ رکھ کر پرموٹ کرنے کی ضرورت ہے یہ سوچ کر کہ اگر آج اُس ماضی کو اہمیت نہ دی گئی تو کل کو ہم بھی ایک ماضی ہوں گے اور یہ کتاب ہمیشہ حال کے صفحےتک محدود رہے گی جس کے پچھلے صفحات پھٹے اور اگلے صفحات دھندلے ہی رہیں گے۔ اس آثارِ قدیمہ کے مضمون کے ذریعے نہ صرف ہم پوری دنیا کی توجہ پاکستان کی طرف مبزول کرا سکتے ہیں بلکہ دُنیا کو یہ بھی ثابت کر سکتےہیں کہ ہم دوسرے مزاہب کی عزت کرنا جانتے ہیں۔ پاکستان میں بسنے والے لوگ آج بھی امن پسند ہی ہیں۔ ہم دوسروں کے مزہبی نظریات اور عقائد کی دل سے عزت کرنا جانتے ہیں۔ آئیے اس ورثے کو نہ صرف بچائیں بلکہ اس کو فروغ بھی دے کر پاکستان کی اصلی تصویر دُنیا کو دکھائیں۔