1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. آغر ندیم سحر/
  4. آدمی، آدمی کو کھاتا ہے

آدمی، آدمی کو کھاتا ہے

ضمیر حیدر ضمیر نئی نسل کے اہم شاعروں میں شمار ہوتا ہے، اس کی شاعری میں غمِ جاناں بھی ہے اور غم دوراں بھی۔ خدا نے ضمیر کو آنکھوں کی روشنی سے محروم رکھا مگر اسے دنیا دیکھنے کے لیے شاعری کی روشنی عطا کی، وہ اپنے باطن کی آنکھ سے جب سماجی کشمکش کو دیکھتا ہے تواس پر صدائے احتجاج بلند کرتا ہے، اس کے شعر احتجاج بھی ہیں اور نوحہ بھی، آپ دو شعر ملاحظہ فرمائیں:

آدمی، آدمی کو کھاتا ہے
بھیڑیا قہقہے لگاتا ہے

دشت مرتا ہے تشنگی سے مگر
ابر، دریا کو مے پلاتا ہے

ایسا سورج تو ڈھل ہی جائے ضمیرؔ
اصل چہرے کو یہ چھپاتا ہے

میں جب یہ شعر پڑھ رہا تھا، میرے ذہن میں ڈسکہ کا دل خراش واقعہ گھوم رہا تھا جہاں زارا نامی خاتون کو اس کی ساس نے (اپنی بیٹیوں کے ہمراہ) محض اس لیے موت کے گھاٹ اتار دیا تھاکہ اس کا بیٹا، زارا (بہو) سے محبت کرتا ہے، کیا کوئی ماں اتنی سفاک بھی ہو سکتی ہے کہ اپنے ہی اکلوتے بیٹے کا گھر اجاڑ دے، کیا کسی بھی لڑکی کو اس لیے موت کے گھاٹ اتارا جا سکتا ہے کہ اس کا شوہر اس سے محبت کرتا ہے، کیا بیٹیاں، شادی کے بعد محبت کا حق کھو دیتی ہیں؟ میں جب اس واقعے کی ایف آئی آر پڑھ رہا تھا، میری آنکھیں نم تھیں، یعنی سگی خالہ نے اپنی بہو کے جسم کے پچیس ٹکڑے کر دیے، قصور کیا تھا، صرف اتنا کہ اس کا شوہر اسے اپنے ساتھ بیرون ملک لے گیا تھا، یہ بات نہ ماں کو ہضم ہوئی اور نہ ہی بہنوں کو، لہٰذا جب زارا وطن واپس آئی تو ماں نے بیٹیوں کے ساتھ مل کر زارا کے تمام اعضا کاٹے، ٹانگیں اور بازو جسم سے علیحدہ کیے، اس کی آنکھیں نکالیں، اس کے جسم کے نازک حصوں کو الگ الگ کیا، اس کے چہرے کو آگ سے جھلسایا تاکہ ڈیڈ باڈی کی شناخت نہ ہوسکے، آخر میں ان لہولہان ٹکڑوں کو مختلف بوریوں میں بند کیا اور ان بوریوں کو گائوں کے مختلف نالوں میں بہا دیا۔

میں جب یہ واقعہ پڑھ رہا تھا، ضمیر حیدر ضمیر کا مصرعہبھیڑیا قہقہے لگاتا ہے، میرے دماغ میں گونج رہا تھا، کیا انسان اتنا سفاک بھی ہو سکتاہے، کیا مائیں اپنے بیٹے اس لیے بیاہتی ہیں کہ اپنی بہوئوں کو قدموں کی خاک بنا سکیں، یہ معاشرہ انسانوں کا ہے یاپھر بھیڑیوں کا، یار! اتنے سفاک تو بھیڑیے بھی نہیں ہوتے ہوں گے، جتنا ظالم اور متشدد آج کا انسان ہے۔ منڈی بہاء الدین سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر شاعر محمد عمر ندیم کا شعر یاد آ گیا:

زہرِ اس ماحول کا تھا مجھ میں اتنا بھر گیا
سانپ نے کاٹا مجھے اور کاٹتے ہی مر گیا

یہ صرف ایک واقعہ ہے، آپ سالِ گزشتہ کی رپورٹ پر ایک نظر دوڑائیں، آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ صرف ایک شہرِ کراچی میں گزشتہ برس سینکڑوں لوگوں کو قتل کیا گیا، اس میں مختلف ایج گروپ کے مقتولین شامل ہیں، وہ شہر کراچی جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے، آج خون آلودہ شہر بن چکا ہے، جہاں انسان کی جان کی قیمت محض پانچ دس ہزار والا موبائل فون ہے یا چند روپے۔

سال 2024ء میں پاکستان میں قتل کی شرح 2023 اور 2022ء سے تقریباً بیس گنا زیادہ تھی، یہ شرح کیسے بڑھی، اس کے پیچھے ہماری تشدد اور جبر کی وہ تاریخ ہے جو ہم نے اپنی نئی نسل کو پڑھائی۔ جب تعلیمی ادارے اور مدارس اتحاد اور بھائی چارے کی بجائے مذہبی، سیاسی اور مسلکی انتہا پسندی کو ہوا دیں گے تو معاشرے سے امن اور رواداری کی بجائے مار دو یا مر جائو، کے نعرے بلند ہوں گے۔ ایک نجی این جی او نے سالِ گزشتہ میں مقتولین کی فہرست کے ساتھ خودکشی اور اغوا برائے تاوان کے واقعات کی بھی تفصیلات بتائیں یعنی گزشتہ برس اغوائے برائے تاوان کے 2820 کیس ریکارڈ ہوئے، 2890 خودکشی کے کیس ریکارڈ ہوئے، پولیس ریکارڈ کے مطابق گزشتہ برس زنا کے 212، اقدام قتل کے 760، مجرمانہ قتل کے 67 اور اقدام خودکشی کے 33 واقعات رپورٹ ہوئے۔

گزشتہ برس پاکستان کے صرف شہر کراچی کے مختلف تھانوں میں 64 ہزار سے زائد مقدمات درج ہوئے جن میں مختلف جرائم شامل تھے، یہ ہے میرا وطنِ عزیز اور یہ ہیں میرے ملک کے باسی۔ آپ اس کے بعد زارا کے کیس پر آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ اس معاشرتی کسمپرسی پر بھی بین کریں گے کیوں کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، یہ معاشرہ اس اسٹیج پر کیسے پہنچا، اس کا سادہ سا جواب ہے لاقانونیت۔

ہم نے سنا تھا جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے، مگر صد حیف وطنِ عزیز تو جنگل سے بھی گیا گزار ہے، یہاں انسان کم اور بھیڑیے زیادہ بستے ہیں، ہم ایک دوسرے کو نوچ رہے ہیں، ایک دوسرے کو لہولہان کر رہے ہیں، ایک دوسرے کی جان لے رہے ہیں مگر نادم نہیں ہیں، اپنے انجام سے خوف زدہ نہیں ہیں، اپنی عاقبت کا اندیشہ نہیں ہے، کیا یہ معاشرہ رہنے کے قابل ہے؟ ہم منٹو کو برا بھلا کہتے ہیں کہ اس نے اس معاشرے کی تصویر بہت گندی دکھائی، آپ ایمان سے بتائیں یہ معاشرہ منٹو کی کہانیوں سے کہیں بڑھ کر نہیں؟ آج اگر منٹو زندہ ہوتا تو شاید وہ بھی دکھ اور کرب سے کچھ نہ لکھ پاتا۔

ہم قلم کاروں، استادوں، دانش وروں، صحافیوں اور علما کا بنیادی فریضہ ہے کہ اس معاشرے کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کریں، نئی نسل کو بے راہ روی سے بچانے کے لیے تشدد اور جبر نہیں بلکہ امن اور اخوت کا سبق پڑھانا ہوگا، شاید ہم ایک بہتر معاشرہ تشکیل دے سکیں۔