1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. سید محمد زاہد/
  4. عریاں احتجاج

عریاں احتجاج

"یہ کیسے ممکن ہے؟" کرسٹینا نے سوال کیا۔

نیلما سوچ میں پڑ گئی۔ کچھ دیر بعد بولی۔

"تحریک عوام میں مقبولیت حاصل کر چکی ہے لیکن ملک کے کرتا دھرتا ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ کچھ نیا کرنا پڑے گا"۔

"یہ امریکہ یورپ نہیں، ایک مسلمان ملک ہے یہاں کسی بندے کو کیسے تیار کیا جا سکتا ہے کہ وہ ننگا ہو کر احتجاج کرے"۔

"دنیا بھر میں احتجاج کا یہ بہترین طریقہ گنا جاتا ہے، ہم اس پر عمل کریں گے"۔

نیلما دو ہفتے پہلے ہی اسلام آباد پہنچی تھی۔ کرسٹینا شروع سے اس پراجیکٹ پر کام کر رہی تھی۔ اس کے کئی این جی اوز اور سیاستدانوں سے رابطے تھے۔ فیصلہ ہوا کہ کسی این جی او سے مدد لی جائے۔

نیلما کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا اور ماس میڈیا پر بھی قتل اور سیکس کی رپورٹنگ بہترین قسم کے آرٹیکل سے دس گنا زیادہ توجہ حاصل کرتی ہے اس لیے یہ انوکھا احتجاج بہت پبلسٹی لے گا۔

ایک عورت اور بچے کو تیار کر لیا گیا۔ اگلے دن بھوک و افلاس کے خلاف احتجاج میں وہ عورت اپنے ننگے بچے کو اٹھائے پولیس کے سامنے کھڑی تھی۔ بچے کو جان بوجھ کر بھوکا رکھا گیا تھا۔ وہ ماں کی چھاتی نوچ رہا تھا۔ اسی وقت مجمع نے پولیس پر پتھر برسانا شروع کر دیے۔ لاٹھی چارج اور گرفتاریاں۔ بھوکا ننگا بچہ اور ماں کا سینہ، پولیس کا اس عورت کو پکڑ کر لے جانا: قمیض پھٹ گئی یا عورت نے خود ہی پھاڑ دی، کسی کو کچھ پتا نہ چلا۔

سب کچھ ہماری پلاننگ کے عین مطابق ہوا۔ کیمرے کسی پلاننگ کے محتاج نہیں ہوتے۔

سوشل میڈیا پر ہیجان برپا ہوگیا۔ عالمی میڈیا بھی چیخ اٹھا۔

"ننگی جارحیت کرنے والوں نے ماں کو بھی ننگا کر دیا"۔

"دھرتی ماں کے لٹیروں کا ماں کی عزت پر ڈاکا"۔

میں ماں کے ساتھ ہوں، سوشل میڈیا ٹرینڈ بن گیا۔

ہزاروں مائیں اپنے بچے سینے سے لگائے سڑکوں پر نکل آئیں۔

***

نیلما کولمبیا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہی تھی۔ مقالے کا عنوان تھا " کیا پاکستان کی موجودہ تحریک کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے؟" ریسرچ پرپوزل پر بات کرتے ہوئے سپروائزر کا پہلا سوال تھا۔

"کیا تم کبھی پاکستان گئی ہو؟"

"جی نہیں۔ لیکن میرے والدین پاکستانی ہیں"۔ نیلما نے جواب دیا۔

"اس ریسرچ کو کون سپانسر کر رہا ہے؟"

"سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ"۔

"اوکے گو اہیڈ"۔

***

تحریک زوروں پر تھی۔ روزانہ کی بنیاد پر ملک میں کہیں نہ کہیں ایجی ٹیشن ہو رہی تھی۔ کچھ طاقت کے استعمال کے مظاہرے بھی دیکھنے میں آ رہے تھے۔ پچھلی ایک دہائی سے ملک کی سیاست اور معیشت میں انقباض کا عالم تھا جو انسانوں میں ایذا رسانی کا رجحان پیدا کر دیتا ہے۔ ہر وقت دھڑکا لگا رہتا کہ کوئی بڑا حادثہ برپا پونے والا ہے۔

نیلما اپنی تحقیق جاری رکھے ہوئے تھی اور ساتھ ساتھ اس تحریک میں مکمل طور پر شامل بھی ہوگئی۔

پہلی کامیابی کے بعد وہ مزید نئے انداز اپنانا چاہتی تھی۔

"اب ہم سول نافرمانی کی تحریک چلانے میں مدد کریں گے"۔

"یہ طریقہ کئی مرتبہ ناکام ہو چکا ہے۔ گاندھی اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی مہمات کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا"۔

"کوئی بات نہیں کامیاب نہ بھی ہوا تو ہم حکمران طبقے کو بہت زیادہ نقصان پہنچا دیں گے۔ کامیابی حاصل کرنے کے لیے اس مضبوط عمارت کو مختلف جگہ سے نقصان پہچانا پڑے گا۔

چار سال وزیر اعظم رہنے والے کے پاس بہت سی خفیہ معلومات ہوں گی کچھ انٹرنیشنل میڈیا تک پہنچا دیں گے۔ خلائی مخلوق کی کامیابی خفیہ ایجنٹ ہیں۔ افغانستان اور دیگر ہمسایہ ممالک میں کام کرنا ان کے لیے مشکل بنا دیں گے۔ ہم ان کے نام عوامی اجتماعات میں لینا شروع کر دیتے ہیں۔ کسی کو ایکس وائی کہیں گے اور کسی کو ڈرٹی ہیری۔ مڈل ایسٹ ممالک کے وہ چہیتے جو ہر کابینہ میں لے لیے جاتے ہیں ان کی اپنے آقاؤں سے خفیہ ملاقاتیں اور روابط کے ثبوت عوامی اجتماعات میں سب کے سامنے رکھ دیں گے"۔

"کوئی پاکستانی سیاست دان یہ کرنے کی ہمت نہیں کرے گا"۔

"میں بھی پاکستانی ہوں"۔

اگلے جلوس میں نیلما خود سٹیج پر تھی اور اس نے ساری معلومات عام کر دیں۔

عوام کو کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا۔ لاٹھی چارج شروع ہوا تو نیلما نے کرسٹینا کا ہاتھ پکڑا، "بھاگو اس سے پہلے کہ یہ ڈنڈے اور آنسو گیس کے شیل ہمارے اردگرد پہنچ جائیں"۔

ایسی افراتفری پھیلی کہ الامان۔ کچھ لاٹھیوں سے گھائل ہوئے اور کچھ بھگدڑ میں زخمی۔

***

تحریک اب اس جگہ پہنچ چکی تھی جہاں عوام یہ سوچتے ہیں کہ ہمارا بھلا ہو نہ ہو، حکمرانوں کو غارت ہونا چاہیے۔

سول نافرمانی کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے عام قسم کے قوانین کی خلاف ورزی شروع ہوگئی۔ اسلام آباد کی سڑکوں پر لوگوں نے الٹی طرف گاڑیاں چلانی شروع کر دیں۔ ٹریفک بلاک ہو جاتی۔ اصل مجرم اس ہجوم میں کھو جاتا۔ پولیس ٹریفک کو سنبھالتی تو ٹرین سروس کو خراب کرنے کے لیے بہت سے لوگ بلا ٹکٹ اس میں سوار ہو جاتے۔ جان بوجھ کر انتظامیہ سے لڑ پڑتے۔ مجمع اکٹھا ہوتا تو اصل مجرم غائب۔ جاتے جاتے مار دھاڑ اور لوٹ مار شروع کر دیتے۔ سارے کھیل کے لیے وافر فنڈز تھے اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے خفیہ ایجنٹ مدد کو موجود۔ اوندھی کھوپڑی والے سیاست دان، دہائیوں سے تشدد پر اکسانے والی سیاست اور خونریزی کی داستانیں رقم کرنے والی اس قوم کو ایسے مواقع مل جائیں تو وہ تباہی مچا دیتے ہیں۔

مقتدرہ کے مختلف تجربات اور بد اعمالیوں سے سیاسی و معاشی بدحالی عروج پر پہنچ چکی تھی۔ اب ان کو شدید مزاحمت کا سامنا تھا۔ پچھلے تجربہ نے ان کی ریڑھ کی ہڈی پر ایسا زخم لگایا کہ ان کا پورا اعصابی سسٹم انتشار کا شکار ہوگیا تھا۔ اب پورے ملک میں اتحادیوں سمیت کوئی بھی ان کا حامی نہیں رہا تھا۔

ڈیپ سٹیٹ کے اصل حکمرانوں نے بھی یہ سب بھانپ لیا سو مذاکرات شروع ہو گئے۔

***

سڑکوں پر عوام کو کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا تو جگہ جگہ کنٹینر لگا کر اسلام آباد کو سیل کر دیا گیا۔ عوام کو کسی جگہ اکٹھا ہی نہیں ہونے دیا جا رہا تھا۔

نیلما نے گھر بیٹھے نئے طریقے ڈھونڈنا شروع کر دیے۔

"کیوں نہ ہم خلائی مخلوق پر ہوائی حملہ کر دیں؟"

"ہوائی حملہ، کیسے؟"

دونوں نے کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ تجویز قابل عمل ہے۔

سور کا دھڑ اور دیوتا کا سر، لاکھوں غبارے پورے شہر میں کارکنان کے پاس پہنچا دیے گئے۔ اگلے دن سورج طلوع ہوا تو آسمان نیلا نہیں، رنگ برنگا تھا۔ ملک کے کرتا دھرتا سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔

ہزاروں پرنٹنگ پریس بند اور سینکڑوں کارکنان گرفتار۔

پولیس نیلما کو ڈھونڈ رہی تھی۔

حالات خراب دیکھ کر اس نے اپنے سفارت خانے میں پناہ لے لی۔ رات اسے مڈل ایسٹ شفٹ کر دیا گیا۔ جانے لگی تو کرسٹینا نے پوچھا، "تبدیلی کا کیا بنے گا؟"

"مذاکرات جاری ہیں۔ حکمران جانیں اور اپوزیشن والے۔

تبدیلی گئی بھاڑ میں، میری ریسرچ پوری ہوئی۔ مجھے تھیسس کے لیے کافی مواد مل گیا ہے"۔