شاعر کے لیے یہ کافی ہے کہ شاعر کو یہ احساس ہو جائے کہ وہ شاعر ہے۔ لوگ شاعر کی قدر کریں نہ کریں، کیا فرق پڑتا ہے۔ شاعروں کو ہر دور میں اچھا برا کہا جاتا رہا ہے۔ دُنیا کے جملہ مذاہب میں شعرا کے بارے میں سخت وعید ملتی ہے۔ شعرا کے ساتھ ہر دور میں ناروا سلوک برتا گیا ہے۔ شعرا کو کبھی عزت و تحسین سے نہیں دیکھا گیا۔
شاعر کو پاگل، نیم وحشی اور عجیب و غریب مخلوق کے طور پر ٹریٹ کیا گیا ہے۔ شاعر بیکار، لایعنی اور دور ازکار باتیں کرتے ہیں۔ شاعر نان پریکٹیکل ہو تے ہیں۔ شاعر وں کی زندگی بڑی تلخ ہوتی ہے۔ شاعر بزدل اور ڈرپوک ہوتے ہیں۔ شاعر زندگی میں لفظ و خیا ل کے علاوہ کسی چیز کو اہمیت نہیں دیتے۔
شاعروں کی لوگوں کو ضرورت نہیں ہے۔ شاعروں کو لوگوں سے کوئی غرض بھی نہیں ہے۔ شاعر اپنی دُنیا میں مگن رہتے ہیں۔ شاعر بننے سے پہلے مذکور جملوں کو میں نے بارہا اپنے دوست و احباب سے سنا۔ سبھی یہی کہتے ہیں شاعر نہیں بننا چاہیے۔ شاعر بننے کے بعد بندہ شاعر ہی رہتا ہے انسان نہیں بن سکتا۔
مجھے شاعری کا کوئی خاص شوق نہیں تھا۔ میری بلا جانے کہ شاعری کیا ہوتی ہے۔ میٹرک، ایف اے، بی اے میں شاعری نصاب کی حد تک پڑھی ضرور تھی لیکن شاعری سے لطف اندوز ہونے زحمت کبھی گوارا نہیں کی تھی۔ نصاب میں شامل شاعری ویسے بھی بور کرتی ہے اور سمجھ میں نہیں آتی۔
شاعری سے جو گلہ آج ہمارے طالب علموں کو لاحق ہے وہی شکوہ مجھے اپنے زمانہ طالب علمی میں تھا۔ شاعری پڑھنا، شاعری سمجھنا اور شاعری کرنا تینوں مختلف جہتیں ہیں۔ شاعری ہر کوئی پڑھ سکتا ہے، شاعری کو سمجھا بھی جا سکتا ہے لیکن شاعری کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ شاعر بننے کی خواہش نے ہمیں اِرد گرد کے ماحول سے بے نیاز کر دیا۔
ہمارے خاندان میں آج تک کسی کو شاعر بننے کی توفیق نہیں ہوئی۔ میرے خاندان کے بیشتر افراد کم پڑھے لکھے اور ادبی ذوق سے کوسوں دورہیں۔ انھیں کیا معلوم کہ ہمارا چشم و چراغ چار پیسے کما کر لانے کی بجائے شاعر بن کر اپنی زندگی کو عبرت بنانے پر تُلا ہوا ہے۔
2008 میں بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد دن رات اس سوچ میں وقت گزرتا کہ آگے کیا کِیا جائے۔ دوست احباب نے دسیوں مشورے دئیے تاہم میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ مزید پڑھنا چاہیے یا کہ ملازمت اختیار کر لینی چاہیے۔ ان دنوں طبیعت میں عجب سی اُداسی اور بےکلی سی رہتی تھی۔ نیند کے خمار سے بدن ٹوٹتا رہتا تھا، حواس مختل سے رہتے اور جانے کیوں بدن میں شدید بے چینی کی لہریں موجزن رہتیں۔
اس کیفیت کو سمجھنے کی مجھ میں صلاحیت نہ تھی۔ ایک دن ڈاکٹر عظمت کے پاس گیا۔ وہ ان دنوں ایم اے اُردو کی پرائیوٹ تیاری کر رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا۔ یار! مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ تم بتاؤ۔ گھر والے تو ملازمت تلاش کرنے پر سارا زور صرف کر رہے ہیں، مجھے ابھی ملازمت اختیار نہیں کرنی۔ ڈاکٹر عظمت نے کہا، ایم اے اُردو کر لو۔
ان دنوں ہمارے گاؤں میں ہر کوئی ایم اے اسلامیات کر رہا تھا۔ گویا پوری دُنیا کو اسلام پڑھانے کا ٹھیکا ہمارے گاؤں کے لڑکے لڑکیوں نے لے رکھا تھا، اس لیے ہم نے پختہ ارادہ کر لیا کہ ایم اے اسلامیات نہیں کرنا۔ انگریزی ہمارے باپ دادا کو نہیں آئی، ہمیں کیسے آسکتی تھی۔ بالاآخر یہی طے ہوا کہ ایم اے اُردو کر لیتے ہیں۔
ڈاکٹر عظمت سے ایم اے پارٹ وان کے سلیبس کی کتابیں اُدھار لے کر گھر آیا۔ " کلاسیکی غزل کا خصوصی مطالعہ "پہلی کتاب کا ورق کھولا۔ قلی قطب شاہ، ولی دکنی، میر تقی میر، آتش، ناسخ، ذوق، غالب اور داغ کےناموں پر نگاہ پڑی تو یوں لگا جیسے ان صاحبانِ عالی وقار سے پہلے سے شناسائی ہے۔ قلی قطب شاہ کے دسیوں شعر پڑھے جو سر سے گزر گئے۔ جانے کس دور کی زبان ہے، یہ اُردو تو بالکل نہیں ہے۔ پھر دو، چار شعر ولی دکنی کے نظر سے گزرے تو نگاہ ٹھہر سی گئی:
جسے عشق کا تیر کاری لگے
اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے
ترے مکھ کے چمن کو دیکھنے سُوں
مجھے فرودسِ رضواں یا دآوے
مجھے احساس ہوا کہ یہ اُردو تو سمجھ میں کچھ کچھ آرہی ہے لیکن اُردو زبان و ادب میں ایم اے کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ دوسری کتاب"اسالیبِ نثر اُردو" دیکھی جس کی بالکل سمجھ نہیں آئی۔ تیسری کتاب"تاریخ زبان و ادب" پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا، گھر بیٹھ کر تیاری کرنا ناممکن ہے۔ دو، چار دوستوں سے اس بابت مدد لینے کی کوشش کی مگر انھوں نے صاف انکار کر دیا۔
پتوکی شہر کی سبھی اکیڈمیز چھان ماری کہ کوئی اللہ کا بندہ مل جائے جس کی راہنمائی سے ایم اے اُردو کا بیڑا پار ہوجائے۔ تلاشِ بسیار کے بعد محترم یونس جان (محروم)صاحب مل گئے جنھوں نے ریلوے لائن سے ملحق پرائیوٹ سکول کے ایک کمرے میں ایم اے اردو کی تیاری کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔
ہم نے الحمداللہ کہا اور فیس ادا کرکےکمرے میں داخل ہوگئے۔ میرے علاوہ سبھی لڑکیاں کمرے میں شوق سے پڑھائی میں غرق تھیں۔ پہلے پہل توکچھ سمجھ نہ آئی۔ یونس جان صاحب باقاعدہ تیاری کرکے لیکچر لیتے تھے، اگلے دن باقاعدہ سنتے تھے اور سخت ڈانٹ ڈپٹ سے بے عزت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑتے تھے۔
چند دن بعد ایک اور لڑکا کلاس میں داخل ہوا تو ہماری جان میں جان آئی۔ یہ لڑکا عرفان تھا جس سے ہماری گاڑھی دوستی ہوگئی جو اب تک قائم ہے۔ امتحان کے قریب ایک اور لڑکا تیاری کے سلسلے میں آشامل ہوا جس کا نام نوید تھا۔ یہ لڑکا شرارتی ہونے کے ساتھ تھوڑا رومانٹک بھی تھا، اس کی حرکات و سکنات سے ہمیں اکثر و بیشتر ذلیل کرکے یونس صاحب کلاس سے نکال دیتے تھے اور ہم بے شرموں کی طرح کھانے کا سامان لے کر پھر کلاس میں آدھمکتے تھے۔
پڑھائی کے دن تمام ہوئے، امتحان کا وقت قریب آگیا۔ خوب تیاری کرکے ہم امتحان میں شریک ہو گئے۔ امتحان سے فراغت کے بعد نتیجے کے انتظار میں کلاسیکی شعرا کے منتخب اشعار کو پڑھتا رہتا اور گنگتا تا رہتا۔ پتہ نہیں کیسے ایک دن ایک شعر کی آمد ہوئی جسے فوراً اپنا پہلا شعر تصور کرکے لکھ لیا۔ شعر یوں تھا:
بظاہر خوش دکھائی دے رہا ہوں
مگر اندر کی حالت مختلف ہے
یہ شعر اس بات کا احساس دلانے کے لیے کافی تھاکہ اب میں شعر کہہ سکتا ہوں۔ شعر کیا ہوتا ہے، شاعری کسے کہتے ہیں، وزن، بحر، قافیہ وغیرہ کیا بلائیں ہیں۔ اس کے بارے میں سطحی علم تھا۔ البتہ شعر پڑھنے، یاد کرنے، گنگنانے اور خود سے بنانے کی دُھن بدرجہ غائیت ذہن و قلب پر سوار تھی۔ شدید جذباتیت کے اس دور میں چند دنوں میں بیس کے قریب کچے پکے جذبات میں لتھڑی ہوئی غزلیں لکھ ڈالیں۔
ایک مہنگی ڈائری غزلیات کو صاف کرکے لکھنے اور جمع کرنے کی غرض سے خریدی گئی۔ ایم اے اُردو کا نتیجہ ان دنوں سات آٹھ ماہ کے بعد آتا تھا۔ یہ مہینے ہم نے آوارگی میں گزارے۔ سارا دن سویا رہتا اور رات بھر گاؤں کی گلیوں میں آوارہ پھرتا رہتا۔ میر، آتش، ناسخ، ذوق، غالب، داغ، ناصر، فیض کی شاعری کو پڑھنے اور رٹنے کے بعد مجھ میں مذکورہ تمام شعرا کی روحیں سما گئی تھیں۔ ان شعر اکے دواوین کسی طرح مستعار لیے اور گاہے گاہے سبھی پڑھ ڈالے۔ الفاظ کا ذخیرہ ہاتھ آنے کے بعد لکھنے اور سمجھ کر محسوس کرنے کی صلاحیت بڑھ گئی۔
نوجوانی کا عالم ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ انسان سب کچھ کر گزرنے کی جستجو میں غرق رہتا ہے۔ اس جذباتی دور میں کسی چیز کی ناکامی اور نا آشنائی انسان کو بہت تکلیف دیتی ہے۔ میں نے یہ ٹھان لی کہ اکیسویں صدی کے میر وغالب ہم نے ہی بننا ہے اس لیے موٹے موٹے دواوین کے مقابلے میں اپنی شاعری کا حجم بھی بڑھانا ہوگا۔
تین ماہ میں ہم نے سو کے قریب غزلیں لکھ ڈالیں۔ اتنا مواد جمع ہونےکے بعد کسی کو دکھانے کی جرات نہیں کی۔ ذہن میں یہی تھاکہ کتابی صورت میں پہلا مجموعہ شائع کروا کے سب کو حیران کر ڈالوں گا۔ اسی خواہش کی تکمیل کے سلسلے میں گاؤں کے ایک مرنجاں مرنج دوست مولوی امتیاز صاحب جسے تنہائی نے چاٹ لیا تھا۔ اس کے ہمراہ اس کے جیب خرچ پر شہرِلاہور میں حُسنِ قلم پبلی کیشنز کے مالک وحید احمد زمان محروم کے پاس ڈیفنس پہنچ گئے۔
سرسری تعارف کے بعد انھوں نے میرے ہاتھ سے رجسٹر لیا، ورق گردانی کرتے ہوئے ہلکا ہلکامسکرانے لگے۔ ہم چائے پی چکے تو موصوف فرمانے لگے۔ بہت اچھا کلام ہے، احساس اور شعریت کا سنگم بہت عمدہ ہے۔ یہ ساری غزلیا ت آپ کی ہیں۔ میں نے فرطِ مسرت سے کہا۔ جی حضور! یہ سارا کلام میرا اپنا ہے، آپ بس اسے چھاپ دیجیے۔ وحید زمان صاحب نے کہا، کلام تو بہت عمدہ ہے لیکن اس میں وزن کی کمی ہے۔
میں نے کہا، وزن کی کمی تو نہیں ہے، سب کچھ برابر ہے اور درست ہے۔ میں نے پوری احتیاط کے ساتھ کلام لکھا ہے۔ آپ چیک کر لیجیے۔ اس کے باوجودآ پ کو جہاں جہاں کمی بیشی محسوس ہوتی ہے اُسے ٹھیک کر دیجیے۔ یہ جملہ سُن کر وہ قہقہہ لگا کر ہنسے اور کہنے لگے: واہ میاں! کیا معصومیت ہے، کیا اندازِ تکلم ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کامنہ دیکھنے لگے۔
وحید صاحب نارمل ہوئے تو فرمانے لگے۔ میاں یہ کلام شائع نہیں ہوسکتا۔ یہ کلام بے وزن ہے، آپ ایک کام کیجیے، آپ میرے پاس ہفتے میں ایک بار تشریف لے آیا کیجیے۔ میں آپ کو وزن سکھا دوں گا، پھر شوق سے شاعری کرتے رہیے۔ میں نے کہا: سر، میں تو گاؤں میں رہتا ہوں، وہاں سے ہفتے بعد آنا میرے لیےمشکل ہو جائے گا میں بے روزگار ہوں۔
انھوں نے کہا، کوئی مسئلہ نہیں، آپ میرے پا س ملازمت کر لیں۔ میں نے کہا: سر، میں رہوں گا کہاں اور کھانا پینا کیسے چلے گا۔ وہ ہنسنے لگے اور کہنے لگے، تم پندرہ دن بعد آجایا کرو۔ باقی میں دیکھ لوں گا۔ مایوس و نا اُمید ہو کر وحید صاحب کے پاس ہی غزلیات والا رجسٹر چھوڑ میں ہم گاؤں واپس آگئے۔ گاؤں آکر یوں محسوس ہوا جیسے دُنیا کی قیمتی ترین متاع چھن گئی ہے۔ زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں رہا۔ شاعری پڑھنا ترک کر دی اور لکھنا تو بالکل موقوف ہوگیا۔
تین ماہ یونہی گزر گئے، امتحان کا نتیجہ آیا تو ہم سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہوگئے۔ رب کا شکر ادا کیا۔ بوریا بستر باندھا اور ہمیشہ کے لیے گاؤں چھوڑ شہرِ لاہور آگیا۔ یہاں ملتان روڑ چوہنگ میں پھوپھو رہتی ہیں، انھیں کے یہاں قیام کا بندوبست ہوگیا۔ ملازمت کی تلاش میں ایک مہینہ گزر گیا۔ ایک نجی سکول میں مدرس کی حیثیت سے ملازمت مل گئی۔
ملازمت کے بعد وحید احمد زمان کے پاس وقت بے وقت چلا جاتا اور وہ فعلن فعلن فعلن کی گردانیں رٹواتے اور کہتے "ابنِ مریم ہوئے کرے کوئی" کے وزن پر بیس مصرے لکھو۔ دو تین گھنٹے کی مشقت کے بعد جو ٹوٹے پھوٹے مصرعے لکھتا وہ کمال شوق سے دیکھتے اور کہتے کہ ابھی بات نہیں بنی، مزید مشقِ سخن جاری رکھو۔ دو برس وزن سیکھنے اور بحر و ارکان کی تقسیم کے وسیع و عریض حسابی کھاتے کو سیدھا کرنے میں گزر گئے۔ اس دوران کچھ غزلیں بھی کہیں جن میں جذبہ و احساس کے ساتھ وزن کی مہک بھی محسوس ہوئی۔
آخر وہ وقت آپہنچا یعنی2014 میں ہمار اپہلا مجموعہ"کچھ کہنا ہے" شائع ہو کر مارکیٹ میں آگیا۔ اس مجموعہ کی تقریبِ رونمائی کا اہتمام آئی بی ایل کالج (فیصل ٹاؤن) کے چیرمین جناب مبارک حیات صاحب نے کی جس میں کالج کے جملہ اسٹاف و طلبا سمیت جان پہچان کی علمی و ادبی شخصیات نے شرکت کی۔ اس تقریب میں ہم نے چند اشعار سنا ئے جس پر خوب داد وصول کی۔ یہ اشعار اُس وقت ہمارے زبان پر جاری رہتے تھے۔ آپ بھی سن لیجیے:
زیست اک بلبلے کی مانند ہے
پھر بھی لمبا عذاب ہے یارو
ہماری آنکھوں کا کرکے خوں محسنؔ
وہ آنکھوں میں سپنے سجا بیٹھے
جو مری تقدیر میں پت جھڑ کےموسم لکھ گئی
گلشنِ دل کو کبھی مہکائے گی سوچا نہ تھا
کتنا غم میں تڑپا ہوگا
رونے سے دل ہلکا ہوگا
لبوں کے کھل گئے تالے
خموشی کتنی چھائی تھی
پہلے مجموعے کی اشاعت کے بعد ہم نے شعری سفر جاری رکھا۔ 2016 میں ہمارا دوسرا شعری مجموعہ"دُھند میں لپٹی شام" شائع ہوا۔ اس مجموعے میں غزلیات کے علاوہ نثری نظمیں شامل ہیں۔ اس مجموعے میں شاعرانہ رنگ و آہنگ پہلے کی نسبت زیادہ کھل کر سامنے آیا۔ دوسرے مجموعے کی اشاعت میں خیال، جذبہ اور شاعر کے درمیان ہم آہنگی ہوگئی تھی۔ وزن کی سمجھ بوجھ کے ساتھ شعر کہنے کا سلیقہ بھی کسی حد تک آگیا تھا۔ دوسرے شعری مجموعے میں شامل غزلیات سے چند منتخب اشعارملاحظہ کیجیے:
رنگ جب روشنی سے ملتے ہیں
ہم بھی تب زندگی سے ملتے ہیں
جان دے سکتے ہیں، ایمان گنوانے سے رہے
اس سے بڑھ کر ترے ناز اُٹھانے سے رہے
جب بچھڑنے کا غلط تھا فیصلہ
فیصلہ کیوں آج تک بدلا نہیں
آج بادل کھل کے برسا ہے
کس کی یادوں میں اتنا رویا ہے
وحید احمد زمان کی شاگردی میں دن رات شاعری سے شغل رہنے کے باوجود ہم اچھے شاعر نہ بن سکے کیوں کہ ہماری ساری توجہ روزگار کے مواقع کی تلا ش میں صرف ہوتی رہی۔ 2015 میں لاہور کے معروف تعلیمی ادارے ڈی پی ایس ماڈل ٹاوں میں ماہر مضمون اردو کی حیثیت سے ملازمت ہونے پر دلی اطمینان ہوا۔ شاعری کا سفر جاری رہا۔ اسی دوران ایم فل اُردو میں ناردرن یونی ورسٹی نوشہرہ میں داخلہ لے لیا۔
وقت گزرتا رہا اور ہمارا شعری سفر جاری رہا۔ 2016 میں نثر پاروں پر مشتمل تیسری تصنیف" آبِ رواں" کے نام سے دُعا پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوئی جس میں زندگی کے تلخ ایام کو نہایت اختصار کے ساتھ نثر پاروں میں مقید کرکے پیش کرنے کی کوشش کی گئی یعنی جو خیالات، احساسات، دُکھ، درد اور آلام و افکار شعر میں ڈھل نہ سکے، انھیں نثر میں لکھ ڈالا۔ 2015 سے 2018 کا سفر یوں گزرا جیسا ہوا بغیر احساس دلائے چپکے سے گزر جاتی ہے۔
2018 میں لیکچرار کی حیثیت سے گورنمنٹ ڈگری کالج ڈسکہ سیالکوٹ کو جوائن کیا۔ ایک نئی دُنیا سامنے تھی جس کے طلسم میں کھو جا نا معمولی بات نہ تھی۔ شاعری کے ساتھ ایم فل اُردو کی تکمیل 2016 میں ہونے کے بعد پی ایچ۔ ڈی اُردو کے لیے ناردرن یونی ورسٹی ہی کا انتخاب کیا گیا جہاں پروفیسر ڈاکٹر اشفاق حسین بخاری، پروفیسر ڈاکٹر منور ہاشمی، پروفیسر ڈاکٹر سید طاہر علی شاہ اور پروفیسر ڈاکٹر نذر عابد کی زیر نگرانی دستاویزی تحقیق کے ساتھ شاعری کا شغل بھی جاری رہا۔
ناردرن یونی ورسٹی کے مشاعروں میں شرکت کرنے کا بھی موقع ملا نیز ڈاکٹر منور ہاشمی سے غزل کی پلکوں کو سنوارنے اور تراشنے کا مزید موقع ملا۔ 2024 میں پی ایچ ڈی کی تکمیل کے بعد شاعری کا زور رفتہ رفتہ گھٹ سا گیا جبکہ تحقیق و تنقید میں قلم رواں ہوگیا۔ لسانیات میرا پسندیدہ موضوع ہے کہ اس میں لفظ و معنی کےباہمی سنگم کے لطف سے محظوظ ہونے کا موقع ملتا ہے۔
شاعر کے لیے الفاظ ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔ الفاظ کے بغیر احساس کو زبان نہیں ملتی۔ شاعر الفاظ اور احساس کے سہارے اپنے اندر کی دُنیا کو متشکل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ شاعر جس قدر حساس ہوتا ہے اسی قدر لفظوں کا رمز شناس بھی ہوتا ہے۔ اسے یہ سلیقہ اور ہنر بخوبی آتا ہے کہ کس لفظ سے کون سا معنی اخذ کرنا ہے اور کس طرح خیال کی سمت کو الفاظ کے تابع کرنا ہے۔
مرورقت کے ساتھ غزل کی طرف رجحان کم ہوکر نثری نظموں کی طرف دلچسپی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے، یہ میں نہیں جانتا۔ میں سمجھتا ہوں، غزل میں احساس کو من و عن منتقل کرنا بہت مشکل ہے۔ احساس و خیال کو غزل کے آہنگ میں ڈھالتے ہوئے الفاظ کی کاریگری رہ جاتی ہے جبکہ خیال و احساس فوت کی اثریت زائل ہو جاتی ہے۔
نثری نظم کا ایک فائدہ یہ ہےکہ آپ خیال کو الفاظ کی تان پر اُتارتے چلے جاتے ہیں اور خیال خود ہی اپنے اظہار سے متصل مناسب سنگیت کے سُروں کا کا چناؤ کرتا جاتاہے۔ نثری نظم میں ساری کاریگری خیال کو بعینہ صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے پر ہے۔ خیال و احسا س سے لیس ہمارا نثری نظموں کا تیسرا غیر مطبوعہ شعری مجموعہ"میں اُسے یاد نہیں کرتا" اشاعت کے مراحل میں ہے۔
اس مجموعےکی اشاعت کا ہمیں بھی انتظار ہے۔ جاتے جاتے ذرا، یہ نظمیں سنتے جائیے۔
میں اُسے یاد نہیں کرتا
میں اُسے یاد نہیں کرتا
یاد کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے
جو شخص دل سے اُتر جائے
بیچ رستے چھوڑ کر چلا جائے
اُسے یاد کرنے نہ کرنے سے
کیا فرق پڑتا ہے
میں اُسے یاد نہیں کرتا
میں اُس کا نام بھی نہیں لیتا
وہ مجھے اچھا بھی نہیں لگتا
اُس سے کوئی واسطہ نہ رہا
میں کیوں اُسے یاد کروں
میں اُسے یاد نہیں کرتا
میں اُسے یاد نہیں کرتا
***
یہ وہی کمرا ہے
یہ وہی کمرا ہے
جہاں پانچ سال پہلے
مارچ کے ٹھنڈے موسم میں
ہم نے پہلی رات گزاری تھی
ایک نئی زندگی کی ابتدا کی تھی
مدت بعد آج اس کمرے میں جھانک کر دیکھا
دل بجھ سا گیا
دیوار پر آویزاں سینری کی تختیوں کے علاوہ
پورے کمرے کا سامان بدل چکا ہے
یہ تین تختیاں
آج بھی یہیں آویزاں ہیں
اِنھیں کسی نے اُتارا نہیں
یہ کیسے ہوسکتا ہے!
مگر یہ ہوا ہے
شاید تمہیں یاد ہو
یہ تختیاں کسی عزیز نے شادی میں گفٹ کی تھیں
کیا ہی اچھا ہوتا
ان تختیوں کی طرح
محبت کی دیوار پر
ہمارا رشتہ ٹنگا رہتا
زندگی مُسکراتی رہتی
دل یوں اُداس نہ ہوتا