بالآخرمخالفوں کی دلی مراد بھر آئی۔ میاں صاحب جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ تین گھنٹے پیش رہنے کے بعد آپ باہر نکلے تو پیشی کو زیر و زبر کرنے لگے۔ یعنی لکھی ہوئی تقریرفرمانے لگے۔ عمران خان کو ا س پر بھی اعتراض ہواکہ پہلے سے لکھی ہوئی تقریرکیوں کی گئی۔ ظاہر ہے جب میاں صاحب فی البدیہہ تقریر نہیں کرنا چاہتے تھے تو انھوں نے تقریرپہلے سے اورپلے سے ہی لکھ کے لانی تھی۔ اب وہ جے آئی ٹی کی پیشی میںبیٹھ کر تازہ تقریرتولکھنے نہیں گئے تھے۔ ممکن ہے عمران خان کو لگا ہو کہ چونکہ میاں صاحب کے لئے یہ بھی ایک امتحان ہے تو امتحانی سنٹر کی طرح یہاں بیٹھ کے بھی میاں صاحب کو جوابی شیٹوں پر تقریرلکھنی چاہئے تھی، ہمارے کالم نگار دوست خواجہ جمشیدامام کوعمران خان کو بتانا چاہئے کہ یہ اور طرح کا امتحان ہے، یعنی۔ ۔ ع
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
والاامتحان۔
عمران خان نے مزید کہاکہ پہلے سے لکھی ہوئی اس تقریر کا مطلب ہے کہ جے آئی ٹی کے سامنے میاں صاحب کوئی نئی بات پیش نہیں فرما سکے۔ اب اس اللہ کے بندے کوکون سمجھائے کہ اس قوم کے ساتھ جو بھی ہوتاہے، وہ پہلے سے لکھا ہوا ہی ہوتاہے، اورایک زمانے سے اس قوم کے ساتھ کچھ نیانہیںہوتا۔ الیکشنوں میں اس کیساتھ تو ہاتھ بھی پرانا ہی ہوتاہے۔ چنانچہ عرصہ ہوا، یہاں نہ حکمرانوں کی تقریر بدلتی ہے اورنہ عوام کی تقدیر۔ دنیا میں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہوگی، پاکستان میں آکے تولگتاہے، تاریخ چاروں پہیے جام ہو جاتی ہے، بہرحال اس تقریرمیں میاں صاحب نے کئی باتیں زیروزبرکیں، یعنی عوام کے ہاں ازبرکیں۔ یہ بھی فرمایا کہ آج انھوں نے پائی پائی کا حساب چکا دیا۔ لگتا ہے یہ تقریر مکرم عرفان صدیقی صاحب نے نہیں لکھی، وگرنہ وہ یہاں فیض کو یاد کئے بغیر رہ نہ سکتے تھے۔ ۔ ع
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر، وہ (پائی پائی کا)حساب آج چکا دیا
افسوس یہ تقریرہمارے سرپھرے دوست’ تشویشناک خوفناکی‘ نے بھی سن لی۔ کہنے لگے، پہلے تویہ کہا جاتاتھاکہ اتنے سال پرانا حساب چکانا تو کجا دستیاب ہوناتک ممکن نہیں۔ اب یکایک یہ کیا معجزہ ہوگیاکہ وہی دستیاب نہ ہو نے والاحساب دیا، دکھایااور چکایاتک جاچکا؟ خوفناکی صاحب نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم وضاحت کریں کہ آیاپہلی بات زیادہ غلط تھی یا دوسری بات زیادہ غلط؟ کاش میاں صاحب یہی آنہ پائی عرف پائی پائی کا حساب پہلے ہی چکادیتے توایک توہم تشویشناک خوفناکی کے سامنے لاجواب نہ ہوتے اور دوسرے قوم کا وقت بھی بچتا۔ اگرچہ دوسری بات پہلی سے زیادہ اہم نہیں۔ اب آپ سے کیا عرض کریں کہ خوفناکی صاحب ایسے نہیں کہ جوچودھری نثار کی پریس کانفرنس کی طرح پھیلنے پر آجائیں توانھیں چپ کروایا جا سکے، مزید بکنے لگے، ویسے ایک بات ہے! بے چارگی سے ہم نے پوچھا، اب کیابات ہے؟ کہنے لگے، کچھ چیزیں ایسی نازک بھی ہوتی ہیں کہ جنھیں پیش کرنے کے معاملے میں کسی دوسرے پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ شکرہے ا س کے جواب میں تشویشناک صاحب نے کوئی فلسفہ بگھارنے کے بجائے بس لطیفہ سنانے پرہی اکتفاکیا۔ کہنے لگے، کسی دورپار یا دریاپار دیس کی بات ہے۔ ایک وکیل صاحب نے ایک کیس لے تولیا، مگرپیش کرنے کیلئے ا ن کے پاس دلائل نہ تھے۔ چنانچہ پہلے تو وہ کافی پیشیوں پر عدالت کی اخلاقی و قانونی حیثیت پر بات کر کے موقع نکالتے اور وقت ٹالتے رہے۔ پھرمگر جب ایک دن عدالت کا وقت ضائع کرنے پر جج صاحب نے اس ناہنجار وکیل کو گھور کردیکھاتو فوراًوکیل صاحب نے پینترابدلا۔ عرض کی حضوریہ مقدمہ عین برحق ہی نہیں، بلکہ اس پر پیش کرنے کیلئے تو میرے پاس دلائل کا بھی انبار لگاہے۔ بس آپ ذرا توجہ تو فرمائیں۔ ساتھ ہی وکیل نے قانون کی ایک کتاب بھی جج صاحب کے حضور پیش کردی، یہ کہتے ہوئے کہ ا س کتاب کے صفحہ چار سو بیس پر دلیل ملاحظہ کرلی جائے۔ جج صاحب نے دیکھاتووہاں اچھی مالیت کاایک کرارا نوٹ پڑاتھا، جج صاحب فرمانے لگے، یہ والی دلیل واقعی کافی مضبوط ہے، کیس جیتنا ہے توایسی ہی دو چار مزید دلیلیں بھی پیش کی جائیں۔ خیرچھوڑئیے لطیفے کو۔ ویسے بھی بعض وکیل اور مدعی بڑے چست ہوتے ہیں۔
تقریرمیں میاں صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ میں جے آئی ٹی کے سامنے ا س لئے پیش ہواہوں کہ قانون سے کوئی بھی بالاتر نہیں ہوتا، اس سے پہلے کہ ہم پر ا س جملے کا مفہوم واضح ہوتا۔ اگلی ہی سانس میں آپ نے یہ بھی فرمایاکہ یہ جے آئی ٹی انھیں کچھ چھوٹی چھوٹی اورذرا تنگ تنگ سی محسوس ہوئی ہے، چنانچہ جلد ہی وہ ا س سے، بلکہ سب سے بڑی جے آئی ٹی میں بھی ضرورپیش ہوں گے۔ اب اس سے آپ یہ مت سمجھئے گاکہ میاں صاحب کوویسے ہی جے آئی ٹی وغیرہ میں پیش ہونے میں مزا آنے لگاہے، اس شاعر کی طرح کہ جس نے کہا تھا ؎
ایک دن ان کی گلی سے گزرا تھا میں
پھر یہ روز کا مشغلہ ہو گیا
دراصل اس بڑی جے آئی ٹی سے میاں صاحب کی مراد عوام تھے۔ عوام جو اپنی جنس اوراردو لغت کے اعتبارسے مذکر ہونے کے باوجود محترمہ بے نظیربھٹوکی زبان پر مؤنث ہوگئے تھے۔ محترمہ آکسفورڈ کی پڑھی تھیں۔ انگلش فرفراوراردو کم کم بولتی تھیں۔ یعنی اتنی ہی جتنی پاکستانیوں پر حکومت کرنے کیلئے ناگزیرتھی۔ انھوں نے اس پر زیادہ غور نہیں فرمایا کہ پاکستانی عوام اردو میں مذکر ہوتے ہیںیامؤنث۔ انھوں نے عوام کو مؤنث بول دیاتو میڈیا نے یہی لے لیا۔ ہمارامیڈیاویسے بھی بڑا صابر و شاکر ہے، چھوڑتانہیں، حکمرانوں سے جو ملے لے لیتاہے۔ ویسے پاکستانیوں نے بھی ثابت کردکھایاکہ ان پر حکمرانی کرنے والا بے شک ان کی جنس بدل ڈالے، یہ اس کی حکومت چلنے دیں گے، بشرطیکہ حکمران کی مالی حالت، انگلش اورامریکہ سے تعلقات اچھے ہوں۔ جب تک حکمران عوام کے نام پر اپنا کام نکالتے رہیں گے، ادا جعفری کی ہمنوائی میں ہمارے عوام بھی مست ہیں کہ چلئے ان کا بادشاہ کبھی کبھی ان کا نام تو لیتاہے ؎
ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے
چنانچہ ہمارے عوام خوش رہتے ہیں۔ خواہ خوابوں، جگنوؤں، جنگلوں اور پراسرار فضاؤں کا شاعر منیر نیازی انھیں کتنا ہی جگاتارہے ؎
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
ایک جملہ بی بی نے کہاتھا، جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ ہم پاکستانی مجسم گواہ ہیں کہ واقعی ہر جمہوریت نے ہم سے اپنی نوعیت کا انتقام لینے میں بہترین سے کم پر کبھی اکتفا نہیںکیا۔ اب یہ دوسرا جملہ میاں صاحب ہی نے نہیںکہاکہ بڑی جے آئی ٹی میں جائیں گے۔ ایک بڑے کالم نگار نے بھی یہ لکھا کہ اصل فیصلہ عوام کی عدالت میں ہوگا، تشویشناک خوفناکی کے نزدیک یہ جملہ بھی توہین ِ عدالت کے زمرے میں آنا چاہئے، یا پھرعدالت جیسا باوقار ادارہ ہی سرے سے ختم کردینا چاہئے کہ جب آپ کوقانونی فیصلے جعلی لگتے ہیں اورآپ نے اصل فیصلے عوامی عدالت ہی میں کرنے ہیںتونمٹائیے ان عدالتی اداروں کو بھی۔ یہ کیابات ہوئی کہ شترمرغ کی طرح جب قانونی دلائل دینے کی باری آئے تو آپ عوامی عدالت کی طرف لپکنے لگیں اور جب آپ اپوزیشن میں ہوں تودوسروں کو کرپشن کنگ کہہ کر عدالتوں میں گھسیٹنے کے دعوے فرمانے لگیں۔ بکواسی اوہ سوری خوفناکی کے خیال میں سیاستدانوں کایہ عوامی شعور پرکاری طنز بھی ہے، گویاوہ قانون کے سامنے پیش تو ہوتے ہیں مگر بس اپنی شوبھا بڑھانے کے لیے وگرنہ وہ سمجھتے ہیںکہ پاکستانی عوام اتنے با شعور نہیں کہ ان کی طبیعتوں پر ان باتوں کاکوئی اثرہوسکے۔ سیاستدان خوب سمجھتے ہیںکہ وہ بیرون ملک سرمایہ لے جائیں یا عدالتوں میں طلب کئے جائیں، عوام کے ہاں وہ ہرحال میں گنگا دھلے اور زمزم نہائے ہی رہیں گے۔
لو جی کرلوگل، تشویشناک خوفناکی سے۔