بیوہ کی گود کی طرح خالی کمرے میں مضمحل بیٹھے بادشاہ باپ کے بیٹے حسین نواز کی تصویرآپ نے دیکھ لی۔ کہا یہ جا رہاہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے کی یہ تصویر پانامہ تحقیقات کے سلسلے میں بنی جے آئی ٹی کے حضور پیشی کے موقع پر لی گئی تصویرہے۔
سوشل میڈیا پر ہی نہیں، پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا پر بھی کئی قسم کی قیاس آرائیوں کے ساتھ یہ تصویربڑا رش لے چکی ہے۔ اس تصویرکے سلسلے میں ن لیگیوں کی طرف سے جے آئی ٹی پر انگلیاں اور سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہی ایک تصویر جے آئی ٹی کی غیرجانبداری کو مشکوک کر دینے کے لئے کافی ہے۔ ان کے مطابق جب جے آئی ٹی تحقیقات اِ ن کیمرہ یعنی مکمل طور پر خفیہ رکھی جا رہی ہیں، اور جب یہ تحقیقات سپریم کورٹ کے بااختیار دائرہ کارکے تحت ہو رہی ہیں تو پھر ا س تصویر کا باہر آجانا ججز کی جانبداری کے دعوؤں پر سوال اٹھادینے کیلئے کافی ہے۔ ان کے بقول ا س تصویر سے بعض ججزکے جانبدار ہونے کے حسین نواز کے خدشے کی بھی تائید ہوتی ہے۔
یہ سارے سوال البتہ اس وقت تک غیر متعلق ہی رہیں گے جب تک کہ یہ واضح نہیں ہو جاتا کہ آیا یہ تصویراصلی ہے یا محض جعلی؟ اگر یہ تصویر واقعی اصلی ہے توپھر یہ سوال بہت اہم ہو جاتاہے کہ آخر یہ تصویر باہر آئی کیسے؟ یہی جانے کیلئے سٹاف سے تفتیش بھی شروع کی جا چکی ہے۔ جس سے ظاہر ہے شک کے اولیں سنپولیے خود انصاف کے ایوانوں کی طرف رینگتے محسوس ہوتے ہیں۔ ویسے یہاں اس سلسلے میں اوربھی بہت کچھ بلکہ تقریباً سب کچھ ممکن ہے۔ اس تصویرکا لیک کیا جانا، خود اسی نادیدہ مگر متحرک میڈیا سیل کی تازہ حکمت کاری کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے کہ نیوز لیکس کے علاوہ بھی جس کے کئی کارنامے منظرعام پر آ کر داد پا چکے ہیں۔ اورجو پرویز رشیدوں اورطارق فاطمیوں کو قربان گاہوں کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں۔
اپنے سیاق و سباق میں یہ محض ایک تصویر نہیں، بعض حالات میں، یہ تصویر حالات کا پانسہ پلٹ دینے کی صلاحیت رکھنے والی تصویر بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تووہ بھی ایک تصویر ہی تھی کہ جو چیف جسٹس افتخار چودھری کی توہین کی عکس بندی پر مشتمل تھی اور جس نے ملک میں مشرف کے خلاف آگ لگادی تھی۔ ایسی ہی تصویروں کو دیکھ کے چینی کہاوت کی سچائی بھی سامنے آنے لگتی ہے کہ ایک تصویر ہزار لفظوں پر بھاری ہوتی ہے۔
اس تصویر سے ہونے والے سیاسی فائدے اور نقصان اپنی جگہ۔ میں اس تصویر کومگر خالص انسانی اورتاریخی تناظرمیں بھی دیکھتا ہوں۔ مجھے یہ تصویرہر اقتدارکے انجام اور ہر اقتدا ر کی تقدیر کی بھی تصویردکھائی دیتی ہے۔ اقتدارکہ مخالفوں کو سینگوں پر اٹھانے کے لیے جس کے سر پر بارہ سنگھے سے دگنے سینگ اگ آتے ہیں۔ مخالفوں کو دبوچنے کیلئے جس کے پاؤں میں چیتے کی پھرتی اورہاتھوں میں ہاتھی کا استحکام آ جاتا ہے۔ اقتدار، جس کے دماغ میں لومڑی کی مکاری اور جس کے لبوں پرانا ولاغیری کی فرعونی ملمع کاری چڑھ جاتی ہے۔
اقتدار جو آنکھیں پتھرادیتا اور جو دلوں پر انمٹ سیاہی کی اندھاکر دینے والی مہریں لگادیتاہے، اقتدار جواپنوں کی آنکھوں میں اپنوں سے دہکتی سلائیاں پھروا دیتا ہے اور جوسگے بھائی کے ہاتھ اپنے ہی بھائی کے خون سے رنگوا دیتاہے۔ اقتدار کے جس کے تناؤ میں آیاایک مغل بیٹا باپ کو زنداں میں پھینکوا دیتاہے اورجب وقت کاٹنے کوقیدی باپ بیٹے سے چند طالب علم مانگتاہے تو اقتدار کے نشے میں دھت بیٹا کہتاہے، ابھی تک اس بوڑھے کے دماغ سے بوئے سلطانی اور خوئے حکمرانی نہیں گئی۔ اقتدار جس کا ایک ادنی ٰ شریک بدمستی میں نہال ہو کے مخالفوں پر زمیں تنگ کر دینے کے خدائی اعلان کرنے لگتاہے۔
اقتدا رکاطوفان دل اور دماغ میں ایسے ہی اٹھتاہے کہ پھرصاحبانِ اقتداران کو صداقت، حقیقت، سچائی اور انسانیت حماقت کے سواکچھ معلوم نہیں ہوتی۔ یہی اقتدارجب انسانی دماغ میں شیطانی شرارے اور نسوں میں حیوانی انگارے بھرتاہے توپھر ایک مٹی کا مادھو مصر ی فرعون انا ربکم الاعلیٰ کے بے سرے راگ الاپنے لگتا ہے۔ اقتدار جو کبھی مشرف کی صورت میں جلوہ گر ہوتاہے، توبارہ مئی کو کراچی میں بچھی وکلا کی لاشوں پر ہونے والے بہیمانہ رقص کو عوامی طاقت بتاتاہے۔ اقتدا رجو کبھی صدام کی صورت بغداد کے ہر چوک اورچوراہے میں اپنے تابناک مجسمے لگوادیتاہے۔
اقتدارجو کبھی کرنل قذافی کی صورت دنیا کا صد رنگ عجوبہ سامنے لاتا ہے، جو بندۂ خدا اٹلی کی مشہور جرنلسٹ اوریانا فلاچی کو انٹرویو دینے کیلئے گھوڑے پر بیٹھ کر ڈرائنگ روم میں تشریف لے آتاہے اور جس کے ہر رنگ میں انسانی نفسیات کی بولعجبی کا جہانِ معنی پوشیدہ ہوتاہے۔ اقتدار جو کبھی مودی ہو کے نمرود کی طرح گجرات نذرِ آتش کردیتاہے اورجو کبھی کشمیر ی رخساروں میں پیلٹ گن کے خوفناک چھرے اتار دیتاہے۔ اقتدار جو کبھی شیرون کے جانشینوں سے فلسطینی بچوں کے فیڈروں میں دودھ کے بجائے ان کی ماؤں کا خون بھروا دیتاہے۔ اقتدار جو عباسیوں کے پا س آتاہے تو بنو امیہ کی ہڈیوں پران کے دستر خوان لگوا دیتاہے۔ اقتدار جو زندہ ہو تو شریف الدین پیرازادہ ہو کر حکومتی خواہشات کے بے لگام گھوڑوں کی چاکری کرتاہے۔
اسی خدا ہوجاتے اقتدار کی مگر تاریخ یہ بھی ہے کہ یہ جتنا بھی خدااورجتنا بھی الہ ہو جائے انجام اس کا مگر یہی اک بے بس تصویر ہوتی ہے۔ سپاٹ کمرے میں مضمحل بیٹھے شاہ اورکبھی شاہ کے بیٹے کی بے بسی سے بھری اک عاجزانہ تصویر۔ نواز شریف سے زیادہ لمبی جمہوری حکومت کرنے والا یہاں کون ہے؟ تخت شاہی سے مگر قلعہ اٹک کے قیدی ہوئے۔ خوش نصیب نکلے کہ سعودی فرشتہ ٔ اجل کے آڑے آگئے۔ باپ کی میت کومگر کندھااور بیٹے کی شریکِ حیات کو دعا دینا نصیب نہ ہو سکا۔ آج ان کے اپنے دورِ اقتدار میں ان کا کروڑ پتی بیٹاایک تصویر میں یوں بیٹھاہے جیسے کوئی بن باپ کا بیٹاجاچکی ٹرین کے بعد ریلوے پلیٹ فارم پربے یارومددگار بیٹھا ہوتاہے۔
آخرکوئی سوچتا کیوں نہیں؟ کیا اسی اقتدار کی خاطر آدمی خدا بن بیٹھتاہے؟ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اقتدار خود ایک خوفناک انتقام ہے، بچتاوہی ہے جو اسے خدا کی امانت سمجھ لے اور عمر بن عبدالعزیزبن کے اس دشت کی سیاحی کر جائے، تاریخ ہی کا سبق مگریہ بھی ہے کہ بالخصوص شاہ کبھی تاریخ سے سبق نہیں لیتے۔ عمر عبدالعزیز فوت ہوئے تو ان کی اولاد قلاش تھی۔ وقتِ نزع فرمایا، میں تمھارے لئے دولت کے انبارلگاکے، تمھاری دنیا بناکر، تمھاری اور اپنی عاقبت برباد کر سکتاتھا، مگر میں نے نہیں کیا۔ تاریخ نے پھر دکھایا کہ ناجائز دولتوں کے انبار جمع کرنے والوں کے شہزادے جامع مسجد دمشق کی سیڑھیوں پر بھیک مانگتے دیکھے گئے۔ عمر بن عبدالعزیز کے بیٹے مگرکروڑوں میں کھیلتے تھے۔ تاریخ سے مگر کوئی سبق کب لیتاہے! تاریخ پرمگرکوئی ایمان کب لاتاہے!